• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفر زیارت بیت المقدس تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ

(آٹھویں قسط)
مغرب پڑھ کر مسجد اقصیٰ ہی کے باب السلسلہ میں واقع بی بی مریم (جن کا ذکرہم اوپر کرآئے ہیں )ان کے گھر چلے گئے ۔کچھ دیر وہاں ٹھہرے چھوٹا اورتنگ سا مکان تھا۔ جس کی کھڑکی مسجد اقصی کی جانب کھلتی ہیں ۔جس میں وہ بچوں سمیت رہ رہی ہے ۔ ان کے احوال کے پیش نظر مہمان نوازی کی ساری پیشکشیں ہم نے قبول نہ کیں کہ باوضو رہنا زیادہ پسندیدہ بات ہے ۔ہماری خواتین نے ان کے خاندانی احوال پوچھے جنہیں سن کر بڑا کرب محسوس ہوا اور ان کی دلیری و شجاعت اور قناعت ایک مثال ہے ، باپ اور بھائی مسجد اقصی کے محافظین میں سے تھے ۔وہ شہید کردیے گئے اور خاوند ایک زمانے سے گم ہیں یا کسی اسرائیلی زنداں میں قید اور یہ صابرہ و شاکرہ خاتون اپنے بچوں پرشفقت مادری کے پرپھیلائے سایہ فگن ہے ، مختلف قسم کے کام کرکے اپنے بچوں کو پال رہی ہے ، جبکہ آئے دن مسجد اقصی بند کردی جاتی ہے ۔اور بعض دفعہ سپیشل پاس ہونے کے باوجود انہیں مسجداقصیٰ کے دروازے بھی ان پر بند کردیے جاتے ہیں۔ 16جولائی کو جب مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے تین فلسطینی نوجوانوں کو شہید کرکے مسجد اقصیٰ بند کردی تھی۔ تو مریم بی بی بھی اپنے ہی گھرمیں قید ہوکررہ گئی ، انہوں نے بتایاتھا کہ اسرائیلیوں نے انہیں وارننگ دی تھی کہ تم نے مسجد اقصیٰ کی جانب پردے ڈال کر رکھنے ہیں۔جھانکا بھی تو گولی ماردیں گے ۔ اسی دوران میں ان کی ایک ہمسائی بھی آگئی تھیں ان کی کہانی بھی وہی تھی،بلکہ مسجداقصیٰ کے اندرونی حجروں میںمقیم سارے خاندان اسی کرب سے گزر رہے ہیں اس سب کے باوجود وہ بہت خوش ہیں اور اپنے آپ کو سعادتمند سمجھتے ہیں جنہیں مسجد اقصی میں مکان ملا ہے ۔ ان کے بقول اسرائیلی ان تنگ و تاریک مکانوں کی منہ مانگی قیمت دینے کیلئے تیار ہے ۔واللہ ولیہما و علی اللہ فلیتوکل المومنون ۔ میں نے کہا اختی آپ کے اسی حجرے کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ کلما دخل علیھا ذکریا المحرب…اس مناسبت کو سمجھ گئیں او ر … تھوڑی سی ریلیکس ہوگئیں، ہم ان کیلئے جو تحائف لے کر گئے تھے ان کی خدمت میں پیش کیے ۔ اوراجازت لے کر رخصت ہوئے ۔واپسی دمشقی دروازے سے ہوئے ۔یہاں یہودیوں کی بہت زیادہ آمد و رفت جاری تھی ۔
جبل زیتون کاوزٹ
اگلی صبح ہمارامقام وزٹ جبل زیتون(Mount of Olives) تھا جو بالکل بیت المقدس کے بازو میں اور قدیم یروشلم سے ملحق ہے ۔ یروشلم اور مغربی کنارے ایک پہاڑی سلسلہ کوہ الخلیل کے نام سے مشہور ہے ۔ جبل زیتون اسی سلسلہ کا ایک اہم پہاڑ ہے جس کی اونچائی828میٹر یا 2710فٹ ہے۔اور اس پہاڑ کی لمبائی ایک میل سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن تاریخ میں اس پہاڑکی بڑی حیثیت ہے۔ دنیاکے تینوں بڑے مذاہب کی یادگاریں یہاں موجود ہیں ۔ انجیل وتورات میں کئی مقام پر اس پہاڑ کا ذکر ہواہے ۔ قرآن کریم میں ایک سورہ التین ہے جس میں بعض مفسرین کے مطابق اس پہاڑ کا تذکرہ کیا گیا ( والتین والزیتون وطور سینین) مفسرین کے نزدیک زیتون کے اس پھل سے مراد زیتون کے پھل کی جائے پیدائش ہے اور یہ فلسطین کا پہاڑ جبل زیتون ہے ۔چونکہ یہاں سب سے زیادہ زیتون کا پھل پیدا ہوتاہے اس لیے زیتون کا استعمال یہاں بہت عام ہے ۔اہل فلسطین اس کااستعمال بہت کثرت سے کرتے ہیں مجھے یاد آتا ہے مدینہ یونیورسٹی میں ہمارے کئی فلسطینی دوست زیرتعلیم تھے اور ہماری رہائش شارع سلطانہ والی بلڈنگ میں تھی۔ نمازوں کے علاوہ بعض دفعہ شام کے کھانے میں اکٹھا ہوجایاکرتے تھے تو ان کا زیتون آئل کا ابلے آلوؤں پر بے تحاشا چھڑکاؤ بڑا عجیب لگتا تھا ۔ ظاہر ہے جس علاقے میں کوئی چیز زیادہ پیدا ہوتی ہے ، وہاں اس کا ستعمال بھی عام ہوتاہے جیسے بنگالی بھائیوں کا مچھلی اورپاکستانی شیخوپوریوں کاکثرت سے باسمتی چاول کااستعمال ۔ زیتون کی وسیع پیمانے پر پیدائش کی اس مناسبت سے اسے جبل زیتون کہاگیاہے ۔