بدقسمتی سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہائی سیکورٹی زون میں واقع چرچ کو دہشت گردوں نے ایک ایسے وقت نشانہ بنایا جب عیسائی کمیونٹی خوشیوں کا تہوار کرسمس منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی، اس المناک واقعے نے ایک بار پھر ملکی فضا سوگوار کردی، مجھے چند برس قبل کا پشاور چرچ حملہ یاد آگیا جس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے مجھ سے بھی تجاویز مانگی تھیں، میں نے موقف اپنایا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں کی ایک بڑی وجہ نصاب ِ تعلیم میں نفرت آمیز مواد کی موجودگی اور مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے سیکورٹی پلان کا نہ ہونا ہے، سپریم کورٹ نے میری سولہ مرتبہ پیشیوں میں موقف سننے کے بعد 19جون2014 کو اقلیتوں کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت یقینی بنانے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو شکست فاش دینے کیلئے ہمیں فکری ونظریاتی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے نصابِ تعلیم پر توجہ دینی چاہئے، ہمیں عوام کو یہ باور کرانا چاہئے کہ ملک میں بسنے والا ہر شہری پاکستانی ہے اور قائداعظم کے وژن کے تحت ملکی ترقی کیلئے ہر شہری کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستانی عوام کی اکثریت مذہب کی جانب رحجان رکھتی ہے، اس حوالے سے مذہبی لیڈران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے طرزِعمل سے ثابت کریں کہ دنیا کا ہر مذہب امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے اور کسی دوسرے مذہب کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچانا درحقیقت خدا کو ناراض کرنا ہے، جس سے خدا ناراض ہوجائے وہ اپنی تمام تر عبادات کے باوجود سکون نہیں پاسکتا۔ کوئٹہ چرچ حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نے ثابت کردیا کہ انتظامیہ سپریم کورٹ کے 19جون کے تفصیلی فیصلے بالخصوص سیکورٹی پلان کے عملی نفاذ میں تاحال ناکام ہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشتگردوں کے سفاک حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات بھلا کر قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا، تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد قومی ایکشن پلان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا باعث بننا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، اگر قومی ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد ہورہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ دہشت گردوں کو اپنی کارروائیاں اتنی آسانی سے کرنے کا موقع ملتا، دوسری طرف ایسے المناک سانحات کے بعد مذمتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور جاں بحق، زخمی ہونیوالوں کیلئے حکومتی امداد کا اعلان ہوجاتا ہے، بہت سارے ایسے کیس سامنے آئے ہیں جن میں متاثرین کو مالی امداد کی فراہمی کیلئے برسوں انتظار کرایا جاتا ہے۔ ہمیں ایسے سانحات سے سبق حاصل کرکے اپنی سیکورٹی کو فول پروف بنانا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسے المناک واقعات رونما نہ ہونے پائیں، اس سلسلے میں ہمارے سامنے امریکہ کی مثال ہے، امریکہ نے تو ایک نائن الیون جیسے المناک سانحے کے دوبارہ رونما نہ ہونے کیلئے اپنی داخلی اور خارجی سیکورٹی مستحکم کردی لیکن ہم پاکستان کے چپے چپے پر دہشت گرد عناصر کی طرف سے خون کا کھیل روکنے میں ناکام ہیں، زیادہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اتنی زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود عالمی برادری کی نگاہ میں پاکستانی ہی مشکوک ٹھہرتے ہیں۔ جب بھی کچھ دن امن کے گزرتے ہیں اور عوام سکھ کا سانس لینے لگتے ہیں، عالمی برادری کا اعتماد پاکستان پر بحال ہونے لگتا ہے تو کوئٹہ چرچ حملے جیسا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے، کوئٹہ چرچ حملہ کوئی دہشت گردی کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت پر مبنی اقدامات کی ہی ایک کڑی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چرچ پر حملہ کرکے یہ منفی پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں، اس نفرت انگیز پیغام کو رد کرنے کیلئے معاشرے کے تمام مکاتب ِ فکر کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس قومی عزم کا اظہار کرنا چاہئے کہ ہم امن پسند معاشرے پر مسلط ہونے کی کوشش کرنیوالے چند فیصد شدت پسند عناصر کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ایسے ہر سانحہ کے بعد ہم نے بیرونی قوتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کا وطیرہ بنالیا ہے، میرے خیال میں ان بیرونی ہاتھوں کو لازمی طور پر اندرونی حمایت حاصل ہے، ہمیں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکال کر اپنی کوتاہیوں پر بھی توجہ دینی چاہئے، ہمیں ان وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے دہشتگردی کا عفریت کسی صورت قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا، اسی طرح سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کے بعد جس انداز میں افغان سرحد بند کی گئی اور بعد میں دوبارہ کھول دی گئی، یہ اقدام بھی انسداد دہشت گردی کا دیرپا حل نہیں۔ اگر پاکستان کے پاس حقیقت میں اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ افغان سرزمین ملک میں دہشت گردی کے فروغ کیلئے استعمال ہورہی ہے تو ہمیں افغان قیادت، دوست ممالک، اقوام متحدہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا چاہئے، پاکستان نے ماضی میں ہمیشہ افغانستان سے برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی، ہمیں آج بھی افغان عوام کو باور کرانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے کہ دونوں ہمسایہ ممالک میں امن علاقائی ترقی کی ضمانت ہے، دہشت گرد عناصر کو کسی صورت افغان سرزمین میں پناہ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کا ایک منظم و مربوط سسٹم باہمی مشاورت سے تیار ہونا چاہئے، میری معلومات کے مطابق دہشت گردی عالمی ایجنڈے پر 1934 سے موجود ہے اور کوئی پندرہ کے قریب عالمی کنونشن انسدادِ دہشتگردی کے موضوع پر ہیں جبکہ متعدد مواقع پر اقوامِ متحدہ میں بھی دہشت گردی کے مسئلے کو زیربحث لایا گیاہے، اگر ہمیں اپنے پڑوسیوں سے کوئی جائز شکایت ہے تو اس کیلئے عالمی فورمز سے رجوع کیاجانا چاہئے۔ اسی طرح پاکستان کو انسداد دہشتگردی کیلئے یورپی یونین، برطانیہ، سری لنکا سمیت دیگر ممالک کے تجربے سے بھی استفادہ کرنا چاہئے، آج عالمی امن کے فروغ، انسانی حقوق کے تحفظ اور اقتصادی خوشحالی کیلئے سرگرم یورپی یونین کے ممبر ممالک کسی زمانے میں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوا کرتے تھے، نہ صرف جنگ و جدل بلکہ ایک دوسرے کیخلاف پراکسی وار بھی لڑا کرتے تھے لیکن وقت نے انہیں سکھلا دیا کہ ترقی و خوشحالی کا سفر امن کے قیام کے بغیر ممکن نہیں، سری لنکا حکومت کی تامل باغیوں کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے جس میں بالآخر دہشت گردوں ہی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا، آج سری لنکا ترقی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے۔ میری نظر میں آج پاکستان میں امن کے فروغ کیلئے زیادہ ذمہ داری حکومت اور پارلیمانی نمائندوں پر عائد ہوتی ہے جنہیں عوام اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں جس طرح آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد اپنے اختلافات بھلا کر امن کیلئے متحد ہوئی تھیں، آج اسی طرح مذمتوں کے سلسلے سے باہر آکر قومی ایکشن پلان کے نفاذ کیلئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا جائے، اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدہ اور سخت فیصلے کرنے ہونگے جبکہ ہمارے قومی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں چوکسی سے ادا کرنی چاہئیں۔ آئیں، ہم سب ملکر کوئٹہ حملے میں جاں بحق ہونشوالے بیگناہ شہریوں اور زخمیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ دعا کریں کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد اور کوئی مقدس مقام دہشت گردوں کا نشانہ کبھی نہ بن سکے۔