جلسے اور جلوسوں کے لئے مخصوص فیصل آباد شہر کے ’’دھوبی گھاٹ گرائونڈ‘‘ کو وہی حیثیت حاصل ہے جو تحریک پاکستان کے زمانے میں لاہور کے موچی گیٹ کی تھی۔جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ایک دِن اعلان ہوا کہ دھوبی گھاٹ گراونڈ میں ایک مجرم کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے گا ،مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل گرائونڈ میں پھانسی گھاٹ بنایا گیا، لوہے کی ٹکٹکی لگائی گئی، پھانسی کے لئے سہ پہر کا وقت مقرر تھا ،لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جمع ہو گیا، عین وقت مقررہ پر ڈسٹرکٹ جیل کی نیلے رنگ والی وین آئی، مجرم کو وین سے اتارکرپھانسی کے چبوترے پر لایا گیا ،یہ منظر دیکھ کر لوگوں پر سناٹا طاری تھا ،مجرم کو تختہ دار پر کھڑا کیا گیا، حکم ہوا اور جلاد نے لبلبہ دبا دیا ،تختے نیچے سے کھل گئے اور لاش پھانسی کے پھندے پر جھول گئی ،چند منٹ بعد ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور موت کی تصدیق کر دی، پھانسی لگنے والے مجرم کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک بچے کو اغوا کیا پھر بد فعلی کرنےکے بعد اسے قتل کر دیا ،اسی دورِ حکومت میں دوسرا واقعہ لاہور میں پیش آتا ہے ،1981 میںلاہور کے باغبانپورہ تھانہ کی حدود سے پپو نامی بچہ اغواہوتا ہے، کچھ دنوں بعد اُس کی لاش ریلوے کے تالاب سے ملتی ہے ،پپو کے قاتل گرفتار ہوتے ہیں، فوجی عدالت سے قاتلوں کے لئے پھانسی کا حکم جاری ہوتا ہے ،تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگائی جاتی ہے جہاں آجکل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے، پورا لاہور پھانسی دیکھنے اُمڈ آیا ،چاروں مجرمان سارا دن پھانسی کے پھندوں میں جھولتے رہے ،حکم تھا کہ لاشیں غروبِ آفتاب کے بعد اُتاری جائیں، فیصل آباد اور لاہور کی سر عام پھانسیوں کا یہ اثر ہوا کہ پھر کئی سال نہ تو کوئی بچہ اغوا ہوا اور نہ ہی کسی بچے کو قتل کیا گیا،پھر جمہوریت آگئی جس سے عصمتوں کے لٹیرے ،قاتل، اغواکار، بردہ فروش اور چور اچکوں کو چند بااثر لوگوں اور پولیس کی پناہ مل گئی ۔اُن مجرموں کوملنے والی پناہ کا نتیجہ آج ہم اپنے بچوں کے اغوا، اُن سے زیادتی اور انہیں قتل کئے جانے جیسی شکلوں میں بھگت رہے ہیں ،آج نہ تو سر عام ٹکٹکی ہے اور نہ ہی سزائوں پر فوری عمل درآمد ہوتا ہے ،ویسے تو پورے پاکستان میں جنسی اسکینڈلز، بچوں کے اغوا اور اُن سے زیادتی کے بعد قتل کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں لیکن قصور میں ہونے والے واقعہ نے ظلم و بربریت کی نئی داستاں رقم کر دی ہے ۔بابا بلھے شاہ کی نگری پر افسردگی کی چادر تن چکی ہے ،قصور شہر کی سات سالہ زینب قرآن پاک کی تعلیم لینے جاتی ہے تو کچھ دِن بعد اُس کی لاش ملتی ہے ،والدین عمرہ کی سعادت کے لئے گئے ہوئے ہیں، وہاں زینب کے بہترمستقبل اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے دعائیں کی جا رہی ہیں، اِس نتیجے سے بے خبر کہ اُس معصوم کی درندوں کے ہاتھوں نوچی جانے والی لاش پاکستان میں ان کی منتظر ہے ۔
