• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ابھی ابھی پاکستان سے پلٹا ہوں، وہاں رہ کر بہت کچھ دیکھا، سنا۔ کہنے، سننے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ واضح فرق۔ جسے میں اپنے حساب سے جوں کا توں پیش کررہا ہوں۔
کہنے والا جو کہتا ہے سننے والا ضروری نہیں کہ اس کو غور سے سنے اور پھر اس کے وہی معنی بھی لے جو کہنے والا کہہ رہا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ جو کرنے والا ہوتا ہے وہ کچھ کہتا کم ہے اور سناتا بھی کم ہے اور جو کچھ کہنا اور سنانا چاہتا ہے وہ کچھ کرکے عملی صورت میں کہہ اور سنا دیتا ہے لیکن دانا ایک صورت حال ایسی بتاتے ہیں کہ جب کہنے سننے کو کچھ بھی نہیں رہ جاتا ، نہ کہنے والے کی طرف کوئی دھیان دیتا ہے اور نہ سننے والے کے کانوں کو کہنے والے کی باتوں سے دلچسپی ہوتی ہے، کہنے والے کا کیا بے کار جاتا ہے اور سننے والا کان بند کرکے اپنی سی کرنے میں مگن ہوجاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا وقت آئے کہ جب کہنے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جائے لیکن اسے کیا کہئے اور کیا کیجئے کہ بعض اوقات حالات ایسے کروٹ بدل لیتے ہیں اور ایسا ماحول بنادیتے ہیں، کہنے اور سننے والوں کے درمیان ایسی خلیج حائل ہونے لگتی ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ تن کر بیٹھ جاتے ہیں، کہنے والا اپنی ہی سنانے پر مصر رہتا ہے اور سننے والا سننے کیلئے تیار نہیں ہوپاتا۔ ایسے لمحے کی آمد کا خطرہ ہوتو پھر اپنی اپنی جگہ سب کو اپنے طرز عمل اور طرز فکر میں تبدیلی کر لینی چاہیے۔ اور یہ وقت ملک عزیز پر آچکا ہے میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ وہ شخص پاکستان کے بارے میں کیا جانتا ہے جو صرف پاکستان کے بارے میں جانتا ہے۔آج کے دور کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اصول، رواداری اور جواز لوگوں کے ذہنوں سے لوگوں کی زندگیوں سے اٹھتا چلا جارہا ہے یہ الفاظ ہماری زندگی سے خارج ہورہے ہیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہماری زندگی بے شمار ثانوی اشیا کا مجموعہ ہے اور یہ کہ ثانوی چیز مل کر اسے قابل برداشت بناتی ہے۔ پاکستان جاکر ایک بات کا احساس پھر تازہ ہوا اور یقین کی تصدیق بھی کہ ہر عہد کی ایک مخصوص فکر ہوتی ہے اور طرز اظہار بھی اور ماہ وسال کے آئینے میں عہد کو دیکھنا آسان نہیں۔
آج پاک سرزمین پر دہشت اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے ایک جج رابرٹ ایل جیکسن نے جو جنگ عظیم دوم کے بعد نیوربرگ میں نازیوں پر چلنے والے مقدمات میں امریکہ کا سب سے بڑا وکیل استغاثہ تھا12اگست 1945کو کہا تھا ۔’’ ہمیں جرمنوں پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ جس غلطی کیلئے ان کے راہنمائوں پر مقدمے چلائے جارہے ہیں یہ نہیںہیں کہ وہ جنگ ہار گئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے جنگ چھیڑی تھی، اور ہمیں جنگ کے اسباب کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کوئی بھی شکایت ، زیادتی ، ظلم یا پالیسی جنگ ( دہشت گردی) کوحق بجانب قرار نہیں دیتی ، یہ انتہائی قابل مذمت اور متروک فعل ہے‘‘۔
بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جب بات کہنے اور سننے کے بارے میں سنجیدگی کا رویہ ترک کردیا جائے توپھر بہت سی ایسی باتیں یاد آنے لگتی ہیں جو اگرچہ ثانوی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان کی اہمیت ایسے لمحوں میں بڑھ جاتی ہے اور ہم اپنی اپنی انا کے طلسم میں اسیر اپنوں کوبھی غیر سمجھنے لگتے ہیں۔ تخت وتاج کے وارث لوکائی کو رعایا سمجھنے لگتے ہیں اور یوں مکالمے کی وہی صورت بن جاتی ہے کہ غیروں سے کہا سنا جاتا ہے ہزاروں میل کی دوری کو سترہ میل کی نزدیکی پر ترجیح دی جاتی ہے اور براہ راست بات کرنے کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ اس اس طرح ہماری نام نہاد برتری پر ضرب لگے کی ۔ آخر ہم نظریاتی اختلاف کو غیریت اور دشمنی کیوں سمجھ لیتے ہیں؟ ہم سب پاکستانی ہیں، ہم سب کا ایک وطن ہے ہم سب اس مٹی کے وفادار ہیں اسکی بہتری چاہتے ہیں اسکے عوام کی بہتری چاہتے ہیں جب یہ عقیدہ ہوتو پھر بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ کہنے والا اپنی ہی بات پر کیوں مصر ہے وہ اپنی ہی بات کو حرف آخر کیوں قرار دیتا ہے؟ وہ خود کو عقل کل کیوں سمجھتا ہے کیا محض اس لیے کہ اس کے ہاتھ میں بندوق ہے اسے تو دانا جنگل کا قانون کہتے ہیں۔ کہنے والے کی نسبت سے سننے والے کی حیثیت بہرحال کچھ مختلف ہوتی ہے ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب کہنے والے کی ہر بات پر سننے والا اعتبار اور یقین کرلیتا ہے کہنے والے اکثر ایک غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سننے والا ہماری کہی ہوئی بات سے ہی مطمئن ہوجاتا ہے اس لئے ’’ کچھ کرنے‘‘ کی کیا ضرورت ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سننے والے کا کہنے والے کی باتوں پر سے یقین اور اعتماد اٹھتا چلا جاتا ہے وہ بار بار کہی جانے والی باتوں کو جب عمل کی صورت میں نہیں دیکھتا تو اپنے کان بند کرلیتا ہے۔ ہمارے ہاں اب ایسی ہی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ لیکن سننے والوں کیلئے اب کہنے والوں کی باتوں پر توجہ دینا کچھ اور مشکل ہوگیاہے، سننے والے تو اب دوٹوک بات سننا چاہتے ہیں اب کہنے والوں کوبھی چاہیے کہ وہ مکالمہ کا اہتمام جلدی کریں وقت تیزی سے پھسلتا جارہا ہے، دشمن دشمنی کا راگ اور راگنی کا الاپ بند کریں اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں میرے اس اختلاف رائے کو ملک دشمنی یا غیریت نہ سمجھا جائے کہ میں ابھی ابھی ’’ دشمنوں ‘‘ سے بھی مل کر آرہا ہوں اگر آپ مجھے اختلاف کرنے کی اجازت نہ دیں توکیا اس کے معنی یہ نہیں ہونگے کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی ہر بات سے محض اور محض اتفاق کروں؟ اختلاف کاحق حاصل نہ ہوتو کیا اتفاق کے معنی محض حکم کی بجا آوری ، تابعداری اور غلامی نہیں ہوتے ؟ آپ حاکم اور میں محکوم۔ سوال یہ ہے کہ یہ حاکم اور محکوم کا چکر کب تک چلے گا جیسا کہ کسی عارف نے کہا ہے آپ آقا ہیں اور میں غلام اور نہ آپ انسان بن پارہے ہیں اور نہ میں‘‘۔ میں نے ملک شادباد میں یہ دیکھا ہے کہ اس وقت وہاں سیاست اور حکومت کی ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے جیسی کہ تاریخ کے ایک دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے وقت تھی۔ ’’ یہ کمپنی بہادر‘‘ بھی کہلاتی تھی دارالحکومت سے جوفرمان جاری ہوتے ہیں ان میں لکھا ہوتا تھا ملک خدا کا ، حکومت بادشاہ سلامت کی اور حکم کمپنی بہادر کا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک مخصوص سوچ، طریقہ، سلیقہ، قرینہ، علم اور عمل کی وجہ سے کشور حسین شاد باد میں ویسے ہی حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ یہاں بھی کمپنی بہادر والی حکومت ہے جو کہ چاروں طرف سے خطرات میں گھری ہوئی ہے۔
میں دشمن کی طرفداری کی خاطر
بسا اوقات خود بھی لڑا ہوں.

تازہ ترین