• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ قصور،قوم کی بے چینی و اضطراب عبرتناک سزا پر ہی ختم ہوگا

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے مارننگ شو’’جیو پاکستان‘‘ میں کہا گیا کہ سانحہ قصور پرعوام کی بے چینی و اضطراب ملزمان کوعبرتناک سزا ملنے پر ہی ختم ہوگا۔ڈکیتی ، ریپ ، قتل بڑھیں تو معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا اورقومیں و حکومتیں پریشان رہتی ہیں۔ان خیالات کا اظہارامتیاز عالم ،امین حفیظ ،رئیس انصاری ،احسن خان اورارشد جاوید نے گفتگو کرتے ہوئے کیا،معروف شاعر وادیب ابن انشا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جبکہ معروف ہدایت کار نذر الاسلام کو بھی ٹریبیوٹ پیش کیا گیا ۔سانحہ قصور نے پاکستان بھر کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، واقعہ اتنا بڑا اور لرزہ خیز ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ، جگہ جگہ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ، ایک سال میں ایک ہی شہر میں 12 واقعات اور ہم سب سمیت اب ہوش آرہا ہے ، اگر پہلے واقعہ پر ہی ہم سب سمیت عوام اسی طرح یکجا ہوکر احتجاج کرتے تو شاید اس طرح کے مزید 11 واقعات کی نوبت نہ آتی یہ کہنا تھا جیو نیوز کے مارننگ شو ’’جیو پاکستان ‘‘ کے آغاز میں دونوں میزبانوں عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ کا، ننھی زینب کے قتل نے سب کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے ،آرمی چیف نے جہاں اپنے اداروں کو تعاون کا کہا ہے وہیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بھی واقعہ کا سوموٹو نوٹس لیا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ملزمان کب قانون کی گرفت میں آتے اور عبرتناک سزا پاتے ہیں کیونکہ عوام کی بے چینی اور بڑھتا ہوا اضطراب ان کی عبرتناک سزا پر ہی ختم ہوگا ۔ عوام کے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دو بے قصور مظاہرین کی موت بھی افسوسناک ہے کیونکہ ان کا قصور کچھ نہیں تھا یہ تو ننھی زینب کے قاتلوں کی گرفتاری اور زینب کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لئے آواز بلند کررہے تھے اور وہاں پر پولیس نے جو رویہ اختیار کیا وہ بھی عوام کے سامنے ہے ، جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پولیس کو وہ پوزیشن وہ اختیار کیوں حاصل نہیں جو دیگر لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کو ہے تو عوام نے خود دیکھ لیا کہ اس کی کیا وجوہات ہیں ۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا واقعہ ابھی تازہ ہے ، پولیس کا کردار بھی اس میں سب کے سامنے ہے اس کے باوجود پولیس نے یہاں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جو کیا اس پر بھی انصاف ہونا ضروری ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام پر فائرنگ کا آرڈر کون کرتا ہے اور کیا پولیس ٹریننگ میں یہ شامل نہیں کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو کیا کردار ادا کرنا ہے ۔پروگرام میں قصور میں زینب کے ساتھ زیادتی اور بعد ازاں سفاکانہ انداز میں قتل پر مزید بات کرتے ہوئے زینب کے چچا کے گھر پر موجود نمائندہ جیو نیوز امین حفیظ نے بتایا کہ زینب کے چچا زاد بھائی 7سالہ عثمان جو زینب کے ساتھ ہی سپارہ پڑھنے جاتا تھا اس نے بتایا ہے کہ زینب اس سے پہلے او روہ اس کے پیچھے خالہ کے گھر سپارہ پڑھنے جانے کے لئے نکلے ، میں سپارہ پڑھنے پہنچ گیا لیکن زینب نہیں پہنچی ، ناں ہی میں نے زینب کو کسی کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا ۔ زینب کے چچامدثر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی وہ وڈیو دیکھی ہے ، سب کہہ رہے ہیں کہ زینب اس کی انگلی پکڑ کر گئی ہے ایسا نہیں ہے آپ وڈیو غور سے دیکھیں زینب نے اس کی انگلی نہیں پکڑی بلکہ اس شخص نے زینب کا بازو پکڑا ہوا ہے لیکن ہماری پہچان میں وہ شخص آنہیں رہا ہے ۔ بعدازاں پروگرام کے میزبان ہما امیر شاہ اور عبداللہ سلطان نے زینب کے حوالے سے اس کے 7 سالہ چچا زاد بھائی سے کی گئی گفتگو دکھانے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ارادہ صرف اس وڈیو کے حوالے سے ان کے چچا سے بات کرنے کا تھا عثمان سے گفتگو پروگرام کا حصہ نہیں تھی جو ہم نے دکھابھی دی لیکن ہمیں لگا کہ یہ گفتگو نہیں ہونی چاہئے تھی اس کے لئے جن جن لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے اس کے لئے تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں ۔ اس موقع پر پروگرام میں شریک فلم چھپن چھپائی کے ہیرو اور اداکار احسن خان ، بیورو چیف جیو نیوز لاہور رئیس انصاری نے بھی گفتگو کی ۔احسن خان کا کہنا تھا کہ وڈیو سے باآسانی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی جاننے والا ہے جس کو بچی کو زبردستی لے جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے اور ان علاقوں میں شناسائی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخص شناخت میں نہ آسکے ۔ انہوں نے کہا کہ اب بہت ہوچکا ہم نہیں چاہیں گے کہ کوئی اور زینب اس زیادتی کاشکار ہو ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم ڈرامے بھی بناتے ہیں فلمیں بھی بناتے ہیں لیکن افسوس ہمیں ان کو دکھانے سے روک دیا جاتا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ آپ معاشرے کا منفی امیج آگے بڑھارہے ہیں ۔ جبکہ اگر ہم حقیقت نہیں دکھائیں گے تو حقیقت پر قابو کیسے پائیں گے ۔رئیس انصاری بیورو چیف جیو نیوز لاہور کا کہنا تھا کوئی بھی معاشرہ جس میں ڈکیتی ، ریپ اور قتل بڑھ جائیں وہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ قومیں اور حکومتیں پریشانی میں چلی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قصور وار تو پولیس ہے اس شہر میں 12 واقعات ہوگئے ، آر پی او پریس کانفرنس کررہے ہیں کہ کچھ دیر میں پکڑلیں گے ، 11 واقعات کے ملزمان کو سزا نہیں ملی یہ اس ملزم کو بھی پکڑنے میں ناکام ہیں ۔ 25 سال سے سن رہے ہیں پولیس کا کلچر تبدیل کردیں گے کب کریں گے یہ کسی کو معلوم نہیں ۔ جس دن سے یہ سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہے اگر اس پر اسی دن سے کام کیا جاتا تو اب تک ملزم مل گیا ہوتا ، ڈی آئی جی صاحب کو تو عہدہ چھوڑ کر چلے جانا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی واقعہ ہوجائے تو نچلے سطح کے افسران کو تو سزا ہوجاتی ہے لیکن جو سی ایس ایس افسران ہوتے ہیں ان کو آج تک سزا نہیں ہوئی ہے ، سری لنکن ٹیم پر حملے کے وقت اس علاقے کا ایس ایس پی اپنے گھر میں آرام فرما تھے لیکن اس کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔
تازہ ترین