• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان اور طاہر القادری میں موجودہ تعاون کی شکل واضح نہیں

اسلام آباد (طارق بٹ)تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرا لقادری شریف برادران کے خلاف لاہور کے احتجاج میں تین سال بعد پھر سے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوں گے۔ ان کے موجودہ باہمی تعاون کی شکل واضح نہیں ہے لیکن ایک بات جو واضح ہے وہ یہ کہ دونوں رہنماایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں جو 2014 سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو۔ ماضی میں اور حتیٰ کہ دھرنوں کے دوران عمران خان اور طاہرا لقادری کے درمیان تعاون کی کیفیت کبھی گرم کبھی سرد رہی، کیونکہ ان میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو بڑا کھلاڑی گردانتے ہوئے ایجی ٹیشن کا مکمل کریڈٹ خود لینے کا خواہاں رہا۔ گوکہ موجودہ دھرنے کا مقصد بھی شریف برادران کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس سے قبل تو وہ باور کراتے رہے کہ ان کی حکومت کے خلاف جدوجہد کسی کے اشاروں پر نہیں بلکہ اپنی ہے لیکن اب یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ وہ دیئے گئے اسکرپٹ پر عمل پیرا ہیں۔ اس بار ’’مرکزی شو‘‘ کے میزبان طاہرا لقادری اور عمران خان شریک کار ہیں۔ اب جو بھی نام ہوگا یا بدنامی عوامی تحریک کے سربراہ ہی کے حصے میں جائے گی۔ دھرنے کی ناکامی پر عمران خان یہ کہہ کر بچ سکتے ہیں کہ یہ ان کا ’’شو‘‘ نہیں تھا۔ تین سال قبل اسلام آباد کے دھرنے میں بالآخر اس کا انجام عمران خان اور طاہرا لقادری دونوں کے لئے تباہ کن رہا۔ عوامی تحریک نے مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر حوصلہ ہاردیا۔ فنڈز کی قلت نے اسے تحریک انصاف سے پہلے ہی ڈی چوک سے فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ آخر کار عوامی تحریک نے رخصت اختیار کرلی تو تحریک انصاف کے لئے بھی ڈی چوک خالی کردینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ وہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے پیش نظر اپنا26روزہ احتجاج ختم کرنے پر پہلے ہی سے غور کررہے تھے۔ 2014میں عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے احتجاج کو کچھ وقت کے لئے چھپائے رکھا۔ اس بار بھی ممکن ہے وہ اپنے حقیقی منصوبے کو خفیہ رکھیں۔ موجودہ اور گزشتہ دھرنے میں ایک نمایاں عدم مطابقت یہ ہے کہ اب پاکستان پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری علامہ قادری کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
تازہ ترین