وہ کتاب مجھے آخرکار مل گئی جس نے مجھے سمجھایا کہ یہ جو آجکل ہورہا ہے، ہو کر گزر رہا ہے۔ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ پہلے بھی ہو کر گزرا ہے وطن عزیز میں۔ بس نشر مکرر ہے۔ انیس سو اکاون سے ابتک یہی ہوتا آ رہا ہے۔
یہ کتاب ہے راولپنڈی سازش کیس کے سابقہ اسیر اور پاک فوج کے سابقہ کپتان ظفراللہ پوشنی کی ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘‘ وہ کتاب جسے میں زندگی کا بڑا حصہ ڈھونڈتا رہا تھا۔ جو میرے بہت سے دوستوں نے کئی برس پہلے پڑھی تھی بس اتفاق ہے کہ مجھے یہ کتاب نہ ملی۔
میں پندرہ سولہ سال کا تھا جب میں نے اس کتاب کو پڑھنا چاہا تھا۔ مجھے وہ سردیوں کے دن یاد ہیں جب میں نے اک ہی وقت مذکورہ کتاب سمیت بہت سی کتابیں بذریعہ وی پی منگوانے کا آرڈر دیا تھا۔ ایک اپنے دور کا ہوا کرتا تھا لاہور میں ’’پیپلز پبلشنگ ہائوس‘‘۔ میں نے ایک دن کیسی کیسی کتابیں ایک ڈاک پارسل میں حاصل کی تھیں سوائے ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔‘‘ کے۔ ان کتابوں میں حبیب جالب کی اوائلی شاعری کا مجموعہ ’’برگ آوارہ‘‘ بھی شامل تھا۔ تو بلغاروی کہانیوں کا ایک اردو ترجمہ ’’ اٹھارہ دن اٹھارہ راتیں‘‘ بھی تو اک ناول کا ترجمہ ’’کپتان کی بیٹی‘‘ بھی۔ ناول ’’قافلہ شہیدوں کا ‘‘ کی دونوں جلدیں بھی ۔سجاد ظہیر کی ’’روشنائی‘‘ بھی تو عبداللہ حسین کی ’’اداس نسلیں‘‘ بھی تو کلپنا دت کی کتاب ’’چٹ گائوں کے انقلابی ‘‘بھی جو کہ رضیہ سجاد ظہیر کا ترجمہ تھا۔ ہاں یاد آیا اس میں فیض احمد فیض کی شاعری کا مجموعہ ’’زندان نامہ‘‘ بھی تھا جسکا دیباچہ راولپنڈی سازش کیس کے ایک اور قیدی میجر اسحاق محمد نے لکھا تھا۔ یہ تمام کتابیں مجھے یاد ہے کہ ساٹھ روپوں میں پڑی تھیں۔
لیکن نہ ملی تو کیپٹن ظفراللہ پوشنی کی کتاب ۔ وہ کتاب مجھے پیپلزپبلشروالوں نے لکھا تھا کہ ’’آئوٹ آف اسٹاک ‘‘ ہو گئی ہے۔ مجھے اس کتاب اور اسکے مصنف ظفراللہ پوشنی کے متعلق تجسس ہی رہا۔ کئی دنوں بعد مجھے کسی نے بتایا تھا کہ وہ سید قائم علی شاہ کے سمدھی ہیں۔ باقی کتابوں کو میں بھول بھال گیا لیکن ان میں فیض کی شاعری، حبیب جالب کی شاعری، ’’اداس نسلیں‘‘ اور نہ جانے کیوں میجر اسحاق کی تحریر میرے ساتھ رہیں۔ حبیب جالب کی رومانوی اور سیاسی شاعری کا یہ چھوٹا سا مجموعہ۔
’’قاعد اعظم دیس میں تیرے تیس روپے من آٹا ہے’’ (جسے میں ’’ساٹھ روپے کر کے پڑھتا کہ اسوقت آٹا ساٹھ روپے من ہو چکا تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا۔ آٹے چینی کے راشن ڈپو جیالے چھوٹے موٹے لیڈروں کی نئی اور واحد کرپشن تھی۔ عوام کو ملے تھے پانی کے نلکے اور جیالوں کو ففٹی موٹر سائیکلیں یہ ایک الگ کہانی ہے پھر سہی)۔
