کراچی(ٹی وی رپورٹ) وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ زینب قتل کیس میں ملزم کی گرفتاری پر بات کرنا قبل از وقت ہے، ویڈیو میں موجود شخص سے ملتے جلتے لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا ہے، مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، طاہر القادری کا قصور جانے کا مقصد لوگوں کو بھڑکانا تھا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر،سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ اور ترجمان پاکستان عوامی تحریک قاضی شفیق بھی شریک تھے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ زینب کے معاملہ پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہئے، باقر نجفی رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ سیاسی ماسٹرز کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ قصور میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرائی گئی،طاہر القادری کو زینب کے والدین کی غیرموجودگی میں نمازجنازہ پڑھانے کا حق نہیں تھا، نماز جنازہ کے بعد طاہر القادری نے دعا کے بجائے سیاسی تقریر کی،بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں اپنا تحفظ کرنا سکھایا جائے۔قاضی شفیق نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف مل جاتا تو قصور میں فائرنگ کی پولیس میں جرأت نہیں ہوتی، طاہر القادری کی دعا ان ظالموں کیخلاف تھی جنہوں نے ظلم کی اندھیر نگری مچارکھی ہے۔رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قصور میں بچوں سے زیادتی کے کچھ واقعات میں مجرم گرفتار ہوئے ہیں، ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش کی سربراہی میں ایک ٹیم ان واقعات پر کام کررہی تھی، زینب زیادتی کیس کی تحقیقات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں، حکومت پوری کوشش کررہی ہے درندہ صفت انسان یا انسانوں کو گرفتار کرکے عبرتناک انجام سے دوچار کیا جائے، زینب قتل کیس میں ملزم کی گرفتاری پر بات کرنا قبل از وقت ہے، ویڈیو میں موجود شخص سے ملتے جلتے لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا ہے، ہماری کوشش ہے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج جلد از جلد آجائیں، ڈی این اے کے بغیر صرف تحقیقات کی بنیاد پر کسی کو ملزم قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ زیادتی کے واقعات سے متعلق غلط اعداد و شمار پیش کر کے اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، قصور میں تین سال میں ایسے بارہ واقعات ہوئے، کچھ معاملات میں ملزم گرفتار ہوئے جبکہ کچھ کیسوں میں ملزمان پولیس مقابلہ میں جہنم واصل بھی ہوئے جنہیں متاثرہ فریق نے بھی شناخت کیا،قصور میں مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کو302کا مقدمہ درج کر کے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات کو سیاست کیلئے استعمال کیا جائے گا تو معاملات ختم نہیں ہوسکتے، جسٹس نجفی رپورٹ سے مقاصد پورے نہیں ہوئے تو طاہر القادری تحریک چلانے نکل پڑے،طاہر القادری کل قصور جنازہ پڑھانے نہیں گئے تھے، جنازے کے بعد طاہر القادری نے جو دعا کی کیا ایسی دعاکی جاتی ہے، اصل نماز جنازہ وہی تھی جس کی اجازت زینب کے والد نے دی، طاہر القادری کا قصور جانے کا مقصد لوگوں کو بھڑکانا تھا۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ثابت ہوجائے ماڈل ٹاؤن میں بیریئر ہائیکورٹ کے حکم سے لگے تھے تو اپوزیشن کی بات ماننے کو تیار ہوں، وزیراعلیٰ پنجاب نے جسے ڈس انگیجمنٹ کا کہا وہ یہ بات تسلیم کرتا ہے، باقر نجفی رپورٹ میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد کی گئی تو عدالت فیصلہ کرے گی، شہباز شریف نے قصور جانے کا وقت زینب کے گھر والوں کی اجازت سے طے کیا، عمران خان کا جو کردار ہے اب وہ کسی کے خلاف بات کرنے کے قابل نہیں رہے، اسکولوں کے نصاب میں بچوں کو آگاہی دینے کیلئے