• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز , ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو...طلوع …ارشاد احمد عارف

تیری آواز مکے اور مدینے، دلوں کا بھید تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یہ عزت نفس کے قومی احساس کو کچلنے کی امریکی کاوش کا ردعمل ہے یا بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کا ادراک کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی جریدے ” ٹائمز میگزین“ نے پہلی بار وہ بات کہہ ڈالی ہے جو قوم ایک عرصے سے سننے کی متمنی تھی۔ گیلانی صاحب نے کہا ہے کہ ”ہم امریکی امداد کے بغیر گزارا کر لیں گے البتہ عوامی خواہشات کے برعکس امریکہ سے تعاون جاری رکھا تو ہماری حکومت ختم ہو سکتی ہے “
امریکہ سے آبرومندانہ تعلقات پر کسی ذی شعور پاکستانی شہری کو اعتراض نہیں آج تک کسی پاکستانی سیاست دان اور مذہبی رہنما نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ امریکہ سے تعلقات منقطع کرکے اسے دشمنوں کی صف میں شامل کر لیا جائے۔ ماضی میں بعض ترقی پسند سوویت یونین کی شہ پر”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے “ کے نعرے لگاتے رہے لیکن سوویت یونین ٹوٹا تو یہ بھی قشقہ کھینچ کر امریکی حرم میں داخل ہو گئے اور سدا سہاگن کہلاتے ہیں یہی اب سوویت یونین کی شکست وریخت اور اپنی تاریخی ناکامی کا انتقام لینے کیلئے اپنے نظریاتی مخالفین کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف ڈرون حملوں، اور فوجی آپریشن کے حق میں ہیں خواہ وہ امریکہ کی طرف سے ہوں یا پاک آرمی کی طرف سے۔
ہاں البتہ پاکستانی عوام کی یہ خواہش اور مطالبہ ضرور ہے کہ امریکہ ہمیں دیہاڑی دار مزدور اور کرائے کے قاتل نہ سمجھے اور پاکستان زیردست ریاست نہیں جس کی نہ تو عزت و آبرو ہے نہ قومی وقار اور خودمختاری یکطرفہ ایبٹ آباد آپریشن پر شدید عوامی ردعمل اور قومی ملال بھی اس بنا پر ہے کہ امریکہ نے اپنے اتحادی کا اعتماد مجروح اس کی خودمختاری کو پامال کیا اور دفاعی صلاحیت کے بارے میں عالمی سطح پر شکوک وشبہات پیدا کئے۔ قوم جنرل پرویز مشرف کی بزدلانہ، موقع پرستانہ امریکہ نواز پالیسی پر نظرثانی کی خواہش مند ہے اور اس یوٹرن کے عوض ان مراعات، قرضوں اور امداد سے محرومی کا صدمہ لینے پر راضی جو امریکہ کی طرف سے ہمارے حکمران طبقے کو حاصل ہیں تاکہ قومی خودمختاری اور عزت نفس کا تحفظ ہو سکے ۔ حکومت اور قوم کی سوچ میں ایک سو اسی ڈگری کا فرق ہے جس کا بہت زیادہ ادراک فوجی قیادت کو ہے اور اب تھوڑا تھوڑا سیاسی قیادت کو بھی ہونے لگا ہے ۔ گیلانی صاحب کے بیان سے یہی لگتا ہے ۔
یہ صرف غیرت کا سوال ہی نہیں حکمت کا تقاضہ بھی ہے غیرت اور حکمت متضاد چیزیں نہیں، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ان کی آمیزش ہی قوموں کو نتیجہ خیز جدوجہد، حوصلہ مندی، ہمت مردانہ اور بالاخر ترقی و تعمیر کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔ غیرت کا لفظ آتے ہی بعض لوگ یوں اچھل پڑتے ہیں جیسے انہیں بچھو نے کاٹ لیا ہو ۔ کچھ عرصے سے غیرت و حمیت کے اعلیٰ انسانی وصف سے محروم ایک طبقے نے اقبال پر بھی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا ہے کسی کو ”بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق، عقل ہے محو تماشا ئے لب بام بھی“ میں عملیت پسندی کا فقدان نظر کرتا ہے اور کوئی “غیرت ہے بڑی چیز جہاں تگ و دو میں“کو شاعرانہ تخیل قرار دیکر اپنی بے مثل تاریخ دانی اور بے نظیر اقبال شناسی کا ثبوت فراہم کر رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ اقبال کے شاعرانہ تخیل نے مملکت خداداد پاکستان کی بنیاد رکھی اور اقبال کے تصور وطنیت سے مسلسل انحراف نے ہمیں یہ سیاہ دن دکھائے کہ امریکہ و بھارت تو درکنار افغانستان بھی آنکھیں دکھاتا اور ہم پیچ وتاب کھا کر رہ جاتے ہیں ۔
متحدہ پاکستان امریکہ کے تعاون، یورپ کی سرپرستی اور سوویت یونین کی امداد سے نہیں اسلامیان برصغیر نے ملی غیرت، دینی جذبے، اصولی موقف، سرفروشانہ جدوجہد سے حاصل کیا ورنہ مادی وسائل کے لحاظ سے مسلمان آج سے زیادہ تہی دست، کمزور و ناتواں تھے ، اقبال کے پیغام نے ان سرفروشوں کو یہ شعور عطا کیا تھا کہ
خوار جہاں میں کبھی نہیں ہو سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور ، فقر جس کا غیور
یہ اقبال ہی تھا جس نے غلام ہندوستان کے حریت کش مسلمانوں کو اپنے دور کے عملیت پسند شاعروں، علماء اور حکماء کی غلامانہ نفسیات سے آگاہ کیا ہے
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں بگانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
ترک قوم فوجی راہداری کے عوض پچیس ارب ڈالر کی امداد ٹھکرا کر یور پ اور امریکہ کی گماشتہ فوجی قیادت کو سویلین اطاعت پر مجبور کر رہی ہے
اگر گیلانی صاحب کو واقعی یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ امریکہ سے مزید تعاون ملک و قوم کے علاوہ ان کے ذاتی و سیاسی مفاد میں نہیں اور ہم واقعی امریکی امداد کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں تو ان کے منہ میں گھی شکر، اپنے باس اور امریکہ کے مونگ پھلی کے برابر امداد کیلئے ہلکان ساتھیوں کو بھی سمجھائیں اور تمام سیاسی و مذہبی قوتوں کو ساتھ ملا کر امریکی جنگ سے نکلنے کے علاوہ اب تک ہونے والے سیاسی، دفاعی، معاشی اور سٹرٹیجک نقصانات کا ازالہ کرنے کی جدوجہد کا آغاز کریں امریکہ سے لڑائی جھگڑا نہیں، آبرومندانہ تعلقات پر اصرار اور اپنے قومی مفادات، اقتدار اعلیٰ اور آزادی پر سمجھوتہ کرنے سے انکار، قوم کا صرف یہی مطالبہ ہے اور وہ اس کیلئے ہر قربانی دینے پر تیار ہے البانیہ کے مرد حر انور ہوجہ نے اپنی قوم کو نعرہ دیا تھا کہ ”ہم البانیہ کے انگور کھا کر زندہ رہ سکتے ہیں“ ہم تو سیب، انگور، انار، آم، کھجور، چاول، کپاس، گنا، گندم، کنو اور امرود بافراط پیدا کرنے والی قوم ہیں گزارا کیسے نہیں کر سکتے؟
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقرو غنا کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
تازہ ترین