بات ہے کوئی ایک ڈیڑھ ماہ قبل کی جب پنج پیرصوابی میں مولانا محمد طیب کی جماعۃ اشاعت والتوحید کے اجتماع میں مولانا سمیع الحق فاٹا انضمام کے مخالفین کے خلاف گرج رہے تھے اورخیبرپختونخوا میں اسلامائزیشن کے لئے تحریک انصاف کی تعریف کررہے تھے جبکہ پنڈال میں موجود ہزاروں پرجوش کارکن دل کی گہرائیوں سے نعرے لگا کران کی تائید کررہے تھے تو اسٹیج پربیٹھے بیٹھے ہی ہمیں کم ازکم مولانا سمیع الحق کی حد تک ایم ایم اے کامستقبل تاریک نظرآیا ۔ مولانا سمیع الحق جو2002میںصوبے میں ایم ایم اے کی حکومت بننے کے بعد اپنی جماعت کو اس کا پورا حق نہ ملنے پرہمیشہ ناراض رہتے تھے اب مولانا فضل الرحمن سے ناراضی کی بنا پراوربھی دورجاچکے ہیں جبکہ رہی سہی کسرانہوں نے تحریک انصاف کوآئندہ انتخابات کے لئے اپنا اتحادی بناکرپوری کرلی۔ ایم ایم اے کی ممکنہ تشکیل نو کے اس مرحلے پراس اتحاد میں مولانا سمیع الحق فاٹا کو صوبے میں شامل کرنے کے معاملے پرسراج الحق جیسی سوچ رکھتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ فاٹا خیبرپختونخوا کا حصہ بنے جبکہ مولانا فضل الرحمن فاٹا کے صوبے میں ضم ہونے کے مخالف بلکہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں ایسے میں اگران سب کوپھرایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہے تواس سے پہلے ان کوفاٹا کے معاملے پر اتفاق پیدا کرنا ہوگا (جوابھی تک توناممکن لگ رہی ہے)ملکی اورعلاقائی حالات 2002سے بالکل مختلف ہیں جب عام لوگوں نے ایم ایم اے کوامریکہ مخالف اتحاد سمجھ کراسے اپنے ووٹوں سے لاددیالیکن اب وہ حالات نہیں رہے، 2002ءمیںخیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں افغانستان پرامریکی حملے اورطالبان کے خلاف کارروائیوں سے فضا امریکہ مخالف تھی جو مذہبی جماعتوں کے حق میں استعمال ہوگئی۔ لیکن آج عام لوگ افغانستان میں امریکی موجودگی کے حوالے سے بالکل بھی جذباتی نہیں ۔ رہی سہی کسرگزشتہ پندرہ سالوں کے دوران پاکستان خصوصا خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری کردی۔ عام لوگوں کے سامنے دہشت گردی کےواقعات ہوئے اوران واقعات میں ملوث لوگوں نے خود کو مذہب سے جوڑے رکھا جس کی وجہ سے عام آدمی مذہبی جماعتوں سے متنفرہوگیااوراس دوری میں اضافے کی بڑی وجہ دہشتگردی کے خلاف ان جماعتوں کی زبان بندی بھی رہی ہے ۔ تحریک انصاف نے بھی گزشتہ چارسالوں میں اسلامائزیشن کی طرف جواقدامات کئے چاہے وہ نیک نیتی سے کئے گئے ہوں یا ان کا مقصد سیاسی فائدے کا حصول ہواس نے مذہبی جماعتوں کے اس متوقع اتحاد کی کامیابی کو مشکل سے دوچارکردیا ہے۔عمران خان کی تحریک انصاف نے صوبے میں شخصی سود کے خلاف قانون سازی کی، قرآن مجید کے ناظرے کواسی حکومت نے اسکولوں میں نافذ کیا، مساجد کے پیش اماموں کو تنخواہ دینے کے عمل پرکام کا آغاز کیا ، مساجد کوبجلی کے بلوں کی ادائیگی سے آزاد کرنے کے لئے پشاورسے مساجد کی بجلی کو شمسی توانائی پرمنتقل کرنے کا عمل شروع کیااورثابت کیا کہ وہ بھی اتنے ہی اسلامی سوچ کے حامل ہیں جتنا کوئی اورہے۔ یہاں تک کہ ایم ایم اے کے دورحکومت میں حسبہ فورس (جوبننے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے ذریعے روک دی گئی تھی)کے ذریعے ہونے والے کام اپنی ٹریفک پولیس سے کروائے ۔ تحریک انصاف برائی کوروکنے کے کام میں ایم ایم اے سے زیادہ خوش قسمت ٹھہری ہے کہ نہ ہی مرکز میں پرویزمشرف کی حکومت ہے اورنہ ہی بین الاقوامی میڈیا نے اس معاملے کوبنیادی انسانی حقوق کے نام پراٹھایا ہے جس کی وجہ سے عمران خان کی جماعت کی حکومت تنقید سے محفوظ رہی ورنہ ان کا بھی وہی حشرہوتا جو ایم ایم اے کے دورحکومت میں جماعت اسلامی کا ہوا۔ عمران خان اوران کی جماعت نے اپنے اقدامات سے مذہبی ووٹ کو کافی حد تک متاثرکیا ہے۔ ایسے میں اگرایم ایم اے بنتی ہے اوریہ ساری مذہبی جماعتیں خیبرپختونخوا کو ٹارگٹ کرکے ووٹ کے میدان میںآتی ہیں تواب کی باران سب کو بہت مشکلات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے ۔موجودہ دورمیں ایم ایم اے کے پاس ایسا کوئی نعرہ نہیں جس کی بنیاد پروہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرسکے، ملک میںایسی آمریت کا راج نہیں جس نے امریکہ کے ایجنڈے کواپنایا ہواور خود اپنے ہی شہری اپنی ہی حکومت سے برسرپیکارہوں، تحریک انصاف حکومت کی دینی خدمات اورمولانا سمیع الحق کی نئی سوچ وہ رکاوٹیں ہیں جو ایم ایم اے کی تشکیل کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ ایم ایم اے کا ووٹ بینک اگر ایک طرف اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے متاثر ہوتا نظر آرہا ہے وہیںانتخابی عمل میں دونئی مذہبی سیاسی جماعتوں ملی مسلم لیگ اورتحریک لبیک یارسول اللہ نے ایم ایم اے کے کام کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ایسے میں اگرایم ایم اے کو انتخابی اتحاد کا معرکہ سر کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے ایسے حالات پیدا کرنا ہونگے جن سے لوگ خود ہی اسے اپنی ضرورت سمجھ کراسے ووٹ دے دیں اور لوگ اس کی ضرورت کوسمجھتے ہوئے اس کوسنجیدہ لیں ورنہ اب کی بار لوگوں کو ایم ایم اے کے حق میں اپناووٹ استعمال کرنے کے لئے قائل کرنا مشکل ہوجائے گا۔
نوٹ: یہ ساری باتیں اس وقت کے بارے میں ہیں جب ایم ایم اے دوبارہ وجود میں آجائے گی جس کے کوئی آثارمجھے فی الحال نظرنہیں آرہے۔