• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی تاریخ میںحکمران آتے جا تے ر ہتے ہیںلیکن کرشماتی قیادت ہمیشہ نایاب ہوتی ہے5جنوری ایسے کرشماتی رہنماء کا یوم پیدائش ہے جس نے پاکستان کے جمہور کورعایا سے عوام بنایا اور محکوموں کو حق حاکمیت دیااور عوام الناس نے اپنے محسن کوقائدعوام کا رتبہ عطا ء کیا۔
پاکستان کو علامہ اقبال کی فکر اور محمد علی جناح کے وژن کی مشترکہ کاوش سمجھا جاتا ہے اور تحریک پاکستان میں محمد علی جناح کی جدوجہد علامہ اقبال کے فکر ہی کی مرہون منت تھی۔ قیام پاکستان سے قبل ہی اقبال انتقال کر گئے اور پاکستان کے قیام کے چند سال کے اندر قائد اعظم کی رحلت نے ملک کو فکری اور عملی قیادت سے محروم کر دیا۔ لہٰذا تقریباً25سال تک پاکستان کے لوگوں کو رعایا اور محکوم ہی سمجھا گیا اور انہیں ریاست کے معاملات سے لا تعلق رکھا گیا۔ معاشی اور سماجی انصاف ناپید ہوتا گیا۔ بے چینی بڑھنے لگی اور تقسیم کا عمل تیز تر ہو گیا لہٰذا فلاحی ریاست کا تصور دھند لانے لگا۔ خالق کو اپنی مخلوق پر رحم آیا اور پاکستان کے لوگوں کو بھٹو شہیدجیسا قائد میسر آیا ۔ جس نے اقبال کی فکر کے مطابق جناح کے وژن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔
بھٹو شہید نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے کرشماتی نعرہ دیا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ یعنی پاکستان کے عوام اور صرف عوام ہی اس انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اس طرح پہلی دفعہ پاکستان کے لوگوں کو رعایا سے عوام بنانے کی جدوجہد کا آغاز ہوا جس سے غریب جاگنے لگے ۔امراء کے درو دیوار ہلنے لگے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگی اور غریب اور محروم طبقات کی آنکھوں میں امید کی چمک نظر آنے لیگ۔ مزدور، کسان، طالبعلم، خواتین، وکلاء دانشور نیز پسے اور کچلے ہوئے تمام طبقات اپنی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے لگے اور تقسیم کی ایک واضح لکیر نظر آنے لگی ایک طرف با اختیار حاکم طبقہ تھا اور دوسری طرف بے اختیار محکوم طبقہ جسے رعایا یا غلام سمجھا جاتا تھا
ان بے اختیاروں نے با اختیاروں سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ۔ مزدور سرمایہ دار کے مقابل کھڑا تھا۔ کسان جاگیر دار کا ظلم مزید سہنے سے انکاری تھا۔ طالبعلم جہل کو جاننے سے انکار کر رہا تھا۔ خواتین تنگ نظری سے سے نبردآزما تھیں۔ وکلا نا انصافی کے ضابطوں کے مخالف کھڑے تھے۔ دانشور، تاریک و بہیمانہ روایات کا قلع قمع کرنے کو تیار تھے ۔ پسے اور کچلے ہوئے طبقات نے استحصالی ان طبقات سے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔
قائد عوام نے اس بغاوت کو نظام کی حد تک رکھا اور ریاست کے مقتدر حلقوں کو مجبور کیا کہ جمہور کی اس تحریک کو طاقت کی بجائے جمہوریت کے ذریعہ راستہ دیا جائے یوں پاکستان میں پہلی دفعہ عوام کو ایک شخص ایک ووٹ کا حق ملا بلٹ کی بجائے بیلٹ کا راستہ چنا گیا
تقش کہن، سلطانیء جمہور کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور بھٹو کی قیادت میں عوام نے دو آمروں کو رخصت کرکے ملک کو پہلا جمہوری نظام دیا۔ ریاست کو پہلا متفقہ آئین دیا اور آئینی طور پر عوام کو اس کا حق حکمرانی عطا کیا جس کی بدولت رعایا کو عوام کا درجہ حاصل ہوا اور عوام ہی طاقت کا سرچشمہ قرار پائے پاکستان میں عوامی راج قائم ہوا۔
