لاہور(اے این این)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصورعلیشاہ نے کہاہے کہ پنجاب میں62 ہزار افراد کیلئے صرف ایک جج ہے ، بعض مقامات میں عدالتیں بدترین ماحول میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں ،بڑے فیصلے ہونے کے باوجود کسی کا دباؤنہیں ،بینچ اور بار سائلوں کو جلد انصاف دےسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ،مقدمات کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ججوں کی نہیں،زیر التوا کیسز ضلعی عدلیہ میں اس وقت 11 لاکھ جبکہ ہائیکورٹ میں 1 لاکھ 47 ہزار ہیں،لاہور ہائیکورٹ میں بڑے فیصلے ہونے کے باوجود کسی قسم کا بیرونی دباؤ نہیں ، مجھے تو آج تک کسی نے فون نہیں کیا ، وکیل کیس کو ملتوی نہ کرائے، پولیس گواہ پیش کر یں اور اگرکیس والے دن سب آجائیں تو کیس ختم ہو جاتا ہے وہ نظام جو ہم نے ماڈل کورٹس کے ذریعے متعارف کروایا ہے اگر یہ نظام پورے صوبے تک پھیل جائے گا تو ایک سال میں تمام زیر التوا کیسز نمٹ جائیں گے،بینچ کی حد تک تو ہم دن رات محنت کر رہے ہیں، ججوں کو تربیت دے رہے ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی لے آئے ہیں، خواتین اور بچوں کیلئے الگ عدالتیں بھی بنائی ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے دوسرے حصہ دار (بار)اس میں ہمارے ساتھ نہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے کہاکہ مقدمات کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ججوں کی نہیں ۔جسٹس منصور علی شاہ نے موجودہ نقائص کے حوالے سے عدالتوں میں بار اور بینچ کے درمیان خلا، زیرالتوا کیسز اور چیف جسٹس بننے کی ذمہ داری اور ان سے جڑے مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے،بینچ اور بار ہی مل کر سائلوں کو جلد اور سستا انصاف مہیا کرسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے، جب ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی لائے تو بار کے ممبران نے کہا کہ یہ کس لیے لے آئے، کمپیوٹر سب ڈیٹا سامنے رکھ دے گا،کئی لوگ مقدمہ چھپانے اور نہ لگانے کے بھی پیسے لیتے ہونگے اس حوالے سے ہمیں بار سے کوئی خاص رسپانس نہیں ملا،جسٹس منصور علی شاہ وکلا کی جانب سے ہڑتال اور چھٹی کرنے کے رجحان سے خوش نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ اپنے ملک کے حالات ٹھیک نہیں اور یہ ہڑتال کر رہے ہیں،عدالتی ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع میں یکم فروری 2017 سے 31 اکتوبر تک 11 لاکھ سے زائد مقدمات ہڑتالوں سے متاثر ہوئے ہیں، نظام عدل کو بہتر بنانے میں وکلا کوئی زیادہ کردار ادا نہیں کر رہے ہیں،سال 1991 میں وکالت کی پریکٹس شروع کی اور 2009 میں لاہور ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تعینات ہوئے، پشاور سے تعلق رکھنے والے جسٹس منصورعلی شاہ نے جون 2016 میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا عہدہ سنبھالا،جج سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا سفر اور زندگی میں کیا تبدیلی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ گالی بھی چیف جسٹس کو پڑتی ہے اور تعریف بھی ا نہی کی ہوتی ہے لیکن دبا ؤبہت زیادہ ہوتا ہے، بطور چیف جسٹس نہ میں کسی جج کو کچھ کہہ سکتا ہوں اور نہ کہا ہے کہ کیس کا فیصلہ کیسے کرنا ہے،ہر جج خود مختار ہے، بڑے بڑے فیصلے ہوئے ہیں شوگر ملوں کے کسی نے اگر کہا بھی ہو کسی شادی پر، محفل میں بھی کہہ دیا ہو ذرا دیکھ لیں، تو یہ (جج)آپ پر انحصار ہے کہ اپنی آزادی کو کیسے قائم رکھتے ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بھی انسان ہیں، ٹی وی بھی دیکھتے ہیں اور اخبار بھی پڑھتے ہیں لیکن ہم اثر نہیں لیتے، کئی معاملات جو عدالت میں چل رہے ہوتے ہیں، ان سے متعلق ٹی وی پر بحث ہو رہی ہوتی ہے جو اصولا ٹھیک نہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر اور میرے جج صاحبان کو اب عادت ہوگئی ہے جب عدالت میں ہم جج کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ایسا نظام ہے کہ اس وقت یہ سارے اثرات ختم ہو جاتے