پاکستان پیپلز پارٹی کی سوچ اور پالیسیوں سے کوئی ہزار مرتبہ اختلاف کرے مگر وطنِ عزیز کی عوامی و سیاسی تاریخ میں اس کے مثبت یا منفی کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ درویش ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ اور پالیسیوں کا جتنا بڑا ناقد رہا ہے محترمہ بے نظیر کے وژن کا اتنا ہی بڑا مداح۔ یہ محترمہ کی فکری و شعوری عظمت تھی کہ وطنِ عزیز کی سیاست، بلوغت کی معراج یعنی ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ تک جا پہنچی لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ پارٹی میں کتنے لوگ تھے جو ان جیسا وژن یا اس وژن کا ادراک بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی کی بدولت اقتدار ملنے کے بعد ان کے سیاسی جانشینوں نے وسیع تر عوامی ہمدردی کو بے دردی سے ضائع کیا۔ پی پی نے وطنِ عزیز کی صدارت پر جن صاحب کو بٹھایا بلاشبہ انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور جمہوری حوالے سے اپنے آپ کو صلح جوئی و مصالحت کا علمبردار قرار دیا لیکن اس کے علاوہ تاحال اُن کا کوئی کارنامہ سامنے نہیں آ سکا۔ مابعد جمہوری صلح جوئی کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔
موصوف اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی بیگم صاحبہ کی بجائے اپنے سسر صاحب سے زیادہ متاثر ہیں ۔ شاید اسی لئے انہوں نے بی بی کے مقدمہ قتل پر تو کبھی کوئی شتابی یا تشویش نہیں دکھائی البتہ اپنے سسر کے مقدمہ پر ہمیشہ یہ کہتے سنائی دیے کہ وہ جوڈیشل مرڈر تھا۔ اب دوبارہ انہوں نے رجوع کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ عدالتیں جو بھی فیصلے کرتی ہیں وہ ٹھیک ہی ہوتے ہیں بشمول میاں صاحب کسی کو ان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ پہلے وہ ہمیشہ یہ تکرار کرتے تھے کہ منتخب حکومتوں یا اسمبلیوں کو اپنا دورانیہ پورا کرنا چاہیے لیکن اب جب سے انہوں نے نئی نوکری تلاش کی ہے یہ فرمانے لگے ہیں کہ جمہوریت صرف وہی ہوتی ہے جو ہمیں جتوا کر آئے دوسروں کی جیت والی جمہوریت تو جعلی ہوتی ہے اس لئے ان اسمبلیوں کا مدت پوری کرنا ضروری نہیں ہوتا لہٰذا بہتر ہے کہ اُن کا قبل از وقت گلاگھونٹ دیا جائے۔ اپنے اسی خطاب میں ایک مہربانی انہوں نے ضرور فرمائی ہے کہ اپنے بیٹے کو عوامی خدمت کے لئے قوم کے حوالے کر دیا ہے۔
بلاول کو بھی اب ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپناتے ہوئے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہو گا اُسے سمجھنا چاہیے کہ لوگ اُس سے محبت اُس کے باپ دادا یا نانا نانی کے رشتے سے نہیں اُ س کی والدہ محترمہ کے باعث کرتے ہیں بھٹو سے رشتہ تو فاطمہ اور ذوالفقار جونیئر کا بھی ان سے کم نہیں ہے ۔ بلاول نے اگر محترمہ کو رول ماڈل نہ بنایا تو پی پی کے لوگ بی بی کی بیٹیوں سے امیدیں باندھنے لگیں گے۔ بہتر ہوگا یہاں ہم جناب بھٹو اور محترمہ کی ہر دو شخصیات میں موجود فکری تفاوت کو اجمالاً واضح کر دیں۔ بھٹو صاحب بلاشبہ پی پی کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے عوامی لیڈر بن کر ابھرے وہ عوام کو اپنے پیچھے لگانے کا ہنر جانتے تھے چاہے اس کے لئے اصولوں یا اخلاقیات کی کتنی بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔ اُن کا دیا ہوا روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ غریب عوام کے دلوں کی آواز تھا لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ان کی تمامتر مقبولیت سندھ اور پنجاب تک محدود تھی۔ متحدہ پاکستان میں جو آخری آزادانہ و منصفانہ انتخابات ہوئے اُن میں وہ بہت بُری طرح ہار گئے تھے۔
