ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اس بار ہم فیصل آباد ادبی میلے یا جشن ادب کے بارے میں لکھیں گے۔ لیکن ہم بھول گئے تھے کہ انہی دنوں وہ سیاسی جماعت اپنی پچاسویں سالگرہ بھی منا رہی ہے جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو بولنا سکھایا۔ اس لئے آج ہم اس جماعت کی بات کر رہے ہیں۔ پچاس سال پہلے جب لاہور میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ہم ملتان میں تھے۔ اور اب جو اس پارٹی کی پچاسویں سال گرہ منائی جا رہی ہے تو ہم لاہور میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ پچاس سال پہلے جب یہ پارٹی وجود میں آئی تو لاہور میں عوامی جوش و خروش کا کیا حال تھا۔ ہمیں تو اخباروں کے ذریعے ہی خبریں مل رہی تھیں۔ البتہ ان دنوں ملتان جیسے یکایک گہری نیند سے جاگ اٹھا تھا۔ اچانک سب کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کا راستہ صاف نظر آنے لگا تھا۔ کیا جوش و خروش تھا۔ کیا جذباتی ابال تھا جو اس علاقے کے نو جوانوں میں پھوٹا پڑتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس علاقے میں بائیں بازو کی جماعتیں کام نہیں کر رہی تھیں۔ وہاں کام کرنے والی بائیں بازو کی جماعتوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ سید قسور گردیزی بائیں بازو کی تحریک کے روح رواں تھے۔ ایوب خاں کے دور میں انہوں نے صرف جیل ہی نہیں کاٹی بلکہ اپنا سارا کاروبار بھی تباہ کرا لیا تھا۔ ان کے ساتھ عطاء اللہ ملک اور حبیب پاسلوی جیسے بے لوث کارکن بھی تھے لیکن جاگیردارانہ سماج کی جکڑ بندیوں میں پھنسے اس علاقے میں بائیں بازو کی یہ تحریک اپنا مقام نہیں بنا سکی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہ تحریک صرف مزدوروں، کسانوں اور دوسرے محنت کش طبقوں کے حقوق کی بات کرتی تھی۔ وہ پڑھا لکھا درمیانہ طبقہ، جو ہمیشہ بالائی طبقوں میں شامل ہونے کا خواہش مند رہتا ہے اس تحریک میں اپنے لئے کوئی کشش محسوس نہیں کرتا تھا۔ اب جو پیپلز پارٹی سامنے آئی تو اس طبقے کو احساس ہوا کہ یہی جماعت ہے جو اس کی آرزوئوں اور امنگوں کی ترجمانی کر سکتی ہے۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی دلکش شخصیت کا کرشمہ بھی شامل تھا اور یہ دلکشی ایوب خاں کے زمانے سے ہی چلی آ رہی تھی۔ تاشقند نے اور بھی آگ بھڑکا دی تھی۔ عام محنت کش بھی اس درمیانہ طبقے کے ساتھ ہو لیا تھا۔ اسے بھی اپنی آواز مل گئی تھی۔ چنانچہ ادھر پیپلز پارٹی آئی، اور ادھر ملتان اور سارے سرائیکی وسیب پر چھا گئی۔ ملتان میں کون ایسا ہوش مند نوجوان تھا جو اس کے ساتھ نہیں تھا۔ اشفاق احمد خاں، مختار اعوان، محمود بابر، ساجد پرویز اور کالج کے لڑکوں میں انوار احمد اور اصغر ندیم سید جیسے نوجوان اس پارٹی کا ہراول دستہ بن گئے۔ خواتین کو حسینہ بیگم نے منظم کیا۔ اس علاقے کی خواتین کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی جماعت نے ان کی طرف توجہ کی تھی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی چکا چوند میں دوسری جماعتوں کی روشنی ماند پڑ گئی۔