ہیں آپ صرف بحث اور شواہد کی بنیاد پر اپنا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وہ موبائل صرف واٹس ایپ کیلئے استعمال کرتے ہیں،سال 2017 کے اختتام پر پنجاب میں عدالتوں کی کارکردگی اور زیر التوا کیسز کے حوالے سے چیف جسٹس کا کہنا ہے پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں اس وقت 11 لاکھ مقدمات سے زائد ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں یہ تعداد 1 لاکھ 47 ہزار ہے، اس سال 30 نومبر تک نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد لوئر کورٹس میں 20 لاکھ اور لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 43 ہزار سے زائد ہے، زیر التو مقدمہ کی بنیادی وجہ ہے ججوں کی کم تعداد ہے، لوئر کورٹس میں ججز کی منظورشدہ تعداد 2600 ہے جبکہ 1770 اس وقت فعال ہیں ، لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی منظورشدہ تعداد 60 ہے جبکہ 50 جج صاحبان اس وقت کام کر رہے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ہے اس حساب سے صوبے میں 62 ہزار افراد کیلئے ایک جج میسر ہے اور ہر جج کےحصہ میں 657 مقدمات آتے ہیں یہی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں فی جج صرف 250 تک محدود ہوتی ہے اسلئے پانچ چھ ہزار جج لگائیں،پاکستان کے نظام عدل میں انصاف کے حصول کے لیے کئی لوگ ساری زندگی قانونی جنگ لڑتے ہیں اور کئی افراد کی تو نسلیں بھی مقدمات کے فیصلے کی منتظر رہتی ہیں اس صورتحال کا فوری حل ہے کیس مینیجمنٹ۔پہلے ایک جج ہر طرح کے کیس سنتے تھے، کرائم، فیملی، بزنس لیکن اب ہم نے کورٹس کو مخصوص کر دیا ہے، جج صاحبان اب روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی کیٹگری کے کیس سن رہے ہیں تو بہتر اور جلد فیصلے سنائے جا رہے ہیں جو پرانے زمانے کا فائل ورک ہے اس کی جگہ اب آن لائن سب ڈیٹا مل جاتا ہے ، اینڈرائڈ ایپلیکیشن بھی لانچ کی ہے، پنجاب کے چھوٹے شہروں میں بیٹھے افراد پہلے لاہور آکر لسٹ میں اپنا کیس ڈھونڈتے تھے لیکن اب گھر بیٹھے اس ایپلیکیشن کے ذریعے کیس کی تفصیلات پڑھ لیتے ہیں، 1134 پر کال کر کے لوگ اپنے زیر سماعت کیسز سے متعلق معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور شکایات بھی درج کروا سکتے ہیں، 5مہینے پہلے کال سینٹر قائم کیا گیا اور اس میں 1528 شکایات درج ہوئیں جبکہ 1490 کو حل کر لیا گیا،صوبہ پنجاب کی عدالتوں کی کارگردگی کا اگر دوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ کریں تو چیف جسٹس کا کہنا کہ پنجاب میں مقدمہ سازی کی شرح 96 فیصد ہے، عوام کا اعلی عدلیہ کے مقابلے میں ضلعی یا سیشنز کورٹس سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے اس بارے ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عوام کا سیشن عدالتوں پر یقین کم ہے،اعتماد کا اندازہ تو نئے درج ہونے والے مقدمات کی تعداد سے ہوگا،مقدمات تو بڑھ رہے ہیں ہر سال اس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت سے نالاں ہیں یا اداروں سے تو وہ عدالت کا رخ کرتے ہیں، ہر آدمی عدالت آتا ہے کہ کوئی اور ان کی سنتا نہیں ہے، مقدمات کے بروقت فیصلے کیلئے ہم نے اے ڈی آر نظام متعارف کر وایا ہے یہ نظام 6مہینے پہلے پنجاب میں متعارف کروایا تھا اور اس وقت 36اضلاع میں چل رہا ہے جس میں اب تک 5ہزار سے زائد کیسز کے فیصلے ہو چکے ہیں، 15 سال سے لٹکے ہوئے کیسز کا فیصلہ ایک دن میں کیا گیا ہے،پراسیکیوشن کے مسائل، کمزور شواہد اور تفتیشی عمل کے ساتھ ساتھ پولیس کے نظام میں مسائل عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو نے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ʼپراسیکیشن کی قابلیت، معیار اور مدد اس سطح کی نہیں ہے دونوں سسٹم میں بہت زیادہ پرابلم ہیں لیکن وہ حکومت کو دیکھنا ہے ، عدالتی نظام کے لیے اہم ہے کہ سب اپنا کام کریں ،مِس کیرج آف جسٹس کے مقدمات میں معاوضے کے نظام سے متعلق ان کا اصرار تھا کہ اگر مس کیرج آف جسٹس ہو تو عام طور پر اپیل اس کو صحیح کر دیتی ہے لیکن لاگت یا معاوضہ دینے کا نظام یہاں رائج اتنا نہیں ہے۔