حضور اکرمﷺ سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لازم ہے، وہ شخص مسلمان کہلائے جانے کا مستحق نہیں جس کا دل نبی کریمﷺ کی محبت سے خالی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نبی کریمﷺ سے محبت کو اپنی جان، اہل و عیال، مال و دولت اور دنیا کی تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے اور ہم خوش نصیب ہیں کہ ہماری زندگی میں ایک بار پھر یہ بہار آئی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے گزشتہ دنوں حضور اکرمﷺ کا یوم ولادت انتہائی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے منایا۔ یہ دن شایان شان طریقے سے منانے کا ایک مقصد اسلام دشمنوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ تمام تر سازشوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود بھی اسلام اور نبی کریمﷺ کی محبت میں کمی نہیں لائی جاسکتی بلکہ نبی کریمﷺ سے محبت اور اُن سے جذباتی لگائو میں جنون کی حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس بار عید میلاد النبیﷺ کا مبارک دن میرے لئے اُس وقت دہری خوشیاں لے کر آیا جب اس مقدس دن میں نے اپنے قریبی دوست یاسین ملک کی رہائش گاہ پر حضور اکرمﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کی۔ اس سے پہلے کہ میں اس بارے میں کچھ تحریر کروں، قارئین سے یاسین ملک کا تعارف کراتا چلوں۔ کچھ دوستیاں اللہ کے گھر میں جنم لیتی ہیں، یاسین ملک سے بھی میری پہلی ملاقات کچھ سال قبل غسل کعبہ کی تقریب میں ہوئی۔ یاسین ملک پاکستان کی مشہور فارماسیوٹیکل کمپنی کے سربراہ ہیں اور ان کا شمار کراچی کے معروف و بڑے بزنس مینوں میں ہوتا ہے۔ غسل کعبہ کی تقریب میں میرے ساتھ یاسین ملک کے علاوہ میرے بھائی اختیار بیگ اور کئی ممالک کی اہم شخصیات بھی شریک تھیں جہاں ہم نے خانہ کعبہ کے اندر 45 منٹ ساتھ گزارے اور غسل کعبہ کی تقریب میں حصہ لیا۔ اس دوران مجھے اس جگہ نوافل ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جہاں حضور اکرمﷺ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر میں نے سجدے میں جاکر بے اختیار اپنی زبان سے فرش کو چاٹا تاکہ خاک کے کچھ ذرے میری روح کو سرشار کردیں۔ وطن واپسی پر یاسین ملک سے یہ ملاقات قریبی دوستی میں تبدیل ہوگئی اور ان کی خوبیاں مجھ پر آشکار ہوتی چلی گئیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا عبادت گزار شخص کبھی نہیں دیکھا جس نے 40 سے زائد حج اور سینکڑوں عمرے کئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یاسین ملک کو دین اور دنیا دونوں نعمتوں سے نوازا ہے، کوئی ضرورت مند ان کے گھر سے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔خانہ کعبہ کے دروازے کی چابی کے متولی شعابی خاندان سے یاسین ملک کے انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ کا موئے مبارک اُنہیں تحفتاً دیا تھا۔ یاسین ملک نے موئے مبارک کیلئے اپنے گھر میں ایک کمرہ خصوصی طور پر مختص کر رکھا ہے جہاں قیمتی قالین بچھے ہیں جبکہ دیواروں پر خانہ کعبہ کے غلاف کا بڑا ٹکڑا جو اُنہیں اسی خاندان نے تحفتاً دیا تھا، آویزاں ہے۔ کمرے میں خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کی ایسی اندرونی تصاویر بھی آویزاں ہیں جو میں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھیں۔ میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو ماحول میں ایک خاص قسم کی خوشبو رچی تھی۔ کمرے کے وسط میں شیشے کے ایک انتہائی نفیس اور دلکش شوکیس میں نبی کریمﷺ کے موئے مبارک کو خوبصورتی سے رکھا گیا تھا جسے شوکیس میں نصب عدسے کی مدد سے بخوبی دیکھا جاسکتا تھا۔ میں نے جھک کر جب موئے مبارک کی زیارت کی تو مجھے دو موئے مبارک نظر آئے جنہیں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میری آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں عیدمیلادالنبیﷺ کے موقع پر اپنی گناہگار آنکھوں سے پیارے نبی ﷺ کے سر مبارک کے بال دیکھ رہا ہوں۔ اس موقع پر میں نے وطن عزیز اور اپنے لئے خصوصی دعائیں مانگیں۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن حضورﷺ کے صدقے میری دعائوں کو ضرور قبول فرمائے گا۔ دوران ملاقات یاسین ملک نے مجھے موئے مبارک کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بال جب انہیں تحفے میں ملے تھے تو ان کا سائز چھوٹا تھا مگر اب ان کی لمبائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان بالوں میں زندگی موجود ہے لیکن موجودہ دور کی سائنس اسے سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ سائنسی طور پر بالوں کی گروتھ کیلئے اس کا جسم سے منسلک ہونا ضروری ہے۔
