حال ہی میں بینظیر بھٹو کی شہادت پر ایک تحقیقاتی رپورٹ اخبار میں شائع ہوئی ہے جس میں اسامہ بن لادن کو شہید بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2007ء میں بھی اسامہ بن لادن نے بینظیر بھٹو کو ذاتی دشمنی کی بنیاد پر قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد اس کے گھر سے ملنے والے کاغذات میں ایک میمو ملا ہے جو شہید بینظیر بھٹو کی شہادت کے صرف دو دن بعد بن لادن کو دیا گیا تھا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی میں اسامہ بن لادن کے ساتھ عبیدہ المصری اور بیت اللہ محسود شامل تھے جو مارے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ منصوبہ بندی کی پلاننگ، سہولت ، خودکش بمبار اور منصوبے پر عملدرآمد کرنے والے 15 اشخاص شامل تھے جس میں سے 8 افراد ماردیئے گئے ہیں جبکہ 5 افراد گرفتار اور 2 افراد مطلوب ہیں لیکن میرے دل میں ہمیشہ یہ خلش رہے گی کہ شہید بینظیر بھٹو کے قاتل گرفتار نہیں ہوسکے۔
ماہ دسمبر پاکستان کیلئے نہایت دکھ اور رنج و الم کا مہینہ ہے جس میں سقوط ڈھاکہ، سانحہ آرمی پبلک اسکول اور بینظیر بھٹو کی شہادت جیسے دلخراش واقعات پیش آئے۔ زندہ قومیں ملک کی قسمت بدلنے والے عظیم لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے جنہوں نے بے شمارقربانیاں دے کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے انتہائی قریبی تعلق رہا ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی دسویں برسی پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے محترمہ کے ساتھ گزارے گئے کچھ تاریخی لمحات اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔شہید بینظیر بھٹوسے میری پہلی ملاقات 1994ء میں سائٹ ایسوسی ایشن کی ایوارڈ تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے صنعتوں کی بحالی کا ایوارڈ دیا تھا۔ بعد میں محترمہ کی درخواست پر میں انہیں مختلف اوقات پر بیمار صنعتوں کی بحالی، ملکی معیشت، توانائی کے بحران پر مختلف تجاویز دیتا رہا جس کی بناء پر مجھے ان سے قربت حاصل ہوگئی، وہ مجھے اپنے ساتھ کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لے کرگئیں۔ بی بی عموماً اپنے خصوصی طیارے کی روانگی کے بعد وفد کے ارکان کو فرداً فرداً بلاکر ان کی تجاویز اپنے دورے کے ایجنڈے میں شامل کرتی تھیں۔ 2002ء کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن بی بی، مخدوم امین فہیم اور سینیٹر رضاربانی کے اصرار پر میں محترمہ کو انکار نہ کرسکا۔ یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ دبئی میں جلاوطنی کے دوران میں اور میرے بھائی اشتیاق بیگ محترمہ کے بہت قریب رہے۔ میری مرحومہ بھابھی نازیہ حسن سے محترمہ کی نہایت قریبی دوستی تھی۔ ہم نے برطانوی پارلیمنٹ کے چند ارکان کے ذریعے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی۔ اسی طرح امریکہ نے بھی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے ذریعے بی بی کو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا اوربالاخر شہید بینظیر بھٹو نے 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ استقبالیہ کمیٹی جس میں، میں بھی شامل تھا نے محترمہ کے شاندار استقبال کی تیاریاں کیں، پھر دنیا نے دیکھا کہ کراچی بالخصوص بلاول ہائوس کا میرا قومی اسمبلی کا حلقہ NA-250 محترمہ کی قد آور خوبصورت تصاویرسے سجایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے مجھے، قائم علی شاہ اور دوسرے لیڈرز کو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی سے گرفتار کرواکے ڈیفنس تھانے میں رکھا۔ ہماری رہائی کیلئے خورشید شاہ، رضا ربانی، یوسف تالپور اور میرے وکلاء رات گئے تک کوشش کرتے رہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے میرے علاوہ تمام لیڈرز کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ وہ مجھ سے شہید بینظیر بھٹو کے استقبال کی تیاریوں کے انتظامات نہ کرنے کا وعدہ لینا چاہتے تھے لیکن میں نے اس کا انکار کردیا تھا۔ رات گئے اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے مجھ سے فون پر بات کرکے مجھے رہا کرنے کا حکم دیا۔
