بتایا گیا ہے کہ ”راولپنڈی ایکسپریس“ کا آخری سٹاپ آگیا ہے پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے عالمی سطح پر تیز ترین گیند بازی کی شہرت رکھنے والے فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے کولمبو (سری لنکا) میں بھیگی پلکوں مگر پراعتماد چہرے کے ساتھ عالمی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کے مطابق عالمی کرکٹ کپ کے جاری ٹورنامنٹ 2011ء میں پاکستان کا آخری میچ شعیب کی عالمی کرکٹ کی زندگی کا آخری میچ ہوگا مگر یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ انہیں یہ میچ کھیلنے کا موقع ملے گا یا تماشائیوں میں جگہ ملے گی۔ پریس کانفرنس کے دوران شعیب اختر نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں اپنے والدین سے بات کرلی ہے والدین نے کہا کہ بیٹا بہت کھیل چکے اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں ہمارے پاس واپس آجاؤ اور پھر ازراہ مذاق شعیب اختر نے کہا کہ میرے والدین نے مجھے بتایا ہے کہ اگر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری اوور جیسے گیند کرانے ہیں تو ابھی سے واپس آجاؤ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے منیجر انتخاب عالم نے بتایا ہے کہ پالی کیلے میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد شعیب اختر پر ڈسپلن کی خلاف ورزی پر دو ہزار ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی مگر کہا جاتا ہے کہ شعیب اختر نے نیوزی لینڈ کے راس ٹیر کی اننگ کے بعد وکٹ کیپر کامران اکمل کو گالیاں دی تھیں جس سے پاکستان کے ڈریسنگ روم کا ماحول کشیدہ ہوگیا تھا۔ ایک اور خبر کے مطابق شعیب اختر سال رواں کے آخر میں شادی کے بندھن میں باندھے جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید جمہوری سیاست میں برداشت کا ہونا اتنا ضروری نہیں جتنی کھیلوں کے میدان میں سپورٹ مین سپرٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور عام شہرت کے مطابق شعیب اختر کے ہاں یہ جنس نہیں پائی جاتی جس کے تحت ان پر ڈریسنگ روم کے ماحول کو کشیدہ کرنے کے متعدد الزامات عائد ہوچکے ہیں ،ان الزامات کے تحت انہیں کھیل کے میدان سے باہر جانے کی سزا بھی دی گئی ہے۔ ان تمام حالات و کوائف نے ان کے کھیل اور عالمی شہرت کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی اسی شہرت کے تحت ان کی عالمی کرکٹ سے ریٹائرڈ ہونے کی خبر نے لوگوں کو زیادہ حیران نہیں کیا۔ عالمی کرکٹ کپ کے جاری ٹورنامنٹ کے ایک مقابلے میں کرکٹ کی قومی انتظامیہ نے انہیں کھیل کے میدان سے باہر بٹھایا اور انہیں شاید اس کے ردعمل میں کرکٹ کے عالمی میدان سے ریٹائر ہونے کا اعلان کرنا پڑا جس طرح ایک قدیم حکایت کی بڑھیا اپنے گاؤں والوں سے ناراض ہوکر اپنا مرغا بغل میں دبا کر گاؤں سے نکل گئی تھی کہ مرغا اذان نہیں دے گا تو گاؤں میں صبح بھی نہیں ہوگی، اندھیرے میں ڈوبا رہے گا۔
شعیب اختر کے اس رویے اور کردار کی کچھ ذمہ داری پاکستان کے کرکٹ کے کھیل کے ذمہ دار عناصر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ شعب اختر بطور فاسٹ باؤلر کرکٹ کے قومی میدان میں سترہ بیس سال پہلے داخل ہوئے تھے قومی کرکٹ کے ذمہ دار عناصر (افسران) کا یہ فرض تھا کہ وہ اگر قومی کرکٹ کے بہتر مستقبل کے بارے میں اپنے فرائض کو محسوس کرتے ہیں تو ان سترہ بیس سالوں میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے سکینڈ، تھرڈ لائن کے کچھ اور شعیب اختر، وسیم اکرم اور عمران خان تلاش کریں اور اگر نہیں کرسکتے تو اپنے فرائض کے بستر لپیٹیں اور قومی کرکٹ کے شعبہ سے باہر نکل جائیں۔ قومی تاریخ کے 63سالوں میں سے کم از کم 33سال براہ راست فوجی حکومتوں کے قبضے میں تھے اور فوجی منصوبہ سازوں کو اگر اپنے میدانوں میں فرسٹ لائن، سیکنڈ لائن اور تھرڈ لائن کی پرورش اور نگہ داری کا خیال ہوتا ہے تو جن سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی شعبوں پر وہ قبضہ کرتے ہیں ان میں بھی اس طرز عمل کو جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے عسکری رہنماؤں نے بھی قومی زندگی کے صرف جائیدادوں کی خرید و فروخت کے شعبوں پر ہی سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔
شعیب اختر کی قومی کرکٹ کے میدان میں سترہ بیس سالوں تک اچھی بری موجودگی کے دوران ا گر قومی کرکٹ کے ارباب بست و کشاد فرسٹ لائن کے بعد سکینڈلائن اور تھرڈ لائن کے فاسٹ باؤلرز تیار نہیں کرسکے تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے بھانجوں، بھتیجوں اور قریبی عزیزوں کے بچوں نے کرکٹ اور گیند بازی کے شعبے پر توجہ دینے کی بجائے کچھ اور میدانوں میں اپنی توجہ کا مظاہرہ کیا ہو اور کرکٹ کے ارباب بست و کشاد کو اندیشہ لاحق ہوا ہو کہ اگر کرکٹ کا کھیل غیر موروثی ہاتھوں میں چلا گیا تو سیاست اور حکومت بھی غیر موروثی ہاتھوں میں چلی جائے گی اور بلاشبہ یہ اندیشہ کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں تھا چنانچہ گزشتہ سترہ بیس سالوں میں کسی دوسرے یا غریب طبقے کے شعیب اختر کو کرکٹ کے میدان میں پاؤں دھرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