نبی کریمﷺ کی ذات مبارکہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی خصوصی اہمیت و مقام رکھتی ہے۔ معروف عیسائی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "The Hundred" میں دنیا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی 100 عظیم ترین شخصیات میں حضور اکرم ﷺکی شخصیت کو پہلے نمبر پر رکھا ہے جبکہ جرمنی کے مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار گوئٹے نے اپنی تخلیق ’’دیوانِ مغرب‘‘ میں جگہ جگہ نبی کریمﷺ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح فرانس کے شہنشاہ نپولین بونا پارٹ نے مذہب اسلام کے تیزی سے پھیلائو پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ نبی کریمﷺ ہی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے حسن اخلاق اور تعلیمات کی بدولت اُن کے دور میں لاکھوں غیر مسلم اپنے مذہب سے تائب ہوکر مسلمان ہوئے۔ بھارت کے بانی مہاتما گاندھی کے بقول ’’میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں، اتنا ہی میرا اس بات پر یقین راسخ ہوتا چلا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ پیار محبت اور نبی کریمﷺ کے اعلیٰ حسن اخلاق کی بدولت پھیلا جنہوں نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔‘‘ معروف فرانسیسی محقق ڈی لمرٹائن اپنی کتاب ’’تاریخ ترکی‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر انسانی عظمت ناپنے کیلئے تین اہم شرائط مقصد کی بلندی، وسائل کی کمی اور حیرت انگیر نتائج سامنے رکھے جائیں تو اس معیار پر دور جدید کی کوئی شخصیت، نبی کریمﷺ سے مقابلے اور ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔‘‘
آج مغربی ممالک میں حضوراکرمﷺ کی شخصیت سے متاثر ہوکر اُن پر ریسرچ کی جارہی ہے اور امریکہ و یورپ کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ ایک انسان کس طرح اتنی خصوصیات کا حامل ہوسکتا ہے۔ وہ اس بات پر بھی ششدر ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے کم وسائل کے باوجود کس طرح جنگوں میں فتوحات حاصل کرکے اسلام پھیلایا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مایئر پر جب یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ جس روز نبی کریمﷺ کا وصال ہوا، اُن کے گھر میں چراغ جلانے کیلئے تیل خریدنے کے پیسے بھی نہ تھے اور نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے نبی کریمﷺ کی ذرہ بکتر گروی رکھ کر تیل خریدا حالانکہ اُس وقت گھر کی دیواروں پر کئی تلواریں لٹک رہی تھیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب اسلام میں دفاع کو ترجیح حاصل ہے۔ گولڈا مایئر اس واقعے سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ کی حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنے ملک کے دفاع کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔ گولڈا مایئر کے بقول ’’دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو حضور اکرمﷺ کے دور کی اسلامی ریاست کی کمزور معاشی حالت جانتے ہیں مگر اسی اسلامی ریاست میں ایسے عظیم مسلمان سپہ سالار بھی تھے جنہوں نے آدھی دنیا فتح کی۔‘‘
میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرتا ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے غسل کعبہ کی تقریب میں شرکت اور اب نبی کریمﷺ کے موئے مبارک کی زیارت نصیب فرمائی۔ آج حضور اکرمﷺ کی شخصیت اور سیرت مبارکہ سے غیر مسلم استفادہ کرکے اُن کی بنیادی تعلیمات کو اپنارہے ہیں۔یورپ میں فلاحی ریاست کا تصور، عدل و انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی وہ چند مثالیں ہیں جو غیر مسلموں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنائی ہیں مگر افسوس کہ مسلمان اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث وہ زوال کا شکار ہیں۔ اگر آج مسلمان، حضور اکرم ﷺکی تعلیمات اور اُن کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنالیں تو اُمت مسلمہ کو درپیش مشکلات اور مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