پچھلے دنوں کولمبیا یونیورسٹی کی لائبریری میں جنوبی ایشیا پر کتابیں ڈھونڈتے ہوئے مجھے ظفراللہ پوشنی کی کتاب مل گئی وہ بھی اسکی پہلی اشاعت۔ ناشر مصنف، خود ملنے کا پتہ غالب لائبریری ،دوسری چورنگی ناظم آباد کراچی 18۔ میں نے اس کتاب کو دو ڈھائی دنوں راتوں میں ختم کیا۔ جب میں اس کتاب کی تلاش میں تھا تب بمشکل سولہ سال کا تھا اور اب نصف صدی گزر گئی۔ یہ ایسا ہی تھا جب سولہ سال کی عمر میں تلاش کیے جانے والا محبوب آدمی کو پچاس کا پیٹا گزر جانے کے بعد ملے۔
کتاب کو میں نے کتاب کے اندر کے کرداروں اور باہر کے زمان و مکان میں پڑھنے کی کوشش کی۔ کرداروں میں جیل کے اندر ملزمان کے علاوہ بھارتی ڈاکو بھوپت سنگھ(جو نہرو کی زمینداری کے خاتمے کے خلاف کسانوں کو زمینداروں کی طرف سے ڈرانے اور انہیں قتل کرنے کے بعد پاکستان بھاگ آیا تھا اور پھر مشرف بہ اسلام ہوکر بھوپت سنگھ سے شیخ یوسف امین بن گیا)، حر ڈاکو رحیم ہنگورواور اسکا جیل سے فرار ، کئی دنوں بعد سیاسی قیدی بن کر آنیوالے جی ایم سید، سوبھو گیان چندانی، غلام محمد لغاری اور میر محمد تالپور۔ جیل سے باہر راولپنڈی کیس قیدیوں کا خیال رکھنے والی بیگم مجید ہ بھرگڑی اور غلام رسول بھرگڑی ۔اس کتاب کو کہ جس کا انتساب میر رسول بخش تالپور کے نام ہے۔ میر رسول بخش تالپور جن پر کہ خود ایک سے زیادہ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ یہ کہانی ظفر اللہ پوشنی کی اس دن سے شروع ہوتی ہے جب وہ راولپنڈی میں بطور کپتان تعینات تھے اور وہ مئی انیس سو اکاون کی ایک صبح جب دفتر جانےکیلئےوردی زیب تن کیے آئینے پر اپنی ٹوپی سیدھی کر رہے تھے تو اردلی نے انہیں بتایا تھا کہ باہر کو ئی بڑا افسر کار میں بیٹھا ان کو بلا رہا ہے۔ یہ ایک بریگیڈئر تھا جس نے انہیں تھانے لے جا کر باجوہ نامی انسپکٹر کے حوالے کیا۔ واقعی تب بھی باجوے ڈاڈھے تھے(میں کسی چھوٹے بڑے باجوے کی نہیں اپنے دوست عمران باجوے کی بات کررہا ہوں)۔ لیکن بریگیڈئر کتنے اچھے ہوا کرتے تھے کہ اپنے فوجیوں کو بھی پولیس کے حوالے کیا کرتے تھے کہ جس کا کام اسی کو ساجے۔ تب لوگوں کو غائب نہیں کیا جاتا تھا۔ انسپکٹر باجوے نے انہیں بتایا کہ وہ اپنی ٹوپی اور قمیص اتاردیں کہ انکو ’’سازش کیس‘‘ میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہ سازش کیس ’’راولپنڈی سازش کیس’’ تھا جسکے دیگر ملزمان اسوقت کے افواج پاکستان کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل اکبر خان، میجر جنرل نذیر احمد، ایئر کموڈر محمد خان جنجوعہ، میجر اسحاق محمد سمیت فوج کے سینئر اور جونیئر افسروں کے علاوہ ایک خاتون سمیت چار سویلین بھی تھے انکے نام تھے فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، محمد حسین عطا اور بیگم نسیم اکبر خان۔ پنڈی سے لاہور اور پھر لاہور میں اکٹھے کیے گئے تمام ملزمان بشمول سجاد ظہیر کو بذریعہ ٹرین حیدرآباد کی تاریخی سینٹرل جیل منتقل کیا گیا جہاں انہیں سزائیں سنائے جانے تک (اور پوشنی اور محمد حسین عطا کے معاملے میں سزائیں کاٹنے تک) اپنا ’’ٹائم پاس‘‘ کرنا پڑا تھا۔ یہ جان کر کہ اس مقدمے کے استغاثہ کے وکیل اے کے بروہی تھے میں نے سوچا کہ سندھ اور برصغیر کے یہ ذہین اور فلسفیانہ ذہن کی نظریہ ضرورت فیکٹری کتنا ریاست کے ساتھ وفادار رہا تھا۔ سوائے اگرتلہ سازش کیس جس میں شاید وہ شیخ مجیب الرحمان کا حکومت کی طرف سے مہیا کردہ وکیل صفائی تھا۔ راولپنڈی مقدمے کے دو وعدہ معاف گواہ تھے کرنل صدیق راجہ میجر یوسف سیٹھی۔ اس مقدمے میں تمام ملزمان کو مختلف سزائیں لگی تھیں سوائے بیگم نسیم اکبر خان کے جسے بری کردیا گیا تھا۔ ملزمان کیخلاف مقدمے کی سماعت والی خاص عدالت کے جج تھے جسٹس سر عبدالرحمان بالمعروف جسٹس ایس اے رحمان۔ پوشنی صاحب سمیت ملزمان اور جج صاحب کے درمیان مکالمہ ملاحظہ کریں:
صاحب صدر (سربراہ عدالت ) کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہوگیا بولے ’’ ہاں- لیکن یاد رکھیے کہ آپ کے خطوط باقائدہ سنسر کیے جائیں گے تاکہ جیل سے باہر اپنے ساتھیوں کو ایسی ویسی باتیں نہ لکھ سکیں- میں آپ کو بالکل صاف صاف بتادینا چاہتا ہوں کہ کہ اگر آپ کا رویہ شریفانہ ہوگا تو ہمارا رویہ بھی شریفانہ ہوگا‘‘ پوشنی آگے لکھتے ہیں ’’صدر صاحب کی تقریر مجھے کچھ مضحکہ خیز معلوم ہوئی۔ بالخصوص انکی یہ تنبیہ کہ عدالت کا رویہ صرف اسی وقت شریفانہ ہوگا، جب ملزمان کا رویہ شریفانہ ہوگا۔ میں نے سوچا عدالت کو تو ہر حال میں ’’شریف‘‘ ہونا چاہیے چاہے مجرم کا رویہ کیسا ہی ہو۔‘‘ تو پیارے قارئین کتاب کی باقی باتیں تو کتاب پڑھنے کے وقت پڑھ ہی لیں گے لیکن جو بات میں آپ سے کہنا چاہتاہوں کہ پس ثابت ہوا کہ گویا آج بھی پاکستان کا گھنٹہ سنہ اکاون پہ کھڑا ہے پھر چاہے ملزم شریف نواز شریف ہو۔ تاریخ کا انصاف دیکھیں کہ پھر اسی جسٹس ایس اے رحمان کے بیٹے راشد رحمان اور اسد رحمان انیس سو تہتر والی بلوچ سرکشی کے دو اہم کردار بنے۔ راولپنڈی سازش کیس کے ملزمان میں اسوقت کے کرنل نیاز محمد ارباب بھی تھے جو بعد میں ضیا الحق کی کابینہ میں وزیر بنے۔
نیز یہ بھی دیکھیں کہ کتنی مماثلت ہے آج اور کل میں جب انہی اسیروں کے درمیان طرحی مشاعرے کے چند بند ظفراللہ پوشنی کے یوں تھے:
کنج خیال و فکر بیاباں ہے ان دنوں
شیرازہ حواس پریشاں ہے ان دنوں
ہم بے نیاز سلسلہ روزگار ہیں
تم سے ملیں فقط یہی ارماں ہیں ان دنوں
جو اہل علم و فن ہیں وہ کافر ہیں ان دنوں
جو دشمن خرد ہے مسلماں ہیں ان دنوں