کاروان قائد کا ایک چراغ اور بجھا اور یہ چراغ تھا قائداعظم محمد علی جناح کا سابق اے ڈی سی بریگیڈیر نور حسین…بریگیڈیر صاحب کئی عہدوں پر رہے لیکن میرے نزدیک ان کا اصل اعزاز یہ تھا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کے اے ڈی سی رہے۔ وہ قائد اعظم کی علالت اور زیارت میں قیام کے عینی شاہد تھے۔ یہ تفصیلات بتاتے ہوئے وہ بار بار”عظیم شخصیت“ کا لفظ استعمال کرتے اور ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ان سے باتیں کرکے مجھے ہمیشہ یوں محسوس ہوا جیسے قائد اعظم کے ساتھ گزرا ہوا ان کا وقت ایک مکمل فلم کی مانند ان کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ لمحات کی باریکیوں سے یوں واقف ہیں جیسے یہ ابھی کل کی بات ہو۔ ہم بنیادی طور پر”علم دوست“ قوم نہیں، جب تک بریگیڈیر صاحب زندہ تھے اور ان کے جسم میں توانائی کی حرارت تھی میں مختلف اداروں سے کہتا رہا کہ ان سے تفصیلی انٹرویوز کرکے محفوظ کرلو کہ وہ ساری انفارمیشن لے کردنیا سے رخصت ہوجائیں گے لیکن مجھے علم نہیں کہ میری فریاد پر کسی نے عمل کیا یا نہیں، البتہ جب مشہور امریکی پروفیسر والپرٹ قائد اعظم پر کتاب لکھ رہا تھا تو اس نے بریگیڈیر صاحب کا کوئی بیس بائیس گھنٹوں پر مشتمل انٹرویو کیا تھا۔ میری اطلاع کے مطابق اب کاروان قائداعظم کی صرف ایک نشانی باقی ہے اور وہ ہیں رضا ربانی کے والد گرامی جناب عطاربانی صاحب جو قائداعظم کے اے ڈی سی رہے۔
قائد اعظم سے زیارت میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی ملاقات پر خاصے شکوک و شہبات کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ ایک سازش تھیوری تشکیل دی جاچکی ہے اس لئے مجھے اس موضوع میں خاصی دلچسپی تھی۔ کسی بحث میں الجھے بغیر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے مشاہدے کے مطابق کسی بھی حکمران کا اے ڈی سی اس سے قریب ترین شخص سمجھا جاتا ہے جو اندرون و بیرون خانہ ہر راز سے واقف ہوتا ہے۔ چونکہ قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام کے دوران زیارت میں لیاقت علی خان کی ان سے ملاقات کوسازش کا رنگ دیا جاچکا ہے اس لئے میں نے ایک بار بریگیڈیر نور حسین سے اس ضمن میں تفصیلی بات کی۔ بریگیڈیر صاحب علیل تھے لیکن انہیں ایک ایک تفصیل یوں ازبر تھی جیسے کل کی بات ہو، کہنے لگے کہ قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری کراچی میں تھے اور میں قائد اعظم کے ساتھ زیارت میں تھا۔ ایک روز ملٹری سیکرٹری کے ذریعے پیغام ملا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کے ہمراہ گورنر جنرل سے ملاقات کے لئے وقت مانگ رہے ہیں۔ بریگیڈیر صاحب کے بقول انہوں نے خود یہ پیغام قائداعظم کو پہنچایا جس کے جواب میں قائد اعظم نے نہایت خوشی سے انہیں وقت دیا، جس روز وزیراعظم کو براستہ کوئٹہ زیارت آنا تھا، قائد اعظم نے اے ڈی سی سے ان کی آمد کی تصدیق کی اور انتظامات کے بارے میں پوچھا۔ قائد اعظم نے وزیر اعظم کی آمد اور ملاقات کواتنی اہمیت دی کہ دوپہر کے کھانے کا مینو خود طے کیا اور ان کے استقبال کے حوالے سے ہدایات دیں۔ بریگیڈیر صاحب بتارہے تھے کہ جب وزیر اعظم صاحب اور چوہدری محمد علی تشریف لے آئے تو میں نے جاکر قائد اعظم کو ان کی آمد کی اطلاع دی۔ انہوں نے فرمایا کہ مہمانوں کو میرے پاس لے آئیں۔ بریگیڈیر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ خود وزیراعظم اور سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کو قائداعظم کے کمرے میں لے کر گئے۔ ان دنوں قائد اعظم شدید علیل تھے اور اس قدر نحیف ہوچکے تھے کہ بازو بھی اٹھانے سے قاصر تھے لیکن لیاقت علی خان کو دیکھ کر انہوں نے مسکرا کر بازو اٹھایا اور خوش آمدید کہا۔ کچھ دیر چودھری محمد علی بھی قائد اعظم سے ملاقات میں شامل رہے پھر وہ نیچے آکر اے ڈی سی کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ یہ گورنر جنرل کی وزیر اعظم سے ون ٹو ون آخری ملاقات تھی جس میں قائد اعظم نے وزیر اعظم کو کچھ اہم ہدایات بھی دیں۔ ملاقات کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نیچے تشریف لے آئے۔ اب کمرے میں اے ڈی سی ،قائد اعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش، چودھری محمد علی اور وزیر اعظم تھے اور چند لمحوں کے بعد مادرملت محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لے آئیں کہ انہوں نے دوپہر کے کھانے میں قائد اعظم کی نمائندگی کرنا تھی۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم لیاقت علی خان قائداعظم کی صحت کے بارے میں تشویش اور تفکر کا اظہار کرتے رہے اور وہ برابر کرنل الٰہی بخش سے علاج کی تفصیلات پوچھتے رہے۔ وزیراعظم نے کرنل الٰہی بخش کو یہ پیشکش بھی کی کہ اگر وہ بیرون ملک سے کسی ماہر ڈاکٹر کو بلانا چاہتے ہیں تو بتائیں حکومت فوراً انتظامات کریگی۔ اس موقع پرلیاقت علی خان نے کہا کہ قائد اعظم ہمارے لئے محترم ترین شخصیت اور قوم کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں اسلئے انکے علاج و معالجے میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے۔ انہی دنوں پاکستان کے امریکہ میں سفیر اصفہانی صاحب بھی قائد اعظم کی مزاج پرسی کے لئے آئے تھے اورانہوں نے بھی امریکہ سے ماہر ڈاکٹر بھجوانے کی بات کی تھی لیکن قائد اعظم کا کہنا تھا کہ میرے غریب ملک کا خزانہ ایسے اخراجات کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ اس دردمندی اور سوچ کا ذرا آج کے حکمرانوں سے موازنہ کریں تو آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
چند دنوں کے بعد جب قائد اعظم شدید ترین علالت کا شکار ہوگئے تو انہیں کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بریگیڈیر نور حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہی کراچی میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کوقائد اعظم کی آمد کی اطلاع دی اور انتظامات کرنے کے لئے کہا۔بریگیڈیر صاحب کا کہنا تھا کہ آمد کی اطلاع وزیر اعظم اور کابینہ کو نہیں دی گئی تھی جیسا کہ پرائیویٹ وزٹ کے موقع پر ہوتا ہے پھر اس کے بعد وہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا کہ قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہوگئی، محترمہ فاطمہ جناح انہیں پنکھا جھلاتی رہیں اور دوسری ایمبولینس کو آنے میں کوئی نصف گھنٹہ گزر گیا۔ بریگیڈیر صاحب نے میرے سوالات کے جواب میں بتایا کہ جب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قائد اعظم کی آمد کا پتہ چلا تو وہ کابینہ کی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر ائر پورٹ کی جانب آئے لیکن ان کی آمد سے قبل قائد اعظم کا کارواں شہر کیلئے روانہ ہوچکا تھا ۔ بریگیڈیر صاحب عینی شاہد کی حیثیت سے صرف وہ واقعات بتارہے تھے جوانہوں نے دیکھے چنانچہ اس حوالے سے وہ بہت سے سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ وزیر اعظم کو گرنرجنرل کی آمد کی اطلاع کیوں نہ دی گئی، وہ خود ائر پورٹ پرکیوں نہ آئے اور جب وہ تاخیر سے پہنچے تو وہاں سے سیدھا گورنر جنرل ہاؤس کیوں نہ گئے۔ بریگیڈیر صاحب نے دی نیوز میں قائد اعظم کی آخری ایام کے بارے میں مضمون بھی لکھا تھا جس میں وضاحت کی تھی کہ آج کے چکاچوند دور میں یہ اندازہ کرنا محال ہے کہ ان دنوں کراچی کی بے سروسامانی کا کیا حال تھااور پورے شہر میں صرف دوایمبولینس گاڑیاں تھیں۔
بریگیڈیر صاحب سے گفتگو نے میرے دو مخمصے رفع کردئیے، اول تو یہ کہ قائد اعظم کے جانشین خواجہ ناظم الدین ہوں گے یہ فیصلہ کس نے کیا اور دوم قائداعظم کی نماز جنازہ کے بارے میں فیصلہ کیسے ہوا؟ بریگیڈیر صاحب نے مجھے بتایاکہ جب وزیر اعظم لیاقت علی خان زیارت میں قائد اعظم سے ون ٹو ون ملاقات کرکے نیچے آئے توانہوں نے آتے ہی سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان چودھری محمد علی سے کہا کہ وہ خواجہ ناظم الدین اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو فون کرکے کہہ دیں کہ وہ کراچی میں موجود ہیں۔ اس سے بریگیڈیر صاحب یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ قائداعظم نے اپنی علالت کے پیش نظریہ ہدایات خود وزیراعظم کو آخری ملاقات میں دی تھیں۔ گویا یہ دونوں فیصلے خود قائد اعظم کے اپنے تھے۔ اے کاش! ہم نے کارواں قائد کی ایک شمع کے بجھنے سے قبل ان سے تمام معلومات اخذ کرلی ہوتیں تو اس سے ہمیں تاریخی ریکارڈ سمجھنے میں رہنمائی ملتی لیکن ہم مزاجاً علم دوست قوم نہیں اور ہمیں سازش ، تھیوریاں بھی بہت اچھی لگتی ہیں……!!