کیا اِسے جمہوریت کہتے ہیں؟ کہ ڈھائی سوبچوں سے جنسی تشدد کی فلمیں بنیں اُس میں با اثر لوگ ملوث ہوں اور کسی کو کوئی سزا نہ ملے ،کیا یہی جمہوریت ہے کہ زینب سے پہلے قصور شہر کے گردو نواح میں 12نو عمر جنسی تشدد کا شکار ہو کر مارے جا چکے ہیں اور سب وارداتوں کے پیچھے جو ڈی این اے ٹیسٹ کا رزلٹ آیا ہے وہ ایک ہی درندے کا ہے ؟کیا جمہوریت اِس عمل کا درس دیتی ہے کہ زینب کی نوچی ہوئی لاش پر احتجاج کرنے والوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے ؟ جمہوریت اِس بات کی اجازت دیتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرز کا واقعہ دوبارہ سے دہرایا جائے ؟اِس جمہوری حکومت کے صوبائی وزیر قانون کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے بیان میں کہیں کہ ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں، میڈیا عوام کو مشتعل نہ کرے ،پولیس کی فائرنگ سے کوئی زخمی نہیں ہوا، تمام زخمی صرف میڈیا کو ہی کیوں نظر آ رہے ہیں ،افسوس کی بات ہے کہ پولیس کی فائرنگ سے مرنے والوں کے فوٹیج تک موجود ہیں اور حکومتی نمائندے ماننے کو تیار نہیں۔
ایک درندگی زینب کے ساتھ ہوئی اور دوسری درندگی اُن کے ساتھ ہوئی جو انصاف مانگنے آئے تھے، زینب کا قاتل گرفتار نہیں ہو رہا اور وزیر مملکت طلال چوہدری کہہ رہے ہیں دوسرے صوبوں میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں ،زینب کے واقعہ پر سیاسی دکانیں نہ چمکائی جائیں، ان وزراء کو اللہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، ایک دن ہم سب کو حساب دینا پڑے گا ،آج جو زینب کے ساتھ ہوا وہ کل کو کسی اورکے بچے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ،میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ جیلوں میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو سرعام پھانسیاں دیں، مختلف شہروں کے چوراہوں میں مجرمان کو لٹکایا جائے، ایران، سعودی عرب، یمن اور چائنا کی طرح فوری سزاؤں پر عمل درآمد کرایا جانا حکومت کی ذمہ داری ہے، کیا ہماری حکومت کو کسی دوسرے ملک سے پوچھ کر سزائیں دینا شروع کرنی ہے ؟زینب اور اُس جیسی جتنی بیٹیاں چلی گئیں وہ تو واپس نہیں آئیں گی لیکن سرعام پھانسیوں سے ہمارے بچے جو زندہ ہیں وہ آئندہ محفوظ ہو جائیں گے یہ وقت ہے کہ زینب اور اُس جیسی بیٹیوں پر ہونے والی ظلم و بربریت کی وارداتوں کی روک تھام کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان مل بیٹھیں اور خدارا ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں۔
مجھے شہر دیکھ کر اندازہ ہوا
درندے اب نہیں رہتے جنگلوں میں
میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسیاں نہ دینے میں کیا حکمت ہے ؟سوائے اِس کے کہ مجرمان کے پیچھے کسی نہ کسی بڑے آدمی یا سیاستدان کا ہاتھ ہے، صلح ،دیت کی آڑ اور عدالتوں میں فیصلوں کی تاخیر پھانسیوں پر عمل درآمد ہونے کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنی ہوئی ہے ۔اِس نظام کو کون بدلے گا ؟یہ وہ سوال ہے جو قصور کی رہنے والی بے قصور بیٹی زینب کی روح ہم سے پوچھ رہی ہے، وہ پوچھ رہی ہے کہ میرے قاتل کب گرفتار ہوں گے ؟کیا میرے قاتلوںکو لاہور اور دھوبی گھاٹ فیصل آباد کی طرح سر عام پھانسیاں دینے والا کوئی حکمران ہے یا ایسا جرات مندانہ فیصلہ صرف مارشل لا میں ہی ممکن ہے۔