• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفر زیارت بیت المقدس تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ

(ساتویں قسط)
اقصی کے پڑوس میں دائمی آرام فرمانے والے
ہم مسجد اقصیٰ کے باب اسباط سے نکلتے ہوئے دائیں جانب مڑے توقبرستان کے گیٹ پر نظر پڑی۔ گیٹ کے دونوں طرف کافی تعداد میں یہاں دفن ہونے لوگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔زیادہ تر نوجوان شہداء کے اسماء گرامی ہیں ۔جو غالباًاسرائیلیوں کے ساتھ کسی نہ کسی جھڑپ میں اللہ کی راہ کے مسافر بن گئے تھے ۔ہم نہایت ادب کیساتھ دعاء پڑھتے ہوئے ا س قبرستان میں داخل ہوئے۔ اس قبرستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، علماء و صلحاء کے علاوہ آزادی فلسطین کے نوجوان مجاہدین سمیت ان گنت سعید روحیں آرام فرما رہی ہیں ۔ یہ سعید روحیں اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ انہیں سرزمین انبیاء اور قبلہ اول مسجد اقصی کا پڑوس نصیب ہوا ۔بائیں طرف سنہری گیٹ ہے جو بند ہے۔روایات کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام دجال کو قتل کرنے کے بعد اس دروازے سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوں گے ۔ اس مناسبت سے کئی مسیح پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ جیسے ہندوستان میں بھی مسیح موعود ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا ۔ اس لیے اس گیٹ کو مستقل بند کرنا ہی مناسب سمجھا گیا ۔اس گیٹ کے قریب تیرکانشان بتارہاہے کہ یہاں میرے نبی ؐکے جانثار محو استراحت ہیں یعنی معروف صحابی حضرت عبادہ بن قیس ؓ جو ہجرت سے قبل مدینہ سے مکہ آ کر نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں سے تھے ، اور بدری صحابی حضرت عبادہ بن الصامت ؓ، حضرت اوس بن شداد ، ؓ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے علاوہ تقریباً 80 صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اس قبرستان میں محو استراحت ہیں جامع عکاشہ میں حضرت عکاشہ بن محسن ، جبل زیتون پر حضرت رابعہ بصری اور دوسرے سرے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ حضرت راحیل کی قبر بتائی جاتی ہے ۔ان میں سے بعض کی قبریں پختہ ہیں ۔ان کے علاوہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کتنی اہم شخصیات یہاں مدفون ہیں ۔بعض قبور پر نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کی نشاندھی ہوجاتی ہیں ۔قدس کا ایک بڑا قبرستان ’’ماملا ‘‘ میں ہے ۔ یہاںدور فاروقی میں معرکہ یروشلم کے شہداء سے لے کر پچھلی صدی کے اوائل تک تدفین ہوتی رہی ۔ بیت المقدس کی مغربی دیوار کے قریب ہندوستان کے بڑے جید حریت رہنما مولانا محمد علی جوہر مرحوم اور اردن کے حسینی خاندان کے کئی افراد محو استراحت ہیں ۔مصراور دیگرعربی ممالک کے کافی لوگوں کی قبریں بھی اس حصے میں نظرآئیں۔اکثر قبور پرمرحومین کے نام ،تاریخ وفات اور ملک کا نام لکھاہواتھا ۔اورفاتحہ پڑھنے کی درخواست کی گئی ۔ ویسے مناسب تو یہ ہے کہ فاتحہ پڑھنے کی بجائے دعائے مغفرت کی درخواست کی جانی چا ہیئے ۔ ہم نے مسلم قبرستان کے تمام مدفونین کے لیے دعائے مغفرت کی کہ اللہ سب مرحومین کو بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے ان سب کوجنت الفردوس کااعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
اس علاقے میں ایک لاکھ چوالیس ہزار انبیاء کرام مبعوث ہوئے ان میں سے بیشتر کی قبور اسی ایریا میں ہوں گی حضرت داؤد ، حضرت زکریا، حضرت مریم علیھم السلام کی قبور کی نشاندھی تو کی جاتی ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی زوجہ حضرت سارہ، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت یعقوب ان کی ایک اہلیہ کی قبر الخلیل میں ہے ، اور حضرت یوسف کی والدہ حضرت راحیل کی قبر جبل زیتون کے قریبی قبرستان میں ہے سعودی علماء نے جنت البقیع کی سب پختہ قبریں کچی بنانے کا فتویٰ تو دے دیا لیکن ان کے اوپر مدفون ہستیوں کے نام تک نہیں لکھنے دیے ۔