شہید بینظیر بھٹو کا شایان شان استقبال اور سانحہ کارساز تاریخ کا حصہ ہیں۔میں نے الیکشن اور بی بی کے استقبال کی مصروفیات کی بناء پر اپنے چھوٹے بھائی اشتیاق بیگ کو بی بی کے ساتھ دبئی سے کراچی آنے کیلئے بھیجا۔ بی بی نے طیارے میں اپنے ہاتھ سے میرے نام کی پی پی پی الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی بلکہ طیارے میں موجود تمام افراد کو پہننے کو کہااور پھر دنیا بھر کے چینلز نے میری کیپ پہنے بی بی کو طیارے سے اترتے ہوئے دکھایا۔ شہید بینظیر بھٹو اپنے قریبی ساتھیوں کومختلف ذمہ داریاں دے کر آزماتی تھیں۔ کراچی میںمحترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہائوس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں میرے علاوہ دیگر اہم پارٹی رہنما شریک تھے۔ اجلاس میں طے ہوا کہ محترمہ سیکورٹی کے پیش نظر اپنے کاغذات نامزدگی کی تصدیق کیلئے دوبارہ سندھ الیکشن کمیشن نہیں جائیں گی۔ میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن میں آپ کی حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔ میں نے فوراً اسی وقت الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کنور دلشاد جن سے میرے اچھے تعلقات تھے کو فون کیا جس کی انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔ اتوار کا دن ہونے کے باوجودسیکریٹری الیکشن کمیشن نے میری درخواست پر تھوڑی ہی دیر میں تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا، میں اسے فوراً فخریہ انداز میں لے کر بی بی کے پاس پہنچا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے Welldon کہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا نے مذاقاً کہا۔ ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا ‘‘ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ جس پر محترمہ نے جواباً کہا ’’نہیں صرف ’’بیگ ‘‘کرسکتے ہیں۔‘‘محترمہ کے یہ الفاظ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008ء کے انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 کا پارٹی ٹکٹ دیا۔ پورے پاکستان میں 2008ء کے الیکشن میں صرف میں ہی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ امیدوار تھا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل تھی۔شام کو میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی ڈیفنس رہائش گاہ پر میری انتخابی کارنر میٹنگ رکھی تھی۔ جب میں نےتقریر شروع کی تو تھوڑی ہی دیر بعد آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مختار بھٹو تیزی سے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہوگیا، بینظیر بھٹو راولپنڈی میں دہشت گرد حملے میں شدید زخمی ہوگئی ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی میں اپنے دوست فرخ مظہر کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم پہنچا جہاں ٹی وی پر ہمیں یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا۔ یہ دلخراش خبر سنتے ہی میں سیدھا بلاول ہائوس بھاگا جہاں پیپلزپارٹی کے سینٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنے عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے گلے مل کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگاکر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ اسی رات میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ طیارے میں میرے ساتھ پارٹی کے دیگر رہنما موجود تھے جنہیں یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ بینظیر بھٹو انہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئی ہیں۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لے جانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں و سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔
2008ء کے انتخابات میں، میں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے کیونکہ میرا اور پارٹی کے تمام کارکنوں کا یہ عزم تھا کہ بلاول ہائوس کے حلقے کی یہ نشست پیپلزپارٹی کی ہو مگر ایم کیو ایم نے طاقت کے زور پر بیلٹ باکس خالی بیلٹ پیپرز سے بھرکر عوامی مینڈیٹ کا جو مذاق اڑایا، وہ دنیا کے سامنے تھا۔بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کی بلیک بیری سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے۔‘‘
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
دراصل یہ وہ میسج میں نے اپنے حلقہ NA-250 میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر شکریہ کیلئے کیا تھا جس کے جواب میں بی بی نے مجھے میسج کیا تھا۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