(پہلی قسط)
مسجد اقصیٰ میں گنبد الصخراء
(Dome of the Rock) معلوماتی تحقیق
قبۃ الصخراء …جلال وجمال کاحسین امتزاج…سونے کاتاج پہنے ہوئے دنیاکا خوبصورت ترین سنہری گنبد ۔
قبۃ الصخراء … یروشلم ہی نہیں، پورے فلسطین کی سب سے خوبصورت یادگار۔اس شہر میں کئی تاریخی گرجے ، سینی گاگ اور مینار ہیں ، لیکن جو حسن و عظمت اور رعنائی گنبد صخراء کی ہے وہ بالکل منفرد ہے۔
قبۃ الصخرہ … جس کا حسن و جمال مسلمانوں کے دلوں کی طرح خوبصورت ، ان کی تاریخ کی طرح سنہری اور ان کے جاہ و جلال کی طرح پر ہیبت ہے۔
قبۃ صخراء …جو بیت المقدس اور مسجد اقصی کی علامت کے طور پر ہر تصویر میں دکھایا جاتاہے ۔حالانکہ وہ ایک حصہ ہے مسجد اقصیٰ کا ۔مسجد اقصی نہیں۔
قبۃ الصخراء …دنیا کے سب سے منفرد سکندر اعظم’’ سیدنا وامامنا حضرت عمر فاروق ابن الخطاب رضی اللہ عنہ‘‘ کاایکتحفہ ۔
مطلب اس بات کا یہ ہے کہ اس دور کے عیسائیوں نے یہود دشمنی میں جبل ہیکل کے اس حصے کو کوڑے کرکٹ کے پھینکنے کی جگہ بنا رکھا تھا۔ اگر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس جگہ کو دریافت کرواکے صاف نہ کرواتے تو شایدیہ جگہ بھی امتداد زمانہ کی بے رحمی کا شکار ہو کربے نام ہوچکی ہوتی ۔ اور وجہ اسے محفوظ رکھنے کی یہ تھی کہ یہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج شروع ہواتھا۔137ق م میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلاوطن کردیا تھا۔70عیسوی میںیہاں یونانی جیوپٹرا کا معبد بنایاگیا ۔چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجاتعمیرکر ڈالا۔ چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں دنیا کیلئے رحمتوں کا پیغام لے کررحمۃ اللعالمین حضور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم سرزمین حجاز میں مبعوث ہوتے ہیں ۔ساتویں صدی کے پہلے عشرے میں اعلان نبوت ہوتا ہے ۔ جس کے تقریبا دس سال بعد آپ ﷺ معراج کے دوران میں بیت المقدس بھی تشریف لائے ۔اس دور میں بیت المقدس پرعیسائیوں کا قبضہ تھا ۔ نبی ﷺ کی وفات کے سولہ سال بعد حضرت عمرفاروقؓ نے جب یروشلم کو فتح کیااورمسجد اقصی کی زیارت کیلئے تشریف لائے ۔چونکہ مسجد اقصی جس ایریے میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور میں بنی تھی وہ بہت بڑا مگر پہاڑی سلسلہ ہونے کی وجہ سے ناہموار ایریاتھا ۔ اور یہ جگہ جہاں آج قبہ ہے اور اس کے ارد گرد اونچا پلیٹ فارم بنا ہوا ہے ، اس وقت نہ تو قبہ تھا اور نہ ہی یہ پلیٹ فارم ، بلکہ اونچا نیچا جبل ہیکل تھا۔جسے عیسائیوں نے یہود دشمنی کے احساس سے کچرا پھینکنے کی جگہ بنا کر اس صخراء کی توہین وتذلیل میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔چلتے چلتے حضرت عمرفاروقؓ نے اس خاص جگہ کا پوچھا ۔ جہاں سے رسول اللہ ﷺ آسمانوں کیلئے تشریف لے گئے تھے ۔ کعب احبارجو یہودیت چھوڑ کر نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ۔اوریہود کے نزدیک یہ پتھر بڑا متبرک تھا۔ انہوں نے جبل ہیکل پرصخرہ کی جگہ کی نشاندھی کردی ، کہ اس دیوار سے اتنے ہاتھ آگے جائیں تو وہاں صخراء ہے ۔جو کوڑے کے ڈھیر میں چھپ چکا تھا ۔حضرت عمرفاروق ؓ نے وہ جگہ صاف کرائی اور یہ چٹان نکلوائی ۔ اتنی دیر میں امیر المومنین کی نظر کعب پر پڑی ، جنہوں نے صخراء کے سامنے احتراما جوتے اتار لیے تھے ۔ اور جب امیر المومنین نے نوافل کی ادائیگی کاارادہ ظاہر کیا ۔ توکعب احبار نے مشورہ دیاکہ صخرہ کے پیچھے نمازاداکرلیں۔ تاکہ قبلہ موسیٰ اور قبلہ محمد ﷺ کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے ۔ کیونکہ مسجد اقصی کی بجائے صخرہ کی اہمیت یہود کے نزدیک بہت زیادہ تھی۔ صخرہ کی تعظیم کے اس ارادے کو بھانپتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم نے فرمایا !ضاھیت واللہ الیہودیۃ یا کعب و قد رایتک و خلعک نعلیک ۔’’لگتاہے تمہارے اندر یہودیت کی رگ پھڑک رہی ہے۔ حالانکہ یہودیت ذلیل ہو چکی ہے مگر تیری سوچ نہیں بدلی اور تو نے اس پتھر کی تعظیم کیلئے جوتے اتار لیے ہیں ، میں دیکھ چکا ہوں تمہاری اس حرکت کو ۔ یعنی تو مجھ سے مسجد اقصی کی بجائے چٹان کی تعظیم کروانا چاہتاہے ‘‘
تاریخ انسانیت کے سکندر اعظم کی نگاہوں کی دور رسی ملاحظہ ہو، جو ہر فتنے یا برے ارادے کو فوراً بھانپ لینے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔
اورآپ نے فرمایامیں تو وہاں نماز ادا کروں گا جہاں رسول اللہ ﷺ نے ادا فرمائی تھی ۔اس لیے آپ نے صخراء کے پیچھے نمازادانہیں کی بلکہ تھوڑا سا نیچے جاکر نماز ادا کی (اب وہاں محراب سا بنا ہوا ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے)حضرت عمر ؓنے اسی جگہ ( براق اور صخراء کے قریب) مسجد کی تعمیر نو کا حکم دیا ، تب مسجد میں لکڑی کااستعمال زیادہ کیاگیا۔سترسال بعدسن86ھ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے یہاں بڑے اہتمام سے مسجد بنوائی ۔ اس کی تعمیر میں سات سال تک مصر سے حاصل ہونے والی آمدنی صرف کی گئی ۔اور خالص سونے کا کام کیا گیا جس کے آثار اب تک موجود ہیں ۔
آگے چلنے سے پہلے ہم چار نکات کو کلیئر کرنا چاہتے ہیں۔
صخراء کی نشاندھی کعب نے کیسے کی ؟ پتھر کی اس چٹان کے بارے روایات کی تحقیق،صخرہ کی جگہ مروان بن عبدالملک نے مسجد کیوں بنوائی ؟ اور اس کی تعمیر تاریخ کے مختلف ادوار میں ۔
(1) صخراء کی نشاندھی کیسے ممکن ہوئی ؟
پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کعب احبار کو صخراء کا علم کیسے ہوا؟ ۔اس کا جواب اس طرح ملتا ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل بیت المقدس کاسفر کیاتھا اور یہاں کسی جاننے والے سے معلوم کیا تھا۔ مسالک الابصار فی ممالک الامصار فضل اللہ العمر(ص41) میں ہے کہ کعب احبار کسی زمانے میں ایلیاء آئے تھے اور ایک یہودی عالم سے اس صخراء کی بابت پوچھا تھا تو اس نے اس کی نشاندھی کی تھی ۔ اسی لیے کعب نے حضرت عمر بن خطاب امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو صخراء کی جگہ کی نشاندھی کردی تھی ۔(الروض المعطار اور ابوعبید البکری نے ’’المسالک و الممالک ص 125)
سچی بات تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں یہودی روایات پھیلانے کا بڑا ذریعہ کعب احبار ہی ہیں ۔ چونکہ یہ خود یہودی تھے یہودیت کی تاریخ میں انہیں دلچسپی اور مہارت تھی۔ یہودیت سے محبت ان کے اندر بہت سرایت کرچکی تھی انہوں نے اسلام قبول تو کرلیا لیکن یہودی روایات سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے ۔ اور انہیں بیت المقدس سے بڑا لگاؤ رہا ۔ آپ دیکھیں انہوں نے کسی جہادکے سفر میں شرکت نہیں کی ۔ لیکن بیت المقدس کے سفر میںحضرت عمر بن خطاب امیر المومنینؓ کے ہمراہ چلے آئے۔ اور پھر انہوں نے امیرالمومنین کو صخراء کے پیچھے نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا جسے امیر المومنین نے رد کردیا تھا ۔کعب کے دل میں جو احترام تھا اس پتھرکا۔ اس کا اظہار بھی امیر المومنین دیکھ چکے تھے کہ کعب احبار نے وہاں احتراماًجوتے اتار دیے تھے ۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے کعب کے سینے پر دو ہتھڑ مار کرفرمایا کعب یہودیت ذلیل ہوچکی ہے۔اور تم کس خیال میں ہو ۔ ( ’’المسالک و الممالک ص 125 ازابوعبید البکری)کیونکہ امیر المومنین کعب پر کبھی اعتبار نہیں کرتے تھے ۔ مزید یہ کہ کعب شہر ’’بیت المقدس یروشلم ‘‘کو ایلیاء کہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے ان کے خیال میں یہ کسی مقامی خاتون کا نام رہا ہوگا ۔ان کعب احبارکے علاوہ اسلام میں یہودی روایات پھیلانے والے دوسرے شخص وہب بن منبہ ہیں ۔انہی دو نے اس پتھر کے بارے میں ایسی ایسی لایعنی روایات پھیلائی کہ الامان و الحفیظ ۔
(2)پتھر کی بابت جھوٹی روایات
پتھر کی اس چٹان کے بارے میں یہودی کی طرف سے پھیلائی جانے والی جھوٹی روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ یہ جنت کا پتھر ہے ۔ اللہ کا عرش اس کے اوپر ہے‘‘ (تاج المفرق فی تحلیۃ علماء المشرق البلوی48) اس کے اوپر جنت سے سرخ یاقوت اتراتھا جو اتنا منور تھا کہ بلقاء کی عورتیں اس کی روشنی میں سوت کاتا کرتی تھیں (نھایۃ الارب فی فنون الادب النویری94) آسمان میں اس پتھر کی لمبائی بارہ میل ہے ، کسی روایت میں اٹھارہ میل ہے ۔العقد الفرید ابن عبد ربہ الاندلسی992الکامل فی التاریخ ابن الاثیر المورخ ص(2178) اسی پتھر کے ساتھ نبی ﷺ نے براق باندھا تھا ۔اس پتھر کے نیچے سے دو یا چار نہریں نکلتی ہیں ۔ حضرت آسیہ کا محل بھی اسی کے نیچے ہے (آثار البلاد واخبار العباد لقزوینی ص63) جب قبلہ تحویل کیا گیا (بیت المقدس کی بجائے کعبۃ اللہ بنایا گیا) تو اس پتھر نے اللہ سے شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا تو بے فکر رہ میں تیرے اوپراپنا عرش رکھوں گا ، روز محشرساری دنیا یہاں جمع کروں گا تیرے اوپر ہی فیصلے کیے جائیں گے ۔(معجم البلدان یاقوت الحموی 378اور1635) علامہ یاقوت الحموی اور نور الدین الحلبی سیرۃ الحلبیہ میں لکھتے ہیں ’’ صخراء کے پتھر کی عاجزی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ہی میرا مقام ہے ، میزان یہیں قائم کروں گا۔ جنت و دوزخ اسی جگہ حاضر کیے جائیں گے ۔عرصہ محشر یہیں برپا ہوگا اور یوم الدین میں یہیں سب کو بدلے ملیں گے( معجم البلدان یاقوت الحموی1636سیرۃ الحلبیہ نور الدین الحلبی(37) علامہ شمس الدین شامی لکھتے ہیں ۔ بیت المقدس میں مرے گا وہ آسمانوں پر فوت سمجھا جائے گا ۔ من مات فی بیت المقدس فکانما مات فی السماء ( سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادص 1290) اللہ تعالیٰ بیت المقدس کی طرف روزانہ دو مرتبہ نظر فرماتا ہے( فضائل القدس ابن جوزی4)
In the beginning, it must be noted that everything contained in the Islamic heritage of news about the rock is taken in one way or another from the Jewish counterpart; about the relationship between Venus and the rock, which we referred to above; Ibn Khaldun says: "The first thing he ordered was the days of the Sabians, who were placed under the structure of the flower, and they brought the oil close to him and brought it to the rock that was there. Here we find a concept of the Sabean different from what is being circulated today that they are the Iraqi Mandaean group.