جس کی وجہ سے ان بے شمار پاک باز ہستیوں کے نام معلوم نہیںہوسکتے جو جنت البقیع یا مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ میں محو استراحت ہیں کہاں سے وہ لوگ ڈھونڈے جائیں جو ان سے نام بنام واقف ہوں اور وہ ہر زائر کو بتا سکیں۔ اب تولگتاہے کہ معدودے چنداصحاب وہاں مدفون ہیں حالانکہ کم و بیش دس ہزار اصحاب نبی ، اصحاب جنت … جنت البقیع میں دفن ہیں( رحمہم اللہ علیہم اجمعین) علمائے سعودیہ نے اجتہاد کرنے کی بجائے صرف ایک نقطہ نظر سے فتویٰ جاری فرما دیا جسے بعض لوگ وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں اور بعض افراط و تفریط کے ضمن میں سمجھتے ہیں۔اس قبرستان کے بائیں جانب جبل زیتون نظر آرہا ہے جہاں سے یہودیوں کی قبریں بھی نظر آرہی تھیں اور بالکل نیچے عیسائیوں کا قبرستان ہے ہم نے رفقاء سفرکو یہودی اور عیسائی قبرستان دکھائے جس کے بعد ہم قبرستان سے باہر نکل آئے ۔
حضرت مریم صلوات اللہ علیہاکی قبر
مسلم قبرستان کے نشیبی حصہ میں ایک چرچ ہے، جسے کنیسہ مریم عذرا کا نام دیا گیا ہے ۔کنیسۃ مریم عذرا باب اسباط سے کنیسۃ القیامۃ تک چودہ مقامات ہیں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو بقول عیسائیوں کے صلیب اٹھوا کر چلایا گیا تھا لیکن اسلام کے مطابق حضرت عیسیٰ کو کوئی گزند نہیں پہنچائی جاسکی ۔ حق تعالیٰ نے اس سازش کے موقع پر کسی اور پر مشابہت ڈال کر حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا تھا۔ (سورہ المائدہ آیت نمبر157.158)شاید یہاں بھی ان کے ہم شکل کو چلایاگیا ہوگا۔مشہور ہے کہ اس چرچ میں حضرت مریم اور ان کے والدین کی قبریں ہیں، ہم وہاں داخل ہوئے سیڑھیوں کے ذریعے کا فی نیچے اترنا پڑتا ہے ۔ کافی نیچے ہونے کی وجہ سے اندھیرا اورموم بتیوں کے مسلسل جلنے سے وہاں گھٹن کا ماحول بنا ہوتاہے ، کہاں اسلام کی مساجد پاک و طاہر اور سادگی وپرکاری اور عبادت گاہ کا تقدس اورجلال و جمال کے محسوس و غیر محسوس مظاہر اور کہاں کلیساؤں کی نور و روحانیت سے محروم ڈپلومیٹ عمارتیں ۔ پھر بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے وہاں دائیں طرف ایک چھوٹے سے کیبن میںحضرت مریم کی قبر بتائی جاتی ہے، جہاں بیک وقت دو یا تین آدمی داخل ہوسکتے ہیں ، یہ قبرجودودھ جیسے سفیدپتھرمیں گڑی ہوئی ایک ناہموار ٹیلے کی شکل میں موجودہے۔ جس کے اوپر مضبوط شیشے کابکس ہے، ہم سب ایک ایک کرکے وہاں داخل ہوئے سیدہ مریم صلوات اللہ وسلامہ علیہا کی روح مبارکہ کیلئے سلام پڑھا اور جلدی جلدی باہر نکل آئے کیونکہ وہاں کھڑا ہونا کافی مشکل نظر آیا ایک تو جگہ تنگ اور دوسرے ماحول بڑا گھٹن والا۔اگریہ قبور حقیقی ہوتیں تو وہاںروحانی سکون ہوتا لگتاہے۔ بس روایات ہی ہیں جو نسل درنسل چلی آرہی ہیں حقیقت کا علم اللہ ہی بہتر جانتاہے۔اسی چرچ میں کچھ اورتاریخی چیزیں بھی موجود تھیں مگر ماحول کی تنگی اور ریسپشن پر بیٹھی ہوئی خاتون کا کرخت رویہ…میں اس سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتاتھا لیکن وہ شاید بیچاری تھکی ہوئی تھی ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیااورہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئے ۔چرچ کی عمارت کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغ ہے، جہاں زیتون کے بے شمار درخت ہیں۔ کہاجاتاہے کہ ان میں سے بعض کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں ۔باہرنکلے تو واپسی والی چڑھائی بہت زیادہ نظر آئی ویسے بھی پچھلے دو گھنٹے سے ہم مسلسل چل پھر رہے تھے۔اس لیے ایک ٹیکسی رکوائی اور فلسطینی نوجوان کو ڈائریکشن سمجھائی ، اس نے تیس شیکل مانگے ۔ ہم بیٹھ گئے اس نے فون پر جگہ کاپتہ کیا۔اسے بتایاگیاکہ المسعودی محلہ میں ہے، تو بھاؤ تاؤ کرنے لگا میں نے کہا۔ یا اخی جتنے مانگوگے دیں گے۔ ہم تو ویسے بھی اپنے فلسطینی بھائیوں سے محبت کرتے ہیں بہرحال پانچ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ عصر تک آرام کیا اور پھرحسب معمول مغرب و عشاء کی نمازکیلئے دوبارہ مسجد اقصیٰ روانہ ہوگئے ۔ (جاری ہے).

تازہ ترین