• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طرف سے دارالحکومت اسلام آباد کی ناکہ بندی اور دھرنے کے دوران وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے ایک بیان میں کہا کہ ختمِ نبوّت کے عقیدے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان ایک تعلّق کا نام ہے۔ اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسان کے ذاتی عقائد میں مداخلت کرے یا کسی دوسرے کو اپنے مذہب کا یقین دلاتا پھرے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ بات اس شخص نے کہی ہے جو عقیدے یا مذہب اور سیاست کے ملاپ کے پر جوش حامی ہیں۔ آپ کے موجودہ لیڈر میاں نواز شریف کے مشترکہ لیڈر ضیاء الحق کے دور میں مذہب اور سیاست کے ملاپ کو پاکستانی سیاست کا عضوِ لاینفک بنا دیا گیا تھا۔ جس کے بعد خوفناک فرقہ وارانہ تشدّد اور قتل و غارت گری کا ایک ایسا دروازہ کھل گیا جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا۔ یہاں دنیا بھر سے مذہبی دہشت گردد رآمد کئے گئے انہیں فوجی ٹریننگ دی گئی اور دنیا کی دو بڑی سُپر پاورز کے غلبے کی جنگ میں ایک غیر مسلم سُپر پاور کی حمایت میں’’ جہاد‘‘ کیا گیا۔ جو پاکستان کے گلی کوچوں میں اس طرح پھیل گیا ہے کہ لوگ اپنے ذاتی جھگڑوں اور انتقام کے لئے دوسروں پر کفر یا توہین ِ مذہب کے فتوے لگا کر انہیں جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ جن لوگوں نے پاکستانی ریاست اور سیاست کو مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا تھا۔ آج جب وہی لوگ اُن کے خلاف دھرنے دے رہے ہیں تو انہیں یہ خیال ستا رہا ہے کہ مذہبی عقیدے کو سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہونا چاہئے۔ صرف یہی نہیں اس کی مزید طرح طرح کی تاویلیں بھی پیش کی جارہی ہیں کہ ان مذہبی سیاسی گروہوں کو کچھ ’’مخصوص حلقے‘‘ موجودہ حکومت کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ کیونکہ جب حلف نامے میں پرانی عبارت بحال کردی گئی ہے تو ’’ ختم ِ نبوّت ‘‘ کے نام پر اسلام آباد کی بندش موجودہ حکومت کو ’’مفلوج ‘‘ بنانے کی ایک سازش ہے۔ یہ کسی کی سازش ہے یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ جب آپ مذہب اور سیاست یا ریاستی امور کو ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کردیں گے تو اس بات کے سوفیصد امکانات ہوتے ہیں کہ مذہب کو اپنے سیاسی یا ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔جس کے نتائج ہمیشہ خوفناک ہوتے ہیں اور اس کا سب سے بُرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی سطح پر’’ مذہبی تقدّس‘‘ مجروح ہوجاتا ہے۔ کسی بھی مذہبی عقیدے کی تشریح ہر فرقے اور ہر شخص کے نزدیک اپنی اپنی ہوتی ہے اور انہی جداگانہ تشریحات کی بنیاد پر ہی ’’فرقے‘‘ وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذابہت سارے فرقوں کی موجودگی میں عقیدے کو سیاست کے ساتھ منسلک کرنے کے جو خوفناک نتائج سامنے آسکتے ہیںوہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ ایسے سانحات سے بھری پڑی ہے جب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کےلئے مذہب کو سیاست میں ملّوث کرکے نئے نئے بحران پیدا کئے گئے 1977میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے پاکستان قومی اتّحاد المعروف PNA نے انتخابات میں مبیّنہ دھاندلیوں کو اچانک ’’نظامِ مصطفیٰ ﷺ ‘‘کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ اور اس شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جس نے اس ملک کو پہلا متفقہ اسلامی آئین دیا تھا اور ختمِ نبوّت کے 90سالہ پرانے مسئلے کو حل کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ اس وقت کی مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ جو شخص ختمِ نبوّت کے مسئلے کو حل کرے گا ہم اس کے کتوں کے بھی غلام ہوں گے لیکن جس شخص نے یہ مسئلہ حل کیا اسے انتہائی سفاکی اور بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار نے میں وہی مذہبی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائد پیش پیش تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک ایسی فوجی حکومت برسرِ اقتدار آگئی ۔جس نے امورِ حکومت اور سیاست میں
مذہب کے نام پر ایسے ایسے اقدامات کئے جو مذہب کی اصل روح سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک فرقہ واریت کے ایسے عذابوں میں گرفتار ہوگیا جس سے اصل مسائل پیچھے چلے گئے اور ہمارا معاشرہ آگے بڑھنے کی بجائے صدیوں پیچھے چلا گیا۔ اور ہم ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں بے جا دخل دینے لگے جو خالصتاََ بندے اور خدا کا معاملہ ہوتا ہے اور بقول احسن اقبال اس میں مداخلت کا حق کسی دوسرے انسان کو نہیں دیا جا سکتا۔اسلام آباد کی ناکہ بندی کے دوران حالیہ دھرنے میں اس کے قائد ین نے جو زبان استعمال کی ہے اور جس طرح کھلے عام گالی گلوچ کی ہے اس کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ جو عالمی سطح پر ہمارےلئے تضحیک کا باعث بنیں اور اس سے مذہبی تقدّس برُی طرح مجروح ہوا ۔ صرف یہی نہیں انہوںنے نہ صرف راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو زندگیا ں اجیرن کردیں بلکہ اسکول جانے والے طالب علموں خصوصاََ طالبات کے بارے میں ایسے ریمارکس دئیے ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے عقیدے اور سیاست کو آپس میںجوڑ کر ایک ایسی نظریاتی کنفیوژن پھیلا دی ہے جس کا حل صرف یہی ہے کہ فی الفور مذہب کو سیاسی حراست سے آزاد کیا جائے ۔ کیونکہ پاکستان میں بسنے والوں کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور انہیں اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے کسی جماعت یا گروہ کے فتوے کی ضرورت نہیں۔ اب جب کہ ضیاالحق کے پیروکار بھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ عمل نہ صرف ریاست بلکہ مذہبی تقدّس اور رواداری کے بھی خلاف ہے تو انہیں جرا ت کرکے آگے بڑھنا چاہئے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سیاست اور مذہب کو علیحدہ کردینا چاہئے ورنہ ہماری ریاست اسی طرح انتشار اور بے چینی کا شکار رہے گی جسکی وجہ سے مزید کوئی ’’قومی سانحہ‘‘ رونما ہوسکتا ہے ۔
خدا کے نام پر غارت گری دیکھی نہیں جاتی
مسلمانی ہمارے عہد کی دیکھی نہیں جاتی
لہو سے بیگناہوں کے وضو کرکے کریں سجدے
خدایا اس طرح کی بندگی ، دیکھی نہیں جاتی

تازہ ترین