• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ہماری خود مختاری کی عصمت پامال ہوئی ہے۔ ہماری خود مختاری ایک عرصے سے بھیڑوں کے ساتھ رقص کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسامہ کے مارے جانے کے بعد امریکہ کا عراق اور افغانستان میں رہنے کا جواز ختم ہو گیا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اسامہ کی ”جائے شہادت“ کے حوالے سے پاکستان میں رہنے کا جواز پیدا کر لیا گیا ہے۔ ایران کے صدر تو کہتے ہیں ”یہ سارا ڈرامہ رچایا ہی پاکستان کو گھیرنے کے لئے ہے“۔چاند پر ہوا نہ ہونے کے باوجود لہراتے ہوئے امریکی پرچم ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی خودکردہ تباہی اور اب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی ڈرامے اور تھیٹر کے فن میں امریکی مہارت بے مثال ہے۔ ”امریکی وار تھیٹر“ کے لئے پاکستان کی سرزمین اگلا ہدف ہے۔ پاکستان کے علاوہ ایسا کونسا ملک ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ ”ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں“ ۔ایبٹ آباد کے واقعے میں پورے دفاعی سسٹم کی ناکامی نے عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صدر مملکت نے سب سے پہلے امریکی عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مضمون کے ذریعے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اپنے عوام کی بجائے مہذب دنیا کی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے فرانس تشریف لے گئے۔ اس سے پہلے صدر صاحب آنکھ بند کر کے امریکہ کو مبارکباد دے چکے تھے۔ وزیر اعظم پاکستان کی خود مختاری کو آخری درِّہ لگاتے ہوئے ایبٹ آباد کے واقعے کو فتح عظیم سے تعبیر کر رہے تھے لیکن جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تو وزیراعظم امریکہ مخالف قراردادکے ساتھ کھڑے تھے۔
کسی بھی معاملے میں ہماری قیادت کا موقف سنجیدہ غور و فکر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایبٹ آباد کے آپریشن کی مذمت تو کی گئی تاہم مسئلے کا کوئی حل تجویز نہیں کیا گیا۔ ڈرون طیارے گرانے پر جب ائیر چیف کا یہ نپا تلا سوال سامنے آیا کہ ہم ڈرونز گرا سکتے ہیں اگر حکومت حکم دے تو لیکن اس کی ایک قیمت ہے… کیا ہم وہ قیمت دینے پر تیار ہیں؟ تو سب کو چپ لگ گئی۔ کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔ شاید کسی کے ذہن میں تھی ہی نہیں۔ تحقیقات کے لئے کمیشن کا قیام بھی محض ڈرامہ ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کمیشن سچ کی تلاش، ذمہ داروں کے تعین اور مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام کے لئے تجویز دے گا۔ حالانکہ ہماری اعلیٰ فوجی قیادت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ ہم اس قابل نہیں کہ ایسے حملوں کو روک سکیں۔ ہماری فوج کی تربیت بھارت سے جنگ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور سے سرحدوں کی حفاظت کے لئے نہ اس کے پاس تربیت ہے اور نہ وسائل۔ ایبٹ آباد کے واقعے پر نواز شریف کی یہ بات درست ہے کہ انکوائری آزادانہ ہونی چاہئے اور اسے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہئے۔
اس کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردارکے حوالے سے نوازشریف نے اس ملک کے ایک دیرینہ مسئلے کی نشاندہی کی ہے لیکن سیاسی میدان میں نوازشریف جس تنہائی کا شکار ہیں ان کی باتیں صحرا میں اذان کے مترادف ہیں۔ ایم کیو ایم کا ریفرنڈم بھی کارکنوں کو مصروف رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ضرورت اس بات کی تھی کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے الٹا عوام سے استفسار کیا معنی؟ ایبٹ آباد کے واقعے نے پاک فوج کی صلاحیتوں اور دفاع سے متعلق ہمارے تصور کو چکنا چور کر دیا ۔ ایس ایم ایس گردش کررہے ہیں ”ہارن بجانا منع ہے پاک فوج سو رہی ہے“۔ فوج کو اپنی ساکھ کی بحالی کے لئے سخت محنت کرنا ہوگی۔ امریکی سینیٹر جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر جنگجوؤں کے خلاف ان کا حقیقی اتحادی بنے اور انتہا پسندی کے خلاف کوششوں میں تیزی لائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ملا عمر کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرے، حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کرے اورشمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرے۔ افغانستان میں مستقبل کی طالبان حکومت کے حوالے سے پاکستان ان مطالبات کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے لیکن وہ امریکہ سے بگاڑنا بھی نہیں چاہتا۔
پاکستان کی فوجی صلاحیت کا مآخذ امریکہ ہے۔ یوں عملاً ہم دو کشتیوں میں سوار ہیں جسے ہم ابہام ، جھوٹ منافقت اور دوغلے پن سے نبھاتے چلے آئے ہیں لیکن اب شاید عملاً ایسا ممکن نہ ہو۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان امریکی مفادات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو یا پھر امریکہ اور دنیا سے جنگ کے لئے تیار رہے۔ سینیٹر جان کیری پاکستان سے جس طرح مطمئن گئے ہیں۔ لگتا ہے ہماری عسکری قیادت نے جان کیری کی پیش کردہ ”لانڈری لسٹ“ منظور کر لی ہے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے پاکستانی حکام نے یقین دلایا ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کے خلاف اقدامات کریں گے۔ ایسے اقدامات کی بدولت جلد ہی واشنگٹن سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے شروع ہو جائیں گے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ بگاڑ کا مرکز و محور اسامہ بن لادن کی شہادت کاواقعہ تھا جو ایبٹ آباد میں پیش آیا۔ اسامہ بن لادن امریکی جنگی جنون کے خلاف جدوجہد کی علامت تھے۔ انہوں نے عسکری جدوجہد اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک میں جہاں استعمار کا براہ راست قبضہ ہے جیسے افغانستان، کشمیر، فلسطین وغیرہ وہاں جہاد کے علاوہ کچھ بھی موثر ثابت نہیں ہوا لیکن اسامہ کی شخصیت کے اعتراف کے باوجود ان کے فکر و عمل سے ان اسلامی ممالک میں اتفاق ممکن نہیں رہتا جہاں امریکہ براہ راست قابض نہیں لیکن ایسے حکمران مسلط ہیں جو امریکیوں سے بڑھ کر امریکی ہیں۔ شیخ اسامہ ان ممالک کی قیادت، فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر شعبوں سے وابستہ مسلمانوں کو بھی کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے۔
یوں وہ ان اسلامی ممالک کے اہل قوت سے براہ راست تصادم کی راہ پر چل نکلے۔ یہ ”عظیم سامراجی حکمت عملی“ ہے جس کے اسامہ شکار ہو گئے۔ امریکہ کابظاہر اتنانہیں بگڑا لیکن مسلمانوں کی بستیاں برباد ہو گئیں۔ ان عسکری گروہوں سے زیادہ امریکہ آج بھی ان جماعتوں کو اصل خطرہ سمجھتے ہیں جو دنیا بھر میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے پرامن جدوجہد کر رہی ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے 28/ اگست2007ء کو لندن میں کہا تھا کہ وہ ان لوگوں سے جنگ کرے گا جو مشرق وسطیٰ اور اسپین سے لے کر انڈونیشیا تک خلافت کے احیاء کے لئے سرگرم ہیں۔
تازہ ترین