صوبائی دارالحکومت لاہور سے متصل شہر قصور میں 7سالہ معصوم بچی زینب کا درندگی کے بعد بہیمانہ قتل اوربعدازاں پولیس کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں دو بے گناہ افراد کی موت کے افسوسناک واقعہ نے ہر دردمند پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے قصور سانحے کا فوری نوٹس لیا ہے پنجاب حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی بھی بنادی گئی۔ حکومت پنجاب کے ترجمان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزموں کا سراغ مل گیا ہے اور جلد انہیں پکڑ لیا جائے گا مگر وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کے مصداق کئی روز گزرنے کے باوجود ابھی تک اس المناک واقعہ کے ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ ابھی تک اس معاملے میں حکومت پنجاب کی جانب سے محض زبانی جمع خرچ کیا جا رہاہے۔ معصوم زینب کے اہل خانہ نے پولیس کو اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی فراہم کردی تھی لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے تادم تحریر اس معاملے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ زینب کے المناک واقعہ کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق قصور میں اس کے اہل خانہ سے تعزیت کے لئے پہنچے۔ ماضی میں قصور میں ہونے والے واقعہ میں بھی سب سے پہلے سینیٹر سراج الحق نے اپنی آواز بلند کی تھی۔ ان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال میں قصور میں معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے پے درپے واقعات ہوئے ہیں۔ انہوں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت ایسے واقعات پر پہلے ہی ایکشن لے لیتی تو ننھی زینب کے ساتھ ظلم وسفاکی کایہ اندوہناک واقعہ پیش نہ آتا۔ سینیٹر سراج الحق کے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری، جہانگیر ترین اور پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن بھی تعزیت کے لئے قصور گئے۔ بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لئے کئی ملکوں نے اقدامات کئے ہیں۔ بھارت میں 27کروڑ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہیں۔ ہندوستان بچوں کے اغوا اور جنسی استحصال میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ برطانیہ میں ہر بیس میں سے ایک بچہ اور امریکہ میں سالانہ 13لاکھ بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسی وارداتیں متواتر ہو رہی ہیں جبکہ حکومت پنجاب کا کردار محض اخباری بیانات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اگرملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ کر دیا جاتا تو آج ملک میں صورتحال مختلف ہوتی۔ مگر بد قسمتی سے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں آج بھی انگریزوں کا قانون رائج ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ جتنے بھی جنسی استحصال کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان میں پولیس کی بے حسی اور مجرمانہ کر دار کھل کر سامنے آیا ہے۔ اگر سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان کو عبرتناک کو سزادی جاتی تو شاید یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ سانحہ قصور میں بھی ملزمان کو اللہ اور اسکے رسولؐ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق عبرتناک سزا دیدی جائے تو کسی دوسرے کو ایسا ظلم کرنے کی آئندہ جرات نہیں ہو گی۔ معاشرتی اصلاح کے لئے پاکستان میں شرعی قوانین کا اطلاق ضروری ہو چکا ہے۔ قصور کے افسوسناک واقعہ کے خلاف چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینا بر وقت اور قابل تحسین اقدام ہے۔ قصور میں معصوم بچی کے ساتھ پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ2015میں بھی قصورمیں ایک بڑا اسکینڈل سامنے آچکا ہے۔ ایک سال میں ضلع قصور میں12سے زائد معصوم بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے جو کہ حکومت پنجاب کی گڈ گورنس کے دعوئوں پر سوالیہ نشان ہے؟ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی جانب سے نوٹس لینا اور ڈی پی او کو ہٹانا محض دکھاوے کے اقدامات ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ المناک واقعات پر ایسے ہی روایتی حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ طرفہ تماشایہ ہے کہ زینب کو قتل کرنے سے چار روز قبل اغوا کیا گیا اور پھراس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ پولیس آخر چار دن تک کیوں حرکت میں نہیں آئی اور بچی کو کیوں برآمد نہیں کیا گیا؟ زینب پاکستان کی معصوم اور بے گناہ بیٹی تھی۔ اس کے سفاکانہ قتل کو پورے پاکستان میں شدت سے محسوس کیا گیا۔ اس دردناک واقعہ سے ملک میں شدید تشویش اور خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ قصور کے المناک واقعہ کے بعد مردان میں بھی افسوس ناک واقعہ سامنے آچکا ہے۔ مردان میں بھی تین سالہ عاصمہ کو اغوا کرنے کے بعد بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اس واقعے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ تین سالہ عاصمہ کو قتل کرنے سے قبل جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قصور اور مردان میں پیش آنے والے دردناک واقعات نے مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف دونوں جماعتوں کو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف اور خیبرپختونخوا حکومت ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے کس قدر ذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھر روایتی بے حسی سے ہی کام لیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پنجاب بھر میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں200فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ پنجاب میں2017میں معصوم بچوں کے جنسی استحصال کے 769واقعات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں ساڑھے7برسوں میں22528 بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا جو کسی المیے سے کم نہیں۔ بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لئے کئی ملکوں میں سخت ترین اقدامات کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی سخت اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ قصور واقعہ میں جس طرح پولیس نے احتجاجی مظاہرین کو قابو کرنے کے لئے سیدھی فائرنگ کی اور دو افراد کو شہید کیا وہ بدترین عمل ہے اور پنجاب پولیس کے ماتھے پر سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد ایک اور کلنک کا ٹیکہ لگ گیا ہے۔ ماڈل ٹائون سانحہ میں بھی پولیس کی جانب سے ایسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کو بے دردی سے قتل کرنے کا لائسنس کس نے دیا ہے؟ سانحہ قصور میں اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا جائے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی استحصال کے مرتکب مجرموں کو عدالت کی جانب سے جرمانوں کے ساتھ ساتھ کم ازکم دوسال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزاسنائی جاسکتی ہے۔2016میں پاکستانی پارلیمنٹ نے بچوں پر ہونے والے جنسی حملوں اور ان کی اسمگلنگ کے خلاف قانون منظورکیا۔ اس قانون کے تحت بچوں کے ساتھ کیے جانے والے جرائم کی سزائوں کو سات برس سے بڑھاکر10سال تک کردیا گیا۔ حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے زینب سمیت دیگر معصوم بچوں کے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات میں ملوث مطلوب افراد کو جلدازجلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے کی عمر میں مختلف جگہوں پر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور ان مقامات پر ان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ حکومت ان بچوں پر خصوصی توجہ دے۔ حکومت پنجاب بچوں کو جنسی تعلیم کی تربیت دینے کی بجائے تعلیمی نصاب کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالے۔ مخلوط تعلیمی نظام کاخاتمہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں سانحہ قصور جیسے غیراخلاقی اور افسوسناک واقعات کا سدباب کیا جاسکے۔ قصہ مختصر! بچوں کی اسلامی تربیت کے لئے والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنا رول اداکرنا چاہئے۔ حکومت کو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اصلاح معاشرہ کی مہم چلانی چاہئے۔