• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیلانی کے اسلام آباد اور شہباز کے راولپنڈی میں لاقانونیت کی ایک جھلک

دو روز قبل مجھے میرے ایک عزیز حافظ صاحب گھر پر ملنے آئے۔ وہ کافی پریشان تھے۔ میرے استفسار پر کہنے لگے کہ راولپنڈی میں واقع 20 سال پرانے اُن کے گھر پر مسلم لیگ ن کے ایک مقامی رہنما کے بھائی کے حکم پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ تھانہ میں باقاعدہ شکایت کی اور پولیس کی مدد طلب کی مگر بارہا تھانہ کے چکر لگانے پر اُنہیں کہا گیا مولوی صاحب عدالت میں جاؤ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ نہ تو ایف آئی آر کٹی نہ ہی مبینہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ حافظ صاحب عدالت جانے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ عدالتوں اور کچہری کے چکر وں میں شاید ان کی تمام عمر گزر جائے مگر پھر بھی انصاف کی کوئی امید نہیں۔ پولیس اور عدالتی نظام سے مایوس حافظ صاحب نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ قبضہ کرنے والے سے بات کی جائے اور منّت سماجت سے اپنے مکان کا قبضہ واپس لیا جائے۔ جب انہوں نے قابضین سے رابطہ کیا تو اُن سے کہا گیا کہ مولوی صاحب عیدالاضحیٰ آنے کو ہے آپ براہ مہربانی قربانی کے تین بڑے جانور ہمارے حوالے کریں اور اپنے مکان کا قبضہ لے لیں۔ حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ وہ قربانی کے تین بڑے جانور خریدنے کیلئے تین لاکھ روپے کہاں سے لائیں۔ اپنی پریشانی میں حافظ صاحب اس نکتہ پر بات کرنا ہی بھول گئے کہ قربانی جیسے مذہبی فریضہ کو ادا کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ بہر حال حافظ صاحب کی درخواست پر میں نے متعلقہ مسلم لیگی رہنما سے رابطہ کیا جس پر اُس نے اپنے یا اپنے بھائی کی کسی بھی ایسے معاملہ سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کیا مگر مجھے یقین دلایا کہ وہ حافظ صاحب کا مسئلہ حل کرادیں گے۔ بعدازاں حافظ صاحب کو لیگی رہنما کے بھائی نے یقین دلایا کہ ان کا مسئلہ آج بروز پیر تک حل ہوجائے گا۔ اتفاق کی بات ہے کہ لندن سے آئے ہوئے میرے ایک دوست کو بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ چند روز قبل اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس کی بھارہ کہو اسلام آباد میں واقع زمین پر کوئی شخص ناجائز تعمیر کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس پر اُس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ قبضہ کی کوشش کرنے والوں کا علاقہ کے ایک ایسے گروہ سے تعلق ہے جس کا یہ معمول ہے کہ عام لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اصل مالکوں سے لاکھوں لے کراُن کی جان چھوڑی جاتی ہے۔ اس پر اُس نے بھارہ کہو پولیس اسٹیشن میں باقاعدہ ایک درخواست دی مگر عدالت سے حکم امتناعی لینے کے باوجود پولیس نے کوئی حتمی کارروائی کی اور نہ ہی ایف آئی آر کاٹی۔ حافظ صاحب کی طرح ان صاحب کو بھی آخری راستہ یہی نظر آیا کہ قبضہ کی کوشش کرنے والوں سے بات چیت کی جائے۔ بات چیت کرنے پر مطالبہ کیا گیا کہ 40 لاکھ مالیت کی زمین ہے صرف چار لاکھ دے دیں جان چھوڑ دی جائے گی۔ اس پر میرے دوست نے اعلٰی پولیس عہدیداران کو اس نا انصافی سے آگاہ کیا جس پر اسے یقین دلایا گیاکہ اُس کو انصاف دلایا جائے گا۔ اب ہونا کیا ہے میرے دوست کی اپنی قسمت مگریہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہاں کسی شریف شخص کا جان و مال محفوظ نہیں رہا۔ ابھی جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا، میری سابق بریگیڈیئر تاج عباسی صاحب سے بات ہوئی، جنہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے بیٹے اور کچھ دوسروں کی کئی کنال زمین واقع موریاں کُری اسلام آباد پر ایک بااثر شخص نے مبینہ قبضہ کرلیا ہے ۔ میں نے پوچھا آپ نے کیا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ محکمہ مال اس کارروائی میں قابضین کے ساتھ ہے۔ بریگیڈیر صاحب کا کہنا تھا کہ متاثرین کو پتہ ہے کہ نہ پولیس انصاف دے سکتی ہے نہ کوئی اور، اس لئے انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کو شکایت لکھ بھیجی تاکہ ان کی زمین کو واگزار کرایا جاسکے۔ بریگیڈیئر تاج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کو فوجی خدمات کی بنا پر ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ ستارہ جرأت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ وہی بریگیڈیئر تاج ہیں جنہیں جنرل مشرف کے زمانے میں اس وقت کے انتہائی طاقت ور ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی میجر جنرل نصرت نعیم کے احکامات پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے محض اس لئے زدوکوب کیا کیونکہ نصرت نعیم کے بیٹے اور بریگیڈیئر تاج کے پوتے کے درمیان کھیل کے میدان میں لڑائی ہوگئی تھی۔ مشرف کا منظور نظر ہونے کی بنا پر نصرت نعیم کے خلاف تو کوئی اقدام نہ کیا گیا مگر کچھ میجرز اور ایک کرنل کو آئی ایس آئی سے فارغ کردیا گیا۔ اُس وقت موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ڈی جی آئی ایس آئی تھے جو ذاتی طور پر نصرت نعیم سے خوش نہ تھے۔ اگرچہ وہ مشرف دور میں نصرت نعیم کے خلاف کچھ نہ کرسکے مگر جب خود آرمی چیف بنے تو نصرت نعیم کو ترقی نہ دی گئی جس پر مشرف کے لاڈلے کو فوج کو خیر باد کہنا پڑا۔ بہرحال اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاون کے ایک پبلک پارک پر کھلے عام قبضہ کیا گیا اور پورا ریاستی نظام بے بس نظر آتا ہے۔ اوپر بیان کئے گئے چند واقعات اس صورتحال کو واضح کرتے ہیں جس کا لاکھوں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کو سامنا ہے۔ یاد رہے کہ اگر اسلام آباد اور راولپنڈی میں کھلے عام لوگوں سے ان کا مال اور جائیدادیں چھینی جارہی ہوں تو باقی پاکستان کا کیا حال ہوگا۔ پاکستان کی حالت زار اس تیزی سے بگڑ رہی ہے کہ ایک دھڑکا لگا ہوا ہے کہ نہ جانے ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ جب اہل اقتدار سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبے ہوں اور اُن کو کوئی روکنے والا نہ ہو تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ جب عام نوسرباز‘ قبضہ مافیا اور لٹیرے دیکھتے ہیں کہ حکمران خودلوٹ مار میں مصروف ہیں اور کوئی حکومتی ادارہ ظالم اور لٹیروں کے ہاتھ روکنے میں دلچسپی نہیں لے رہا اور یہ کہ پولیس زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے جبکہ اعلٰی عدلیہ کے فیصلوں کی کھلے عام بے توقیری ہورہی ہے اور نچلی عدالتوں میں انصاف کو بیچا جاتا ہو تو ایسے میں مافیا راج قائم ہوجاتا ہے اور طاقت ور اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ ظالم کھلے عام ظلم کرتا ہے اور عام لوگ اور شریف شہری مظلومیت کی بدترین تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کو کچھ اس قسم کے حالات کا سامنا ہے کہ بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ظلم‘ نا انصافی اور زیادتی کی کہانیاں ہر دوسری زبان پر ہیں اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد یہاں بے بسی سے ظلم سہ رہے ہیں۔ ایک عام اخبار نویس کی حیثیت سے مجھے روزانہ درجنوں پاکستانیوں کے خطوط‘ ای میلز اور ٹیلی فون موصول ہوتے ہیں۔ ہر خط‘ ہر ای میل اور ہر فون کرنے والا ایک نئی زیاتی اور ایک نئے ظلم کی کہانی سنارہا ہوتا ہے لیکن نہ تو ہر معاملہ کو میڈیا اجاگر کر سکتا ہے اور نہ ہی اکیلے چیف جسٹس کے بس میں ہے کہ وہ ہر معاملہ کی دادرسی کریں۔ آئین پاکستان کے مطابق یہ حکومت اور اسٹیٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے جان و مال کو تحفظ دیا جائے مگر آج کے پاکستان میں کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال۔
تازہ ترین