مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اورمیڈیا کا ایک پیج پر ہونا صحت مند معاشرے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور مہذب دنیا میں بہت سی روشن مثالیں تاریخ کے اوراق پر موجود ہیں۔ قاضی وقت کا معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنا بلاشبہ اسلامی تاریخ کا درخشاں نمونہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کراچی میں پینے کے معیاری پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد منگل کے روز لاہور میں میو اسپتال اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا چیف سیکرٹری پنجاب کو اپنے ہمراہ لے کر ہنگامی دورہ کرنا اور وہاں پینے کے پانی سمیت دوسری ضروریات کا دستیاب نہ ہونے کا نوٹس لینا بلاشبہ عوامی امنگوں کی ترجمانی ہے۔ چیف جسٹس نے میو اسپتال میں مردانہ اور زنانہ وارڈ اکٹھے پاکر انہیں فوری طور پر علیحدہ کرنے کا حکم دیا اس کے ساتھ ساتھ صوبائی انتظامیہ پر واضح کیا کہ صاف پانی، تعلیم اور صحت حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ میڈیا کے ذریعے ہر چھوٹے بڑے شہر میں لوگوں کو میسر آنے والے غیر معیاری پانی کا سب سے زیادہ ذکر کیا جاتا ہے اور آلودہ پانی ہی سب سے زیادہ بیماریوں کی جڑ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ اچانک دورہ ملک بھر کے عوامی اداروں کیلئے بالعموم اور اسپتالوں کیلئے بالخصوص ایک پیغام ہے جسے ہر حال میں بجا لانا سب پر لازم ہے۔ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ملک کے طول و عرض میں سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے۔ سپلائی اسکیموں سے حاصل ہونے والا پانی تو کیا معنی رکھتا ہے منرل واٹر کے بھی کئی برانڈ ایسے ہیں جن کا لیباریٹری تجزیہ کے بعد پانی آلودہ پایا گیا۔ پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ناقص پانی سے لاحق ہونے والی بیماریاں سب سے زیادہ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدامات کی روشنی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت و تعلیم کے بارے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسے حتمی اقدامات کریں جن کے نتائج عالمی معیار پر پرکھے جا سکتے ہوں۔