بغیر سہارے کے کھڑاپتھر
یہ محض ایک پتھر تھا یہاں پرموجود ایک پہاڑ ’’ ہیکل جبل ‘‘کا۔ لیکن اس کی بابت ابھی تک ایسی ایسی بے سروپا کہانیاں پھیلائی جاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواسی پتھر پر سے برموقع معراج آسمان کی طرف لیجایاگیا ۔تو پتھر بھی ساتھ اٹھنا شروع ہوگیاتھا۔حکم دیاگیا۔ رک جاؤ تو رک گیا۔اورجہاں تک اٹھا تھا وہیں جم گیا ۔ اس طرح کی باتیں سنائی گئیں ،پھر بنائی گئیں اور پھر انٹر نیٹ پر دکھائی بھی گئیں ،جن میں پتھر اوپراٹھا ہوا ہے اور نیچے کچھ بھی نہیں ۔
میرے باقی ساتھی مسجد قبۃ الصخراء میں پھیل گئے ،لیکن میں اپنی خواہش کی تکمیل میں نیچے غار میں اترنا چاہتا تھا۔کیونکہ میری بڑی خواہش تھی کہ میں اس پتھر کے نیچے جاؤں ، اور اس بے سہاراکھڑے پتھر کو دیکھوں ۔آفتاب صاحب کے ساتھ میں نیچے اترااورپہلے تو تحیۃ المسجدکے طور پرنوافل اداکیے ۔ پھر پتھر کو اچھی طرح نیچے سے دیکھا بھالا ۔وہاں موجود لوگوں سے پوچھا ۔ کہ وہ پتھرکہاں ہے جو بغیر کسی سہارے کے اٹھا ہوا ہے ،ایک بوڑھے فلسطینی نے بتایا کہ یہ نیچے والاجوڑ لگا نظر آرہا ہے، یہ وہی خلا تھا جسے بعد پاٹ دیاگیا۔ لیکن میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اسے پاٹنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر بامرربی تھاتو فکر کاہے کا۔بے تکلف نیچے سے گزر جائیے۔
بہرحال ساری بے سند باتیں پھیلائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے یہ جھوٹی بات بھی تھی جس کا ذکر اوپر کیاگیا ہے ۔اس کے علاوہ بہت سی جھوٹی روایات اس پتھر کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں ۔ خاص طور پریہود کی جانب سے اس پتھر کی بابت ایسی ایسی حکایات اورایسے ایسے معجزات روایت کیے گئے حالانکہ اس پتھر کی بابت ایک روایت بھی صحیح سند سے مروی نہیں ہے۔ پتھروں میں حجر اسود جو کعبۃ اللہ میں لگا ہوا ہے اس کی فضیلت میں مستند روایات تو ہیں لیکن نفع و نقصان کامالک ہونے کی حجر اسود میں بھی کوئی طاقت نہیں ہے جس طرح سیدنا عمربن خطاب ؓنے اسے مخاطب کرکے فرمایاتھا کہ میں جانتا ہوں تو محض ایک پتھر ہے ، تیرے اندر نفع ہے نہ نقصان، تیرے شرف کی ایک ہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھے بوسہ دیا ہے ۔ اگر میں نے آپ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو ہرگز تجھے بوسہ نہ دیتا ۔
روایات کے صحیح یا جھوٹے ہونے کا معیار اسناد حدیث
اللہ تعالیٰ محدثین کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے امت میں روایات کی سند دیکھنے اور تحقیق کرنے کی روایت ڈالی ۔ اگریہ اہتمام اسناد نہ کیا جاتا تو یہ امت راہ راست پہچان ہی نہ پاتی ۔جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا :۔ان الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء و ماشاء ۔کہ تمہارا دین سند کے ساتھ مضبوط ہے ورنہ ہر کوئی جھوٹ سچ کہنے میں آزاد ہوتا ۔حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے نبی ﷺ کی سنتوں کو اپنا کر دکھایا کیونکہ انہوں نے اس دین کو رسول اللہ ﷺ سے حاصل کیا تھا ۔امام سفیان ثوری کہتے ہیں اسناد حدیث مومن کا ہتھیار ہے اگر ہتھیار نہ ہو تو لڑائی کس کے ساتھ کی جائے گی ۔امام ابن تیمیہ ؓ فرماتے ہیں اگر سند ثابت نہ ہو تو روایات میں جھوٹ یا سچ کو کیسے پرکھا جائے گا ؟ حضرت عبداللہ بن مبارکؓ فرماتے ہیں:۔ سند حدیث کی مثال سیڑھی کی ہے ، اگر سیڑھی نہ ہو توچھت پر کیسے چڑھا جاسکتاہے۔ مشہور محدث حضرت بقی بن مخلدفرماتے ہیں :۔ اللہ نے اس امت کو سچ وجھوٹ کے درمیان فرق برتنے کیلئے سند کی تحقیق کا اعزاز دیا ہے ۔ (جاری ہے)