ملک میں جمہوریت کے قیام کے بعد سب سے ضروری اور نازک معاملہ معاشی مساوات کے قیام کا تھا ۔ کیونکہ شہیدبھٹونے بلھے شاہ کے لوکائی کے لئے پیغام ’’گُلی، جُلی ، کُلی کو اپنا نعرہ بنایا تھا کہ مانگ ر ہا ہے ہر انسان روٹی ،کپڑا ور مکان ۔ لہٰذ شہیدبھٹو کے مطابق مل اور فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور کیسے منافع میں حصہ دار نہ تھا۔ کسان کیوں کھیت کی پیداوار کا حق دار نہ تھا یعنی محنت کش کو کیسے اس کی محنت کے صلہ سے محروم رکھا جا سکتا تھا اور اسی نظام کے خلاف علامہ اقبال بھی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
شہیدبھٹونے اسی معاشی نا انصافی کے خاتمہ کے لئے سرمایہ دار سے ملیں لے کر حکومتی سرپرستی میں مزدوروں کو حصہ دار بنایا اور جاگیر داروں سے جاگیریں لے کر دہقانوں کو ان کا حق دیا۔ لاکھوں کی تعداد میںلوگوں کو روزگار فراہم کرکے انہیں بنیادی ضرورتیں پورا کرنے کے قابل بنایا۔ ملک میں ایسے معاشی مساوات کی بنیاد رکھی کہ کمی کا بیٹا بھی پاسپورٹ کا حق دار ٹھہرا اوربیرون ملک روزگار کی بدولت یوں کایا پلٹی کہ اس کا کچا مکان پہلے سے موجود پکی حویلی سے زیادہ مضبوط اور بلند ہوگیا۔
شہیدبھٹو نے فرسودہ نظام کے ساتھ ساتھ تعفن زدہ روایات کا بھی خاتمہ کیا۔ وہ طبقات جو قوم کے خلاف کئے گئے اپنے جرائم سے بخوبی واقف تھے اور ان جماعتوں کی نظریں ہمیشہ ماضی پر لگی تھیں۔ جبکہ شہیدبھٹو درخشاں مستقبل کی بات کر رہے تھے تاکہ عوام کو پستیوں سے نکال کر عظیم لوگوں کے شایان شان زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا جائے۔ شہیدبھٹو کے نزدیک قوم کو درپیش حقیقی مسائل سیاسی اور معاشی تھے نہ کہ مذہبی کیونکہ استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ دونوں ہی مسلمان تھے۔ لہٰذا شہیدبھٹو نے ان رجعت پسند قوتوں جو اپنے آپ کو مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتے تھے، کی اجارہ داری ختم کی۔ردِانقلاب کی یہ تمام قوتیں یکجا ہو گئیں اور 40سال سے بھٹو ازم کو ختم کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ کبھی بھٹو کوکا فرقراردیا جاتا ہے کبھی غدار اورآخرکار اس کو قاتل ٹھہرایا جاتا ہے لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ کافر کے بجائے شہیدبھٹوکوعالم اسلام کی قیادت کا اعزازحاصل ہوتا ہے ۔ غدار کی بجائے ۔ تاریخ شہیدبھٹو کوآئین دینے پر اندرونی اور ایٹم بم دینے پر بیرونی خطرات سے ملک بچانے پر وطن پرست قرار دیتی ہے ۔ قتل کا مجرم قرار دئیے جانے کے باوجود تاریخ اس فیصلہ کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔اور تاریخ کی عدالت میں شہیدبھٹو سرخرو قرارپاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے قائدین کو شہید کرکے عوام کو سیاسی بصیرت سے محروم کیا جاتا ہے لیکن بھٹوازم کی موجودگی ان کو بیء چین کئے رکھتی ہے۔ کیونکہ آپ کسی فرد کو قتل کر سکتے ہیں مگر اس کے نظریہ کو نہیں۔ بھٹو شہید کے بعد بے نظیر بھٹو کی قیادت کو کبھی بندوق سے ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے کبھی عورت کی حکمرانی کو خلاف اسلام قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ بیٹی وارث نہیں ہو سکتی اور کبھی کوپیپلز پارٹی کو وراثت کی سیاست سے پرہیز کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ مگر تاریخ ثابت کرتی ہے کہ وراثت اعلیٰ ہو تو قابل فخر ہوتی ہے اور ایسی میراث جو اقبال کی پکار ہو کہ
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو.

تازہ ترین