اب آئے عام انتخابات۔ ان انتخابات میں بھلا دوسری کوئی جماعت پیپلز پارٹی کا کیا مقابلہ کر سکتی تھی۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کسی کھمبے کو بھی ٹکٹ دیا تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا، یہ غلط نہیں ہے۔ مرحوم سید عباس شاہ گردیزی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اگر کسی انسان کو مرنجاں مرنج کہا جا سکتا ہے تو وہ سید عباس شاہ تھے۔ اتنے شریف انسان کہ جیسے شرافت ان پر ہی ختم ہو گئی ہو۔ سرکاری افسری سے سبک دوش ہو ئے تھے۔ مگر کسی طرح بھی سرکاری افسر نظر نہیں آتے تھے۔ خدا جانے کیسے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ الیکشن میں انہیں ٹکٹ بھی مل گیا۔ ان کی انتخابی مہم کا یہ حال تھا کہ جہاں تک ان کی بگی جا سکتی تھی وہاں جا کر ان کی مہم ختم ہو جاتی تھی۔ جس شام الیکشن کا نتیجہ آنے والا تھا اس شام شاہ صاحب اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے تھے۔ انہیں ہار جیت کی کوئی پروا نہیں تھی۔ نتائج آنا شروع ہوئے، اور ہم نے کامیاب امیدواروں میں ان کا نام دیکھا تو انہیں مبارک باد کا فون کیا۔ وہ حیران پریشان۔ اچھا....؟ میں جیت گیا؟ سید قسور گردیزی کے چھوٹے بھائی اور ہمارے مرحوم دوست ولایت حسین گردیزی ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ عباس شاہ صاحب کو ان حلقوں سے ووٹ ملے ہیں جہاں وہ گئے نہیں تھے۔ یہ تھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور اس کی شہرت۔ یہ تو ملتان کی ایک مثال ہے۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پورے پاکستان میں ایسا ہی ہوا۔
ہم نے کہا ناں کہ اس وقت یہ پارٹی پڑھے لکھے نوجوانوں کی امنگوں کی ترجمان تھی۔ اس کا ایک نمونہ ہم نے بھٹو صاحب کے ایک جلسے میں دیکھا۔ یہ ایوب خاں کی حکومت تھی۔ بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی بنالی تھی۔ ملتان کے قاسم باغ میں جلسہ تھا۔ آج تو سیاسی جلسوں میں پانچ دس ہزار کرسیاں لگائی جاتی ہیں،ان دنوں مشکل سے سو پچاس کرسیاں لگائی جاتی تھیں۔ ان کرسیوں پر مقامی رہنما اور کارکن بیٹھتے تھے۔ ابھی میدان پارٹی کے جیالوں سے بھرا بھی نہیں تھا کہ سامنے کرسیوں پر مار دھاڑ شروع ہو گئی۔ ہم اور اے پی پی کے منیجر افضل خاں دمدمہ پر کھڑے تھے۔ ہمارے ساتھ ایڈیشنل کمشنر اسلم سکھیرا بھی کھڑے تھے۔ ہنگامہ شروع ہوا تو سکھیرا صاحب چیخ اٹھے۔ دیکھو دیکھو، پیپلز پارٹی والے بدمعاشی کر رہے ہیں۔ سکھیرا صاحب سے ہماری بے تکلفی تھی۔ ہم نے انہیں دیکھا اور ہماری ہنسی نکل گئی۔ یہ حکومت کے کارندے تھے جو جلسہ خراب کرنا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوانوں نے کرسیاں مار مار کر انہیں بھگا دیا تھا۔ یہ اور بات کہ بعد میں بلکہ بہت بعد میں یہ نوجوان مایوس ہو کر دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ مگر پارٹی بھی تو وہ نہ رہی جو شروع میں تھی۔ تو، اب جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ آخر یہ پارٹی ایسی کیوں نہیں رہی؟ پورے پاکستان کی واحد نمائندہ جماعت صرف ایک صوبے تک کیوں محدود ہو گئی؟ سیاسی مبصر تو اس کا تجزیہ کر رہے ہیں لیکن اس پارٹی کے پرانے کارکنوں کو بھی ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کرنا چاہئے۔ اور نوجوان قیادت کو پارٹی کی اساسی دستاویزوں یا فائونڈنگ پیپرز کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔ اسے یہ حقیقت بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ بنیادی اصولوں سے انحراف کے باوجود ہمارے اصل حکمران اس جماعت پر کبھی بھروسہ نہیں کریں گے۔ انہیں ہمیشہ یہ خوف کھاتا رہے گا کہ یہ جماعت عام آدمی کی آرزوئوں اور امنگوں کی ترجمان ہے اور آخرکار وہ مقتدر حلقوں کے بجائے عام آدمی کے حقوق کا تحفظ ہی کرے گی۔ اور یہی وہ پارٹی ہے جس سے ترقی پسند، روشن خیال اور وسیع المشرب سیاست کی توقع کی جا سکتی ہے۔