(چوتھی قسط)
صخراء …یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی تعمیر کی تھی، جس کا ذکر احادیث میں بیت اللہ اور مسجد اقصی کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ کے ضمن میں آتا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور مسجد اقصی اس کے چالیس سال بعد حضرت اسحق نے کی ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر3366صحیح مسلم حدیث نمبر520) پھر سلیمان علیہ السلام نے یہاںعظیم الشان عبادتگاہ (مسجد)بنائی۔ جسے یہود ہیکل سلیمانی کہتے ہیں اور مسلمان مسجد۔ اس ہیکل یا مسجد کو شاہ بابل بخت نصر نے 587ق م میں مکمل طور پر برباد کردیا، یہود کی بابل میں اسیری سے لوٹنے کے بعد دوبارہ ہیکل تعمیرکیاگیاجسے حضرت عیسی علیہ السلام کے ستر سال بعد رومن بادشاہ ٹائٹس نے ملیامیٹ کردیا تھا۔اور عہد نبوی کے رومن بادشاہ ہیڈریان نے اس کے سارے کھنڈرات تک اکھاڑ ڈالے تھے ۔ یہ بھی روایت ہے کہ ہیکل سلیمانی مکمل تباہ کردیاگیاتھا۔ لیکن اس کی مغربی دیوار بچ رہی تھی ۔اس کے دروازے سے آنحضور صلی اللہ معراج کی رات داخل ہوئے تھے اور جہاں آپ نے براق باندھاتھا اسی نسبت سے اسے دیوار براق کہاجاتاہے جبکہ یہود اسے دیوار گریہ کانام دیتے ہیں ۔
بعض کتابوں میں دور نبوی میں یہاں کسی عمارت کے وجود کا پتہ چلتاہے ۔ لیکن روایات و آثار اس کی تائید نہیں کرتے ۔ البتہ سیاحوں کی کی رہنمائی کیلئے جو کتب میسر ہیں ان میں سے ایک کتاب (Israel & Palestinian Territories)کے مصنف نے ص86پر لکھا ہے کہ ’’ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بازنطینی دور میں قبۃ الصخراء کے ایریے میں کوئی بہت زیادہ تعمیر نہیں کی گئی تھی لیکن ( مدابا) اردن میں ملنے والے نقشے سے ظاہر ہوتاہے کہ کہ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں اس پلیٹ فارم پر کے بیرونی اطراف میں میں کوئی تعمیر پائی جاتی تھی ۔ شاید اس کے جنوب مشرقی حصہ میں ایک کنیسہ کا ذکر ملتا ہے جس کا ایک زائر نے بھی تذکرہ کیا ہے ۔اس کے سوا کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا ( بیت المقدس میں تین دن ، از ڈاکٹر صہیب حسن لندن)اگر یہ صحیح ہے تو یہ اشکال حل ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ نے سفرمعراج میں کسی عبادتگاہ میں نماز پڑھائی تھی جسے قرآن کریم نے مسجد اقصی کا نام دیا ہے اور جس کادروازہ اس رات بند نہیں ہورہاتھا ۔چونکہ تاریخ بعض جگہ ایسی خاموش ہے کہ اس کی خاموشی سناٹے میں بدل چکی ہے ۔ ممکن ہے یہاں کوئی تاریخی آثار ہوں جو عیسائیوں نے یہود دشمنی کی بھینٹ چڑھادیے ہوں ۔کیونکہ اس صخرہ کی یہود کے نزدیک بھی بڑی تعظیم تھی ۔ یہ پوری دنیا سے افضل ترین جگہ سمجھی جاتی تھی،ان کے نزدیک یہ صخرہ مروہ پہاڑی کی طرح تاریخی اور مقدس ہے ۔جہاں ان کے خیال میں حضرت اسحق کی قربانی کا حکم دیا گیاتھا ۔ کعب احبار جو یہودی تاریخ کے بڑے ماہر تھے اسی لیے انہوں نے حضرت عمرفاروقؓ کو اس جگہ نماز پڑھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جسے حضرت فاروق اعظم کی عقابی نگاہوں نے بھانپ لیا اور وہاں نماز ادا نہیں کی کہ پتھر کی تعظیم مقصود نہیں تھی ۔اگر آپ اس پتھر کو ہاتھ لگانا چاہیں۔موجودہ گنبدکی یہ شکل عبدالملک مروان کے دور میں بنائی گئی۔ پھر عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس پر کافی کام کیا ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی تزئین و آرائش ہوتی رہی ۔اب اس کے اوپر سونے کا جوکلس (1959) میں چڑھایاگیا۔ اس کا وزن دو سو کلو بتایا جاتاہے ۔ مسجد اقصی کے اس اونچے پلیٹ فارم میں بنی مسجدصخرہ کے درمیان میںاس چٹان اور اس کے نیچے غارکودیوار بناکر محفوظ کردیاگیاہے۔ اب اگر آپ اس پتھر کو ہاتھ لگانا چاہتے ہیں تو وہاں موجود ایک چھوٹے سے کیبن میں جائیے اور سوراخ میں ہاتھ ڈالیے ۔آپ کاہاتھ اس پتھر کو چھو لے گا ۔اس پتھرکے نیچے ایک غار ہے جس میں کبھی تابوت سکینہ رکھا ہواتھا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور حضرت داؤد علیہ السلام کے تبرکات اورحضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب انگوٹھی رکھی ہوئی تھی ( تابوت سکینہ کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت 247میں آیاہے) اوپرایک جگہ کرسی سلیمان کہلاتی ہے ، غالباً حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب ہے یا سلطان سلیمان القانونی کی طرف ، تفصیل معلوم نہ ہوسکی ۔
امام مسجد قبۃ الصخراء سے ملاقات
قبۃ الصخراء مسجد میں د ن کی نمازیں بھی باجماعت ادا کی جاتی ہیں ۔اورجمعہ میں مسجد قبۃ الصخراء میں عورتیں مرکزی مسجد کے امام کے پیچھے نمازادا کرتی ہیں کیونکہ مسجد قبلی میں صرف مرد حضرات نماز جمعہ پڑھتے ہیں ۔مسجد قبۃ الصخراء کے گول ہال کو اچھی طرح چل پھر کر دیکھا ۔اس کی چھت پر قرآنی آیات کی نقش نگاری کمال کی چیز ہے، آنکھیں نہیں تھکتیں، گردن بہرحال اکڑجاتی ہے ۔ کسی غرور کی وجہ سے نہیں تھکاوت کی وجہ سے ۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ قالین پر لیٹ جائیں اور جی بھر کر آنکھوں کو قرآنی آیات کی نقش نگاری سے ٹھنڈا کریں ۔ ہم مسجد صخر ہ کا چل پھر کر جائزہ لے رہے تھے ۔اتنی دیر میں ہماری نظروہاں امام صاحب پر نظر پڑی تعارف ہوا ان کا نام ہے الیشخ علی العباسی انہوںنے بڑی گرمجوشی کااظہار کیا کہ اچھا ہے آپ لوگ یہاں آنے لگ گئے ، انہوں نے مزید بتایاکہ میرابیٹامحمدبن علی العباسی نماز تراویح یہیں پڑھاتاہے ( یو ٹیوب پر علمی ان کی سرگرمیاں دیکھی جا سکتی ہیں) مسجد صخرہ کے قبلہ رخ دروازے سے باہر نکلیں تو چند سو قدم کے فاصلے پر یہ اونچا دالان ختم ہوجاتاہے ۔ یہاں کئی سیڑھیوں پر مشتمل ایک پتھر کا منبر ایستادہ ہے ۔مسجد کی عمارت تک کھلے صحن میں زیتون اور شاہ بلوط کے کئی درخت نمازیوں کیلئے سایہ دراز کیے رکھتے ہیں ۔ (جاری ہے)