• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیڈری کا شوق نہیں، اختیارات سے تجاوزنہیں کررہے، چیف جسٹس

Todays Print

کراچی(اسٹاف رپورٹر‘جنگ نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ الیکشن سے پہلے سندھ اور پنجاب میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر کے رہیں گے‘ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے‘شہریوں کو گندا پانی مہیا کیا جارہا ہے اور یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے‘جہاں واٹر بورڈ کی لائنیں نہیں وہاں پانی کے ٹینکر مفت پہنچائیں‘ بوتلوں میں نلکوں سے بھر کر غیرمعیاری پانی بیچاجارہاہے‘ پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہے‘اپنے بچوں کیلئے کیا کرکے جائیں گے‘ صحت عوام کا بنیادی حق ہے جس کیلئے صاف پانی بنیادی ضرورت ہے‘ٹینکرزمافیا کب ختم ہوگا‘اس کے خلاف کیاکارروائی کی گئی‘اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ‘ لاہور کے اسپتالوں کا دورہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کیا، میو اسپتال میں وینٹی لیٹر کی سہولت نہیں تھی جبکہ کئی ڈاکٹروں کو بلڈپریشرچیک کرنا بھی نہیں آتا ‘مجھے لیڈر بننے کا کوئی شوق ہے نہ اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں‘جواقتدار میں رہے وہی خرابی کا باعث ہیں ‘جس کو تنقیدکرنی ہے کرلے، معاملہ حل کریں گے چاہے رات کو بھی عدالت لگانا پڑے ‘ صاف پانی فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، سندھ حکومت پر واضح کردیناچاہتے ہیں کہ ہمارے پاس توہین عدالت کا آپشن بھی موجود ہے۔ہفتہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی اور شہروں میں گندے پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں4رکنی لارجربینچ کی۔بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس فیصل عرب،جسٹس سجادعلی شاہ شامل تھے۔چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے ٹریٹمنٹ پلانٹس سمیت دیگرمنصوبوں کی رپورٹ پیش کی۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں550ملین گیلن پانی یومیہ کینجھرجھیل سے آتاہے جبکہ کراچی میں100ملین گیلن پانی یومیہ حب ڈیم سے آتاہے‘اس موقع پر واٹربورڈکی تیارکردہ ویڈیو بھی عدالت میں دکھائی گئی۔دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ معاملہ انسانی زندگیوں کا ہے، رات 12 بجے تک سماعت کرنا پڑی تو کرینگے۔ انہوں نے کہاکہ واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی اور اسباب بھی بتائے لیکن سندھ حکومت نے واٹر کمیشن رپورٹ پر اعتراض نہیں اٹھایا‘چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے یمارکس میں کہا کہ پانی کی قلت سے واٹرمافیامضبوط ہوتی ہے، جس پر ایم ڈی واٹربورڈنے کہا کہ پانی کی چوری کی مستقل نگرانی کررہے ہیں، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کام کرناچاہیں تومخیرحضرات بھی مل جائیں گے، کام کے حوالے سے آپ کی ہمت نظرآنی چاہیے۔ ایم ڈی واٹر بورڈہاشم رضازیدی نے عدالت کو بتایا کہ گندے پانی کی وجہ زیر زمین لائنوں میں غیر قانونی کنکشن اور لیکج ہے، کینجھر جھیل سے آنے والا پانی صاف ہے، ساڑھے چار ہزار ٹینکر یومیہ چلتے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ شہر میں پانی کی لائنیں 20،25سال سے تبدیل نہیں ہوئیں ۔چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ کیا آپ ضمانت دیتے ہیں کہ ابھی کینجھر جھیل چیک کرائیں تو پانی صاف ہوگا، پانی سے صرف مٹی نکالنے کو فلٹریشن نہیں کہتے، کیا یہ پانی پینے کے قابل ہوتا ہے، کراچی میں 45 لاکھ ملین گیلن گندہ پانی سمندر میں جا رہا ہے، کیا یہ معمولی بات ہے۔انہوں نے چیف سیکریٹری سندھ پراظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا بتائیں شہریوں کوصاف پانی کب تک ملے گا ٹائم فریم دیں،آپ کو یہ کام الیکشن سے پہلے اوردو ماہ میں کرنا ہے میری ریٹائرمنٹ کے بعد والے منصوبے نہ بتائیں‘ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے چھ ماہ میں پانی کے مسئلے کا حل چاہئے‘ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو پریزنٹیشن دی، توعدالت نے سرزنش کی اور کہاکہ پانی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں،کیا آپ مفلوج قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں خون میں جراثیم شامل کرنا چاہتے ہیں؟ پانی کی فروخت کاروبار بن چکا ہے، پانی فراہمی کا کوئی نظام نہیں، یہ واٹر بورڈ کی غفلت ہے۔ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی، عمارتوں کی تعمیر اور غیر قانونی کنکشن تباہی کا سبب ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہر مسئلے کا جواز طے کر کے بیٹھیں ہیں، کل رات بھی باتھ آئی لینڈ میں ٹینکر سے پانی لیا، واٹرٹینکرز اور ہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیا آپ کا بندہ ماہانہ پیسے وصول نہیں کرتا، پانی دیتے نہیں ٹینکرز چلا کر کمائی کا دھندہ چل رہا ہے، ہمیں بتایا جائے اسپتال، میونسپل اور صنعتی فضلے سے متعلق کیا اقدامات اٹھائے گئے، آج مجھ سے جہاز میں لوگوں نے پوچھا، چیف جسٹس صاحب کیا آپ جس مسئلے کے لیے کراچی جا رہے ہیں وہ مسئلہ حل ہو سکے گا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پنجاب میں بھی پانی کا معاملہ اٹھایا ہے، اس مسئلے کو حل کرکے رہیں گے‘چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا کب سے اور کیسے چل رہا ہے؟بتایا جائے واٹر ٹینکر مافیا کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟چیف جسٹس نے کہاکہ بنیادی حقوق کی فراہمی حکومت کا کام ہے۔گندگی کے ڈھیر سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں،بوتلوں میں غیر معیاری پانی فروخت ہورہاہے،ایک نلکا لگا کر بوتل بھر کر پانی کیسے فروخت ہورہاہے؟شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومت سندھ پر واضح کردیناچاہتے ہیں کہ توہین عدالت کاآپشن موجود ہے۔عدالت یہاں سے اٹھ کر نہیں جانے والی نہیں‘ اے جی اے جی سندھ بتائیں5 دسمبر سے آج تک کیا کام کیا،چیف سیکرٹری صاحب یہ مسئلہ الیکشن سے قبل ہی حل ہوجانا چاہیے‘چیف جسٹس نے سندھ میں اسپتالوں کی ابترصورتحال کا بھی از خود نوٹس لے لیا‘دوران سماعت چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ سیکرٹری صحت عدالت میں موجودہیں، جس پر فضل اللہ پیچوہو نے جواب میں کہا کہ جی میں کورٹ میں موجودہوں۔سپریم کورٹ نے سیکرٹری ہیلتھ سے میڈیکل کالجزکی فہرست طلب کرلی اور کہا کہ بتایا جائے کون سے میڈیکل کالجزپی ایم ڈی سی سے رجسٹرڈہیں۔سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری سندھ کے تبادلے پرحکم امتناع برقراررکھتے ہوئے حکم دیا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر تبادلہ نہ کیا جائے،جبکہ دیگرسیکرٹریزاورافسران کے تبادلوں پرعائدپابندی ختم کردی گئی۔

تازہ ترین