اسباق شامل ہونے چاہئیں۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پینے کے گندے پانی کی فراہمی پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہئے ، سپریم کورٹ کو اس معاملہ پر اتھارٹی لینے کے بجائے مانیٹرنگ کا کام کرنا چاہئے، پنجاب میں ایک دو سال کے اندر پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ زینب کے معاملہ پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہئے، پیپلز پارٹی ایسے معاملات میں سیاست پر یقین نہیں رکھتی ہے، قصور میں پچھلے تین سال میں زیادتی کے سات سو واقعات ہوئے ہیں، زینب کا قتل دو کلومیٹر کے دائرے میں ہونے والا بارہواں کیس ہے، حکومت اور مقامی انتظامیہ کیلئے ان واقعات کے ملزمان کو پکڑنا چیلنج تھا۔مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پیپلز پارٹی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر شروع سے طاہرا لقادری کے ساتھ ہے، جسٹس نجفی رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ سیاسی ماسٹرز کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، حکومت کو علم تھا کہ منہاج القرآن پر بیریئر ز ہائیکورٹ کے حکم سے موجود تھے ،شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ دونوں استعفیٰ دیں، باقر نجفی رپورٹ کے بعد ان کے پاس مزید حکومت میں رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات تسلسل اور دیدہ دلیری سے ہورہے ہیں، رانا ثناء اللہ کے اعداد و شمار سے متفق نہیں ہوں، اعداد و شمار میں پھنسنے کے بجائے مسئلہ پر جانا چاہئے، پنجاب پولیس باصلاحیت نہیں اسی لئے زینب کے والد کو آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرنی پڑی، قصور پولیس نے پتھراؤ کرنے والے لوگوں پر سیدھے فائر کر کے تین افراد کو قتل کیا، پولیس افسران اور فیصلہ ساز حلقوں کو کیا علم نہیں کہ مجمع کو منتشر کرنے کیلئے واٹرکینن اور لاٹھی چارج کا استعمال موثر ہوتا ہے، قصور میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرائی گئی۔ طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ طاہر القادری کو زینب کے والدین کی غیرموجودگی میں نمازجنازہ پڑھانے کا حق نہیں تھا، نماز جنازہ کے بعد طاہر القادری نے دعا کے بجائے سیاسی تقریر کی، زینب کی نماز جنازہ والدین کی مرضی سے ہوئی تو آدھی رات کو دوسری نماز جنازہ کیوں کروائی گئی، شہباز شریف کو رات ساڑھے چار بجے زینب کے گھر نہیں جانا چاہئے تھا، بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں اپنا تحفظ کرنا سکھایا جائے، ہمیں فضل الرحمن اور سراج الحق جیسے لوگو ں سے ڈرنا نہیں ہے۔قاضی شفیق نے کہا کہ پولیس کے مطابق قصور میں زیادتی کے چھ واقعات میں ایک ہی ڈی این اے آرہا ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن سے پولیس کو شہ مل گئی ہے کہ کتنے ہی لوگوں کو گولیوں سے بھون دو حکومت ان کی پشت پر کھڑی ہے، ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود ماڈل ٹاؤن واقعہ پر کچھ نہیں ہوا، پنجاب حکومت نے اپنی مرضی کی جے آئی ٹیز سے سب کو پاک صاف ثابت کرنے کی کوشش کی، جب تک وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرقانون استعفیٰ نہیں دیتے عدالتیں کس طرح فیصلہ کریں گی، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف مل جاتا تو قصور میں سیدھی فائرنگ کرنے کی پولیس میں جرأت نہیں ہوتی، اس سے افسوسناک بات کیا ہوگی کہ لوگ زینب کیلئے انصاف لینے نکلے تو دو گھر مزید اجڑگئے، اس مینجمنٹ پر رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف کوا کیس توپوں کی سلامی پیش کی جائے۔قاضی شفیق کا کہنا تھا کہ زینب کی نماز جنازہ کا فیصلہ اس کی فیملی نے کیا تھا، وہ منہاج القرآن کے عہدیدار ہیں، وہ ہمارے کارکن تھے اس لئے طاہر القادری وہاں نماز جنازہ پڑھانے گئے، طاہر القادری کی دعا ان ظالموں کیخلاف تھی جنہوں نے ظلم کی اندھیر نگری مچارکھی ہے۔