ننھی زینب کا خیال آتا ہے تو بزم حیات کے جام لبوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور جیسے پےدرپے دل کے تار ٹوٹ جاتے ہیں۔کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ہمت التجاہے نہ ضبط کا حوصلہ۔ المیے کا احساس ایسا شدید اور جان لیوا ہے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ایسی کیفیت پر ہی شاعر نے کہا تھا کہ
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
جو کچھ قصور میں ہوا انسانیت کی نگاہیں جھکانے کے لئے کافی ہے۔مگر یہ پہلا واقعہ نہیں تھا،بلکہ قصور کا ماضی ایسے غیر انسانی واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ننھی زینب کے واقعہ نے میری یادداشت کو تیرہ سال پیچھے جانے پر مجبور کردیا۔مجھے یاد ہے کہ جب 2005میں ملکی تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا تھاتو مجھے ایبٹ آباد اور مظفر آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ایسے ہولناک مناظر ان آنکھوں نے دیکھے کہ روح کانپ اٹھی۔شہر کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے۔اسی دوران ایک70سالہ بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ایبٹ آباد کے رہائشی حاجی اسلم نے جہاں زلزلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ،وہیں چند چشم کشا حقائق بھی بتائے۔حاجی اسلم کا کہنا تھا کہ یہ ہنستا بستا شہر اس لئے تباہ ہوا ہے کہ یہاں پر برائی اپنی بلندیوں کا چھو رہی تھی۔زنا اور بدکاری کا یہ عالم تھا کہ لوگ بغیر وضو اور پاکیزگی کا خیال کئے مسجدوں میں چلے جاتے تھے۔یہ تکلیف دہ حقائق ان کانوں نے خود سنے ہیں۔آج سانحہ قصور سامنے آتا ہے تو ایبٹ آباد کا زلزلہ یاد آجاتا ہے۔زینب چار دن تک درندوں کے پاس رہی ،قصور پولیس کچھ نہیں کرسکی۔متعلقہ پولیس اسٹیشن میں شکایت کے باوجود جس تیزی سے تحقیقات ہونی چاہئے تھی،وہ نہیں ہوسکی۔یہ سب زینب کے اہلخانہ اور اہالیان قصور کا موقف ہے۔لیکن آج چند تلخ سوالات قارئین سے کرنا چاہتا ہوں۔
زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا،انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہے۔زینب ہم سب کی بیٹی تھی۔آج امین صاحب کی بیٹی کے ساتھ ہوا ہے کل کسی اور کی بیٹی نشانے پر ہوسکتی ہے۔چار دن تک پولیس کی سستی سمجھ میں آتی ہے لیکن آج تین دن سے پورے صوبے کی پولیس ،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیز اس درندے کو تلاش کررہی ہیں مگر پتہ نہیں چل سکا۔اس کا مطلب ہے کہ وہ درندہ کوئی اپنا ہے۔جس کا اس علاقے سے گہرا تعلق ہے۔اگر کوئی شخص باہر سے آیا ہوتا تو اب تک گرفتار ہوچکا ہوتا۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ صرف حکومت اور انتظامیہ کو قصور وار ٹھہرا دیا جائے۔ایک ہی نوعیت کے درجنوں واقعات اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ اہالیان قصور کو اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔زینب کے قاتل کو نشان عبرت بنانا چاہئے مگر توڑ پھوڑ کیوں کی جارہی ہے؟ کیا لاہور یا پنجاب کے کسی دوسرے حصے سے آکر کسی شخص نے یہ زیادتی کی ،جس پر احتجاج کرکے سرکاری املاک،اسپتالوں اور مختلف شاہراہوں کو جلایا جارہا ہے۔ہر گز ایسا نہیں ہے۔ایک ہی محلے کی چار معصوم بیٹیاں،اسی علاقے کی گیارہ سے زائد بچیاںدرندوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔پولیس کی سستی اپنی جگہ مگر آج میرا اہالیان قصور سے سوال ہے کہ انہوں نے اب تک کیا کیا ہے؟ کیا پچھلے چند سالوں کے دوران اپنی صفوں سے ایسے ناسور افراد کو قانون کے حوالے کیا گیا ۔کیا قصور کے معزز افراد نے محلے اور یونین کونسلز کی سطح پر ایسے افراد کی نشاندہی کے لئے اقدامات کئے ہیں۔میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ قصور کے جتنے لوگ زینب بیٹی کے بہیمانہ قتل اور زیادتی کے بعد نکلے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی یہ طے کرلیں کہ انہوں نے اس گروہ کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنی ہے تو خدا کی قسم پھر ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔پولیس کی غفلت کا دفاع نہیں کرنا چاہتا مگر بحیثیت قوم ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔اسی پر شاعر نے کہا ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
آج ہمیں خود اپنی صفوں کو بہتر کرنا ہوگا۔یہ نہ ہو کہ ننھی زینب کی آہیں عذاب الہٰی کو دستک دے رہی ہوں۔ہمیں قوم لوط سے سبق سیکھنا چاہئےاوراپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ہر معاملے میں شہباز شریف کو قصور وار ٹھہرادیا جاتا ہے۔شہباز شریف کے خلاف جب کچھ نہیں ملتا تو اسی پر تنقید شروع کردی جاتی ہے کہ وہ ننھی زینب کے واقعہ کے بعد رات بھر سوئے کیوں نہیں؟ اگر وزیراعلیٰ پنجاب زینب کے گھر نہ جاتے تو تنقید ہوتی کہ تمام سیاسی لیڈر قصور گئے مگر صوبے کا چیف ایگزیکٹونہیں گیا۔ اب اگر وزیراعلیٰ پنجاب قصور چلے گئے تو تنقید ہورہی ہے کہ صبح صبح کیوں چلے گئے۔سانحہ قصور بہت دلخراش واقعہ ہے۔جتنے بھی اقدامات کرلیں ننھی زینب واپس نہیں آسکتی مگر ہم سب مل کر مستقبل میں ایسے واقعات ضرور روک سکتے ہیں۔قصور جیسے واقعات کسی بھی حکومت کے لئے چیلنج ہوتے ہیں۔مگر واقعہ قصور کا علم اٹھا کر سیاسی مخالفین کوے کو سفید نہیں کرسکتے۔پنجاب میں تبدیلی آئی ہے اور پنجاب کا موازنہ ملک کے دوسرے کسی صوبے سے کرنا بیوقوفی ہے۔شہباز شریف کے بہت سے اقدامات پر تنقید بھی کرتا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگ شہباز شریف پر اعتماد کرتے ہیں۔اگر ننھی زینب کو لے کر جانے والے ناسور کو سی سی ٹی وی کیمروں نے محفوظ کیا تو یہ کیمرے بھی اسی شہباز شریف کے دور میں لگے ہیں۔معیار میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے،سیف سٹی کا دائرہ کار قصور تک بڑھانے سے یہ کمی بھی دور ہوجائے گی۔ الزام لگانا سب سے آسان کام ہے،کچھ دوست اپنے ذاتی مفادات کی تسکین کے لئے ایسے ایسے الزامات لگادیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ہم سب پر الزام لگائے جاتے ہیں،اسی پر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ "اے ایمان والو!اگر کوئی شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے اس کی خوب تحقیق کرلیا کرو،یہ نہ ہو تم انجانے میں کسی مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچا بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے"۔کسی بھی الزام کی ہمیں پوری تحقیق کرکے پھر رائے قائم کرنی چاہئے۔ من حیث القوم ہمارے رویوں میں منفی پن اور منافقت اس حد تک سرایت اختیار کرگئی ہے کہ اب تو منافقت میں بھی ملاوٹ محسوس ہوتی ہے۔سانحہ قصور شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان ہے مگر ایک المناک سانحے کو جواز بنا کر پورے دس سال کی اچھی کارکردگی پر پانی نہیں پھیر سکتے۔ہر معاملے میں شہباز شریف کو قصور وار ٹھہرانے والے جان لیں کہ جب بھی کینیڈین پلٹ علامہ اور دیگر سیاسی مخالفین ایک ہی ایجنڈے پر وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف متحد ہوتے ہیں تو عوام پر سب واضح ہوجاتا ہے۔ شہبازشریف واقعی قصور وار ہے اور اس کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اداروں کا احترام کرتا ہے اور نامساعد حالات کے باوجود عدلیہ اور فوج کے حوالے سے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔مگر تنقیداور الزامات کے جو بھی پیمانے مقرر کرلیں، شہباز شریف کے بغیر پاکستان کی سیاست مکمل نہیں ہوسکتی۔