اس سے قبل محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت کرتے ہوئے وہ ایک ڈکٹیٹرکے ساتھ جس استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہے کوئی جمہوری ذہن کاش اس کا جواز فراہم کر سکے۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد شیخ صاحب نے تو دوبارہ عوام سے رجوع کرتے ہوئے تازہ مینڈیٹ حاصل کرنا ضروری سمجھا جبکہ آپ نے کسی بھی اخلاقی اصول کی روشنی میں اس کی ضرورت محسوس نہ کی۔ قیام پاکستان کےفوری بعد قائد نے تو یہ اعلان کر دیا تھا کہ ریاستِ پاکستان کو کسی کے عقیدے یا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا یہ ہر شخص کا نجی معاملہ ہو گا اگر آپ عوامی قائد ہونے کے دعویدار ہیں تو آپ نے ایک خاص گروہ کوکیوں پروان چڑھایا؟ ۔ آج یہ نوجوان کہہ رہا ہے کہ مذہب کا سیاسی استعمال نہیں کیا جائے گا کاش ناچیز گنوا سکے کہ اس سلسلے میں آپ کے آبائو اجداد کا کتنا رول ہے ۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ آپ اپنی والدہ محترمہ کے صاف شفاف سیاسی کردار کو رول ماڈل بنائیں ۔
نواز شریف کے خلاف آپ جو بچگانہ زبان استعمال کرتے ہیں میثاقِ جمہوریت کے بعد اگر آج محترمہ زندہ ہوتیں تو یہ زبان کبھی برداشت نہ کرتیں۔ وہ انڈیا سے دشمنی ختم کرتے ہوئے پاک بھارت دوستی کی علمبردار تھیں ایسے طعنے جب آپ نواز شریف کو دیتے ہیں تو درحقیقت آپ اپنی والدہ محترمہ کو بھی دے رہے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ جب راجیو گاندھی اسلام آباد آئے تھے اور بی بی نے جس طرح اُ ن کا استقبال کیا تھا ٹھیک اس طرح کے طعنے اس وقت محترمہ کو بھی سننے پڑے تھے۔ آپ لوگ جن ہلکے ہتھکنڈوں سے پی پی کو مقبول بنانے کا سوچ رہے ہیں یہ سوائے حماقت و ناکامی کے اور کچھ نہیں۔
کم ازکم محترمہ کے بیٹے کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔ آپ دوسرے سیاستدانوں کے خلاف منافرت پھیلانے اور اخلاق و تہذیب سے ہلکی زبان استعمال کرنے کی بجائے اعلیٰ آدرشوں پر مبنی اپنا ایک سیاسی ضابطہ اخلاق تشکیل دیں۔
یہ طے کر لیں کہ پی پی کے بنیادی نعروں کو قائم رکھتے ہوئے عصری تقاضوں کی مطابقت میں آگے بڑھیں گے۔ جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ کی سربلندی و بالادستی کے ساتھ انسانی حقوق اور آزادیوں کے جدید تصورات کو اپنے سیاسی نظریے کی بنیاد بنائیں گے۔ حقوقِ نسواں اور اقلیتوں کے حقوق کو بطور نعرہ اپنائیں گے غربت، بیماری اور بے انصافی کو اس ملک سے ختم کرنے کے لئے کمر کس لیں گے ۔ قسم کھا لیں کہ مذہب کا سیاسی استعمال ہر گز نہیں ہونے دونگا جبر کے خلاف آواز اٹھاؤں گا ۔ تھوڑی مخالفت کے ساتھ وسیع تر حمایت آپ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھے گی۔ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کو اپنی جد و جہد کا محور بنائیں ان اعلیٰ انسانی اصولوں کو اپنی سیاسی تگ و دو میں دوستی اور دشمنی اتحاد و تعاون یا مخالفت کا ضابطہ بنائیں۔ سیاسی کامیابی کے لئے ہم خیالوں سے الحاق و اتفاق بنانا یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا کوئی برائی نہیں ہے۔ بے ہنگم اور بے وجہ دوسرے سیاستدانوں یا سیاسی جماعتوں پر کیچڑ اچھالنے سے اجتناب فرمائیں ۔ نئے قومی تقاضوں میں یہی بلند فکری آپ کے لئے سیاسی کامیابی کا زینہ ثابت ہوسکتی ہے بصورتِ دیگر آپ سندھ سے بھی فارغ ہو جائیں گے۔