یہاں زیتون کے کئی درخت ہیں جن کی قدامت ہزاروں سال بتائی جاتی ہے مسجد اقصیٰ اور اس کے ارد گرد میںتاریخی تقدس کی خوشبو تو ہے ہی لیکن یہاں کی فضا میں عجیب دلربا سی مہک اور رونق محسوس کی جاسکتی ہے ۔جبل زیتون اور مسجد اقصی کے اردگرد میں بے شمار انبیاء کرام کی قبور شریفہ موجود ہیں ۔مقبرہ زکریا کی تصویر تو موجود ہے باقی بھی انبیائے کرام یہیں کہیں دفن ہوئے ہیں ، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی قبرحتمی طور پر ثابت نہیں ہے ۔روئے زمین پر سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے کسی نبی کی قبر حتمی طور پر ثابت نہیں ہے۔ روایت کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو جہاں سے آسمانوں پر اٹھایاگیا وہ پتھربھی اسی پہاڑ پر مو جود ہے (کوئی ایک میٹر کے قریباس کی لمبائی ہے) اس پہاڑ یا علاقے کی یہ خاصیت ہے کہ پوری دنیا میں یہی ایک خطہ ہے جہاں سے دو انبیاء کو آسمانوں پر اٹھایا گیا ۔ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔یہ بھی مشہور ہے کہ جبل زیتون پر حضرت داؤد علیہ السلام ننگے پاؤں بھاگے تھے جبل زیتون کے سامنے والی دیوار کو عثمانی خلافت کے آٹھویں خلیفہ سلمان القانونی نے تعمیر کرایا تھا۔ اگرچہ اس سے پانچ سو سال پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرلیاتھا لیکن سترہویں صدی تک برطانیہ، روس، اٹلی، فرانس اور سپین حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے ۔اس لیے اپنے دفاع کیلئے سلطان سلیمان القانونی نے یہ دیوار بنائی تھی۔باب اسباط سے نیچے ڈھلوان میں اتریں تو بستان جشیمانی اور وادی قدرون کی مغربی جانب جبل زیتون ہے ۔ جبکہ اس کی جڑ میں سے پانچ راستے نکلتے ہیں۔ ایک شاخ اردن کی طرف اور دوسری جافا اورتل ابیب کی جانب چلی جاتی ہے۔جبل زیتون کے علاقے میں کئی چرچ ہیں ان میں مشہور چرچ حضرت مریم کے نام سے منسوب ہے جس کا تذکرہ اوپر ہم نے کیاہے ۔اس پہاڑ پرتینوں مذاہب کے قبرستان بھی ہیں اور کئی مشہور قبور ہیں ۔حضرت مریم کی قبر کنیسہ مریم عذرا ء میں ، داؤد محل میں حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر، ایک جگہ حضرت زکریا علیہ السلام کا مقبرہ بھی بتایا جاتا ہے،افشالوم کی یادگاربھی ہے ۔کنیسۃ الصعود جہاں سے بقول عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان کی طرف چڑھے تھے اسی علاقے میں ایک لاکھ چوالیس ہزار انبیائے کرام (مسند احمد اور ابن حبان کی روایت عن ابی ذرؓکے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث ہوئے، یا پیدا ہوئے ۔ اس روایت کو مشکوٰۃ المصابیح (3/1589) میں امام البانیؒ نے صحیح کہا ہے )جبکہ بعض اکابرعلماء اس ضمن میں مروی تمام احادیث کو ضعیف بتاتے ہیں۔واللہ اعلم) ان سب کی قبور مبارکہ اسی فلسطین و شام کے علاقہ میں ہیں اگرچہ نشاندہی صرف چند ایک کی ہی ہوسکی ہے لیکن وہ بھی سو فیصد یقینی نہیں ہے بس روایات ہی ہیں جو نسل در نسل مشہور ہوتی چلی آرہی ہیں شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ ؒ کے بقول حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سوا صفحہ ہستی پر کسی قبر کا مقام یقینی نہیں ہے ۔اور نہ ہی کسی نبی بشمول نبی آخر الزمان کی تاریخ پیدائش یقینی طور پر ثابت ہے ۔جو کچھ بھی ہے، آثار و روایات ہیں ، جو نسل در نسل سے مشہور چلی آرہی ہیں یہود کے قبرستان میں عام یہودی دفن نہیں کیے جاتے بلکہ یہاں مشہوراور مالدار یہودیوں کو دفن کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین قبر کی جگہ غالباً یہاں فروخت ہوتی ہے ایک قبر کم ازکم پانچ ملین ڈالرکی اور ان قبروں کوپختہ مگر سوراخوں والی سلیبوں سے ڈھانپاگیاہے کہ یہودیوں کی روحوں کو پختہ قبروں سے نکلنے میں دیر نہ لگے اور وہ فوراً پرواز کر جائیں ،مگر کس جانب؟ہم نے انہیں تبشیر بالنار کی دعائے مسنون دی پہاڑ کی ڈھلان پر قبریں ہی قبریں نظر آئیں پتھر یا سیمنٹ کی سلیب سے ڈھکی ہوئیں ہر قبر کے ایک طرف سوراخ رکھا گیا یوں کئی اعتبار سے اس جبل زیتون کی تینوں مذاہب (مسلمان، عیسائیوں اور یہودیوں) کے نزدیک بڑی اہمیت ہے۔

تازہ ترین