• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس 12،14 ججز کو بٹھائیں،اپنے تمام غلط فیصلے رجوع کریں،عرفان قادر

کراچی(ٹی وی رپورٹ)قانونی ماہر عرفان قادر نے کہا ہے کہ چیف جسٹس 12،14 ججز کو بٹھائیں، اپنے تمام غلط فیصلوں سے رجوع کریں،اس عدلیہ نے جتنے غلط فیصلے کئے ڈوگر کورٹ نے کئے نہ منیر کورٹ نے، الزامات کے باوجود احتساب نہ ہوا، پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ عمران کو اسپیس دی گئی، نواز شریف کو بھی عدلیہ نے سہارا دیا، سینئر تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا کہ ججز سیاستدان نہ بنیں، ان کے فیصلے ہیں، وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو کے پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما رمیش کمار،سینئر قانون دان آفتاب باجوہ اورسینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔مسلم لیگ ن کے رہنما رمیش کمار کا کہنا تھا کہ تحریک چلانے کا بیان سیاسی ہے لیکن انہیں افسوس ضرور ہے کہ انہیں اقامہ پر معطل کیا گیا گیا اور اعتراف کرنے والے کو چھوڑ دیا گیا، نوا زشریف قانون کی حکمرانی کو مد نظر رکھتے ہوئے احتساب عدالت بھی پیش ہوئے، ہماری الیکشن سے قبل بھی تحریک ترقیاتی کاموں کی ہوگی اور اسی پر ووٹ مانا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ شکایات ہوتی ہیں لیکن اخلاقیات کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہئے، لیڈر ااور ججز مائی باپ ہوتے ہیں اور ان کو اپنے لفظوں کا درست استعمال کرنا چاہئے، ہمیں ججز کے فیصلے سے شکایت ہوسکتی ہے لیکن ان پر الزام لگانے کی نہ مذہب اجازت دیتا ہے نہ اخلاق ہمیں یہ اجازت دیتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں سب نوا ز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔سینئر تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا تھا کہ ججز کی وضاحت دینے پر افسوس ہوا ، ججز کوئی سیاستدا ن نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں، انہیں وضاحت کی ضرورت نہیں، ایک سیاسی جماعت نے ججز کو اپنے قدموں میں بٹھایا اور نکالے ہوئے ججوں کو دوبارہ بحال کرایا ، ان کا کہنا تھا کہ اگر اگلے مرحلے میں شہباز شریف اپنا رول پلے نہیں کریں گے تو ن لیگ ختم ہوجائے گی اور صرف تحریک انصاف اور پی پی پی رہ جائے گی، ن لیگ کو184-3سے 2007میں فائدہ ہوا اگر انہیں اب اس پر اعتراض ہے تو پارلیمنٹ میں جاکر ختم کرادیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ نوا زشریف جلوس جلسے کریں اور شہباز شریف ان کا ساتھ نہ دیں، الیکشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن دور گئے تو اس کی ذمہ داری سیاستدانوں کی ہوگی ۔پروگرام کے دوسرے حصے میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیان پر گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل ل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ان کی تقریر سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ دبائو کا شکار ہیں اور ان کی تقریر بہت زیادہ جذباتی تھی،ایماندار لوگ اپنی ایمانداری کی باتیں نہیں کیا کرتے، انہوں نے کچھ تضادات بھی بتائے خاص کر انہوں نے کہا کہ وہ ایک بابا ہیں اور دوسرا یہ کہا پیٹرفیملیاز کا لفظ استعمال کیا گیا ، ججز پبلک سرونٹ ہیں پیٹر فیمیلیازنہیں، اسی طرح چیف جسٹس نہ تو بابا ہیں نہ پیٹر فیمیلیاز ہیں، اسی طرح جو تصورات انہوں نے بیان کئے وہ جمہوریت کی عدلیہ میں میں وزن نہیں رکھتے، انہوں نے عاصمہ جہانگیر کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا آج انہوں نے بالکل صحیح بیان دیا، ان کا کہنا تھا کہ نا اہل صرف الیکشن کمیشن کر سکتا ہے لیکن اس کا وزن عدلیہ نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور نوا ز شریف کو نا اہل کیا، اسی طرح چیف جسٹس نے یہ اس بات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی کہ ہم مصلحت کا شکار ہوئے لیکن ان کی یہ وضاحت ان کے خلاف ہی چلی گئی، ان کا کہنا تھا کہ ان کو چاہئے کہ 12,14ججز کو بٹھائے اور اپنے سارے غلط فیصلوں سے رجوع کریں کیونکہ اس عدلیہ نے جتنے غلط فیصلے کئے وہ نہ تو ڈوگر کورٹ نے کئے نہ منیر کورٹ نے کئے، اسی طرح جتنے سنگین کرپشن کے الزامات اس عدلیہ پر لگے ماضی میں کبھی کتنے سخت الزامات نہیں لگے اور اس پر کبھی احتساب بھی نہیں ہوا۔سینئر قانون دان آفتاب باجوہ کا کہنا تھا کہ جو 2007میں تحریک چلا گئی تھی اس کے نتیجے میں آج وہ چیف جسٹس ہیں اور ان کے پیچھے پوری فوج کھڑی ہوئی ہے، وکلا ء کو پتا ہے کہ ان کو آئین پاکستان کو عملد رآمد کرانا ہے اور ان کے پیچھے ایک فوج بھی کھڑی ہے، چیف جسٹس کا تقریر میں اشارہ وکلاء کی جانب بھی تھا کیونکہ ماضی میں عدالتوںمیں کچھ واقعات بھی رونما ہوئے ، اسی طرح انہوں نے سیاستدانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ آج عدلیہ آزاد ہے اور میرٹ پر فیصلے ہورہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر ادارے اپنا کام طرح کریں تو عدلیہ میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی، چیف جسٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ایک پیغام چھوڑا ہے اور جو عدلیہ کے خلاف بول رہے تھے ان کیلئے ایک پیغام دے دیا گیا ہے۔
تازہ ترین