پاکستان کو لوٹ مار کے عوام دشمن حکومتی و سیاسی نظام سے بچانے اور ملکی تعمیر و ترقی کے لئے جو تبدیلی آج شدت سے مطلوب ہے، عوام کی بیداری اس کی طرف پہلا قدم ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں مینار پاکستان پر واضح شہادت ملی کہ بے روزگاری، بدامنی، کرپشن، مہنگائی، اندھیروں اور دہرے قانونی نظام کے مارے ”بے حس“ عوام بالآخر بیدار ہو گئے۔ شہر اقبال میں عوامی بیداری کی سچی گواہی ملنے کا مطلب ہے کہ جلد ثابت ہونے کو ہے کہ ”خیبر سے کراچی تک، چترال سے لے کر گوادر تک اور واہگہ تا وانا 18 کروڑ پاکستانی قیدیوں میں جاری نظام بد (اسٹیٹس کو) سے آزادی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔“ یہ ہی بیداری ہے۔ مطلوب سماجی سیاسی تبدیلی کا نقطہ آغاز ۔ مینار پاکستان کے سائے میں تحریک انصاف کے ہزاروں لہراتے سرخ و سبز ہلالی پرچموں کے منظر سے پھوٹتی جو امید افزاء تبدیلی نظر آئی، وہ کوئی روایتی نہیں تھی کہ ”پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی ہی کرپشن کے گڑھے میں گرنے والی ہے تو ن لیگ کی باری آ گئی۔“ نہیں، بات اس سے بہت آگے نکل گئی۔ مینار پاکستان پر لائے گئے نہیں آئے عوام کے دلوں میں ناجائز دولت کے انبار پر بیٹھے زر پرست حکمران اور سیاسی خاندانوں کی جگہ خود حاکم بننے کا پیدا ہونے والا جذبہ صاف دیکھا گیا۔ شاہی مسجد کے چاروں مینار، مینار پاکستان کے سائے تلے لاہوریوں میں پھوٹتی عوامی بیداری کے گواہ بن گئے۔ طرح طرح کے پُر جوش چہروں پر یہ پڑھنا کوئی مشکل نہ تھا کہ وہ ”فقط پارٹی قائد کے وفادار نااہل مالدار امیدواروں کی جگہ تعلیم یافتہ صائب الرائے متوسط طبقے کے ایسے انتخابی امیدوار میدان میں دیکھنا چاہتے ہیں جو عوام دوست قانون سازی کے مکمل اہل ہوں۔“ یوں لگا کہ اب انہیں کسی صورت قبول نہیں کہ ”ٹیکس چور، قرض خور، جعلی ڈگریوں والے اور نا اہل ٹکٹ ہولڈر پارلیمنٹ میں داخل ہوں۔“ ان کے چہروں پر یہ بھی لکھا تھا کہ ”سیاسی جماعتوں میں قائد کی آمریت جمہوریت سے متصادم ہے۔“ وہ پریشاں حال لوگ جو جمہوریت کے دھوکے میں ساڑھے تین سال سے بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، لوڈ شیڈنگ اور بدامنی جیسی اذیتوں کو حیرت انگیز طور پر برداشت کر رہے تھے، مینار پاکستان پر نظام بد کو اکھاڑ پھینکنے کے جذبے سے سرشار نظر آئے، جیسے 23 مارچ 1940ء کو اسی تاریخی مقام پر ہمارے قائد اور ان کے معاون کارکن قیام پاکستان کے جذبے سے سرشار ہوئے تھے۔ اب تک تو یہ عمران خاں کا دعویٰ ہی تھا کہ عوام یہ چاہتے ہیں، بعض تجزیہ نگار بھی مسلسل یہ لکھ رہے تھے کہ ”عوام کے دلوں میں تبدیلی کی خواہش مچل رہی ہے۔“ 30 اکتوبر کے جلسے سے عمران خاں کا یہ دعویٰ اور (چند ہی) تجزیہ نگاروں کی یہ رائے حقیقت کا روپ دھار گئی۔ سخت جان سٹیٹس کو میں اک ان ہونی، ہو گئی، جب اس لوٹ مار حکومتی و سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی صدائیں مینار پاکستان سے بلند ہوئیں، جس کی اجارہ داری انتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال، نادید مقتدر قوتوں کی ہر حال میں نا اہل وفا داروں پر نظر کرم، خاندانی سیاست، لوٹی دولت، تھانہ کچہری کلچر کے ملغوبے اور ووٹرز کی سماجی پسماندگی سے قائم ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کے عوام کے لئے کچھ نہ کرنے اور اپنے لئے ہر کچھ کرنے کی مادر پدر آزادی، اپوزیشن کے فقط باری کے انتظار اور عمران خاں کی پندرہ سالہ محنت سے نظام بد میں جو دراڑ آئی ہے، کیا یہ ہی وہ تبدیلی ہے جو عوام اور ملک کو مطلوب تھی؟ نہیں، یہ تو منجانب منزل محض پہلا قدم ہے۔ اٹھ گیا ہے تو اس کا مطلب کہ مطلوب تبدیلی سے ہمکنار ہونے کے لئے آخری قدم اٹھانے کا سفر شروع۔ بڑا کٹھن مرحلہ طے کرنے کے بعد عمران خاں کے سامنے بڑے چیلنجز آ گئے۔ سب سے بڑا، تحریک انصاف کا صحت مند، قابل دید اور ڈلیور کرنے والا پارٹی سٹرکچر، جس میں مختلف النوع کام متعلقہ ماہرین کی نگرانی میں انجام پائیں۔ دوسرا چیلنج قومی اور عوامی ضرورتوں کے عین مطابق تعمیر پاکستان کے پروگرام کی تشکیل، جس پر عملدرآمد کی راہیں مکمل طور پر واضح اور عوام کے سمجھ میں آنے والی ہوں۔ پارٹی کارکنوں کی تربیت کا مستقل انتظام جنہوں نے گلی محلوں میں پھیل کر پروگرام کی حمایت میں ووٹرز کے روایتی رویے میں تبدیلی کا اہم ترین کام انجام دینا ہے اس کے لئے عمران خاں کے پُر جوش حامی تعلیم یافتہ سوشل میڈیا کے ماہر نوجوانوں کی کمپیوٹر ریس پر مشتمل فوج آئیڈیل ہے۔ خاں صاحب اور پارٹی پلیٹ فارم سے ہونے والے سیاسی ابلاغ کو کمیونی کیشن سائنس کے اصولوں کے مطابق تشکیل دینے والے ابلاغی منصوبے اور حکمت عملی کے ماہرین کی منظم اور مسلسل معاونت کا حصول، پُر عزم عمران خاں کی آئندہ سیاست کے بڑے چیلنجز ہیں ان سے کامیابی سے نمٹ کر ہی وہ حقیقی سماجی تبدیلی برپا ہو گی جس کے نتیجے میں خاں صاحب اور تحریک انصاف صرف اقتدار میں ہی نہیں آئے گی بلکہ آ کر وہ کچھ کر سکے گی جو قوم اور ملک کو چاہئے۔ عمران اور ان کے کارکنوں کو پہلی کامیابی کے نشے سے بھی بچنا ہے۔ اسٹیٹس کو کی لرزتی بلائیں پھر اپنی Oneness کو مضبوط کرنے پر رضا مند ہو سکتی ہیں، جو بظاہر ٹکراتی نظر آتی ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ کراچی میں ہو چکا۔ نظام بد کو مضبوط کرنے کی اس کوشش میں وسعت بھی آ سکتی ہے، جو عمران خاں کے لئے بڑا چیلنج ہو گا۔ تبدیلی کا سونامی اپنی جگہ۔ برسہا برس سے ناجائز دولت سمیٹتی اور انتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال کی ماہرا سٹیٹس کو کی قوتیں تبدیلی کا راستہ روکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گی۔ ان کی ناجائز طاقت سے نمٹنے کی سائنٹیفک سٹرٹیجی بنانا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا تاہم ان سب چیلنجز سے ہٹ کر مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو چکی، کہ مینار پاکستان کا جلسہ فقط لاہور میں تحریک انصاف کا کامیاب جلسہ ہی نہیں تھا، پڑھنے والوں نے پڑھ لیا کہ اس سے کیا کیا ظہور پذیر ہوا۔ واقعی، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا