• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بار بینچ حدود میں رہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہڑتالوں سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

Todays Print

لاہور(نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسی )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ادارے کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ بار اور بنچ اپنی حدود میں رہیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہڑتالوں سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، ایسی باتوں پر ہڑتالیں کر دی جاتی ہیں جن کا ہماری عدلیہ سے کوئی لینا دینا نہیں اس وجہ سے نظام رکا پڑا ہے، کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی جس پر ہڑتالیں کی جاتی ہیں، اس پرانے اور گھسے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے پر بار مجھ سے ناراض نظر آتی ہے، ہم کھلے دل سے بار کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت بلاشبہ ہمیں اچھی نہیں لگتی ، بار کہتی ہے کہ چیف جسٹس وکیلوں کیخلاف ہے، میں وکلاءسے اپیل کرتا ہوں وہ آئیں اور بتائیں وہ کیوں میرے خلاف ہیں، 62؍ ہزار لوگوں کیلئے ایک جج ہو تو اتنے ہی مقدمات کے فیصلے ہوں گے جتنے اب ہو رہے ہیں، 2017 میں 21؍ لاکھ مقدمات کے فیصلے ہوئے، گزشتہ 10ماہ میں صوبہ بھر میں 3840؍ ہڑتالیں نہ ہوتیں تو 2؍ لاکھ 40 ہزار مزید مقدمات کے فیصلے ہو جاتے۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر انتظام مقامی ہوٹل میں فیوچر آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جس میں لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان، جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈ یشر ی محمد اکمل خان، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ماہ رخ عزیز، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ظفر اقبال کلانوری، صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، ایڈیشنل سیشن ججز، پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے فیکلٹی ممبران اور سینئر سول ججز و سول ججز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔فاضل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ عدالتیں ایسے چلیں جیسے دنیا بھر میں چلتی ہیں اور کوئی کسی سے بدتمیزی نہ کرےتو کیا یہ غلط بات ہے، آج ایک چھت تلے اکٹھے ہونے کا مطلب ہے کہ ہم ایک پیج پر ہیں، صوبائی عدلیہ میں لائی جانے والی تمام اصلاحات ہماری اجتماعی کاوشیں ہیں، صرف منصور علی شاہ کچھ نہیں ہے یہ سب ایک ادارہ ہے، عدلیہ صرف ہائیکورٹ یا ججز کا ادارہ نہیں ہے، یہ سول جج، سیشن جج، سپرنٹنڈنٹ، ریڈرز اور تمام عملے کا ادارہ ہے، ہم ایک خاندان کی مانند ہیں ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مزیدبہتر کیسے کر سکتے ہیں، یہ تاثر غلط ہے کہ کام نہیں ہو رہا، لاکھوں مقدمات رواں برس درج ہوئے جن میں سے اکثر کے فیصلے کر دیئے گئے، پنجاب کی آبادی 11 کروڑ جبکہ ججز کی کل تعداد 1771 ہے، 62 ہزار افراد کے لئے پنجاب میں ایک جج ہے، پوری دنیا میں کہیں ایسا نہیں، اگر دنیا کے معیار کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر پنجاب میں 10 ہزار ججز کی ضرورت ہے، جرمنی میں 4ہزار افراد کیلئے ایک جج ، فرانس میں 9 ہزار، اٹلی میں 8ہزار، سویڈن میں 7ہزار، کینیڈا 10 ہزار ہے، اگر 10 ہزار کی اوسط بھی نکالی جائے تو پنجاب میں 10 ہزار جج ہوں گے تو ہم بین الاقوامی معیار پر پورا اتر سکتے ہیں ،ہم نہیں کہتے دنیا بدل دیں مگر ہم انہیں حقیقتوں کے اندر رہ کر نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، اعدادوشمار کے مطابق سال 2017 میں 20لاکھ مقدمات فائل ہوئے جبکہ 21لاکھ نمٹائے گئے ، 2016 میں بھی 20 لاکھ کے فیصلے کئے، پنجاب کی آبادی 11کروڑ ہے اور اس تناسب میں 62 ہزار افراد کیلئے ایک جج ہے، بین الاقوامی اسٹینڈرڈز کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں 10ہزار ججز کی ضرورت ہےجبکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے جج کو روزانہ 7 سو مقدمات سننا پڑتے ہیں، ان حالات میں بھی لوگوں کے مقدمات کے بہترین فیصلے کرنے پر ضلعی عدلیہ کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ گزشتہ 10ماہ میں صوبہ بھر میں 3ہزار سے زائد ہڑتالوں سے 22 لاکھ کے قریب مقدمات نہیں سنے جاسکے اور اگر یہ ہڑتالیں نہ ہوتی تو 2لاکھ 40 ہزار مقدمات اور نمٹائے جا سکتے تھے ،اگر میں کہتا ہوں کیمرے لگائے جائیں اور اگر کوئی جج بدتمیزی کرے تو مجھے نظر آ جائے اگر کیمرے لگ گئے ہیں تو کیا یہ ناراضگی والی بات ہے،اگر ٹرانسفر پالیسی میری ہے تو مجھے پرچی مت لا کر دیں کہ کس جج کو کہاں لگانا ہے،تحصیل کی سطح پر حکومت سے پیسے لے کر ہر بار کو جدید کمپیوٹر ،پرنٹرز اور انٹرنیٹ کنکشن دیئے یہ بار کو نظر نہیں آتا، احتساب اپنے گھر سے شروع کیا ناراض بار والے ہو رہے ہیں، ہمارے نظام میں بھی غلطیاں ہیں، ادارہ بنانا ہے تو اے سی آر ایمانداری سے لکھیں۔چیف جسٹس سیدمنصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائیکو ر ٹ میں ججز تقرری کیلئے ضلعی عدلیہ کے ججز کو مناسب نمائندگی دی جانی چاہیئے، لاہور ہائی کورٹ میں کوئی بھی تقرری یا ترقی غیر قانونی یا میرٹ سے ہٹ کر نہیں ہوئی جب تک ہم خود کو تبدیل نہیں کر سکتے تو کوئی اکیڈمی، کوئی کورس اور کوئی بیرون ملک کا دورہ ہمارے اندر نکھار نہیں لا سکتا، ہم نے دل میں درد رکھ کر ان اصلاحات کا مقصد سمجھنا ہے، جو جج عام سائل کا درد نہیں سمجھ سکتا وہ اس پروفیشن میں غلط آ گیا ہے،۔

تازہ ترین