جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فاٹا کے انضمام کے معاملے پرصرف فاٹا کی جنگ لڑ رہے ہیں ہم اس معاملے میں براہ راست فریق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو فوج سے خطرہ کا جو تاثر دیا جاتا ہے اس کو رد کرنے کے لیے آرمی چیف سینیٹ میں آئے ہیں۔
عمران خان سے متعلق سپر یم کورٹ کےفیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان بولے کہ کورٹ کو میرے سامنے نہ لائیں تو بہتر ہے۔
علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کے ساتھ ریاستی ہے عوامی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر نرم رویہ رکھنے کی ضرورت ہے اگر مذاکرات کا ماحول بنا رہے ہیں تو لب ولہجہ جنگ کا نہیں ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو تحریک کے طور ہر دیکھنا چاہیے، نئے منظر نامے میں آزادی کی جنگوں کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا ہے۔
انہو ں نے کہا کہ بھارت اور امریکا کے قریب آنے کی وجہ سےآج بھارت کا دعویٰ ہے کہ سی پیک متنازع علاقے سے گزر رہا ہے۔
سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہوتے ہوئے بھی بھارت کا ساتھ دے رہا ہے مستقبل میں ایران کے ساتھ بھی دیکھ کر چلنا ہوگا، حکومت سیاسی اور سفارتے رویے اختیار کرے تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