• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کا ضلع ملیر ،بجری مافیا کی موجیں،پولیس افسروں کی چاندی

کا ضلع ملیر اوپر کی کمائی کے حوالے سے انتہائی پرکشش اور مافیاز کے غیرقانونی دھندوں کے حوالے سےمعروف سونے کی چڑیا کہلاتا ہے۔

ملیر گزشتہ کئی سالوں سے صوبے کی حکمران پارٹی کے چہیتےاور معطل پولیس افسر راؤ انوار کے زیر کنٹرول رہا ہے۔کراچی کے نواحی اور زیادہ تر دیہات پر مشتمل ملیر ویسے تو غیرقانونی دھندوں کے حوالے سے بدنام تو ہے ہی لیکن پولیس اور دیگر کئی متعلقہ اداروں کی اصل کمائی شہر کے تعمیراتی منصوبوں میں کثرت سے استعمال ہونے والی ریتی اور بجری اٹھانے کا غیرقانونی دھندہ ہے۔

اس حوالے سے ملیر کے 4 تھانے شاہ لطیف ٹاؤن، سچل، میمن گوٹھ اور گڈاپ سٹی، ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ کے حوالے سے انتہائی کشش رکھتا ہے ۔ اس طرح کی کرپشن ناپنے کا کوئی پیمانہ تو نہیں ہے لیکن شہر میں تعمیرات کے فی مربع فٹ کے ریٹس کا حساب کتاب کرنے یا اس کاروبار سے وابستہ لوگ ریتی بجری کے دھندے کے "کالے بجٹ" کا تخمینہ ایک ارب روپے ماہانہ لگاتے ہیں۔

کراچی خاص طور پر ضلع ملیر میں ریتی بجری اٹھانے پر دفعہ 144 کے تحت پابندی ہے، لیکن جب کسی دھندے کی پولیس سرپرست ہو تو کوئی پابندی بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے ۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے کی وسیع و عریض ملیر ندی، پہاڑی برساتی نالوں اور اطراف کی سرکاری اراضی سے ریتی بجری اٹھانے والے ڈمپرز کو فی پھیرا ایک ہزار روپے علاقہ پولیس کو دینے پڑتے ہیں۔

ریتی بجری ٹرک اونرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ایس ایس پی تک بھی یومیہ حساب کتاب پہنچاتے ہیں۔ ریتی بجری اٹھانے والے عام طور پر سرشام اندھیرا ہونے سے لے کر طلوع آفتاب تک رات بھر سرگرم رہتے ہیں، رات کی تاریکی اور ویران علاقوں میں ان کے کارندوں کا راج ہوتا ہے۔

ملیر کے شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی حدود میں رواں ماہ نقیب اللہ محسود سمیت 4 بے گناہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا، اس تھانے کے ایس ایچ او کی ماہانہ آمدنی کیا ہوگی؟ زیر نظر فوٹیج میں لگ بھگ 10 کلومیٹر کی پٹی کے مناظر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

شالطیف ٹائون تھانے کے اس علاقے میں ریتی بجری کے غیرمعمولی ذخائر ہیں، پولیس کی سرپرستی میں ریتی بجری اٹھانے والوں نے علاقے کو چھید کر رکھ دیا ہے۔

ریتی بجری اٹھانے سے کئی کلومیٹر تک ملیر ندی کھنڈرات بنی نظر آتی ہے۔ مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ حکام کو خدشات ہیں کہ خدانخواستہ کسی سیلابی صورت میں علاقے میں غیر معمولی تباہی ہوسکتی ہے۔

محکمہ مائنز اینڈ منرل کے افسران اس خطرناک صورتحال پر پولیس کے خلاف رپورٹس جمع کرا چکے ہیںتاہم جب معاملہ پولیس کا ہو تو ان کے خلاف کارروائی مذاق لگتی ہے۔

ملیر کے ان تھانوں کی حدود میں کمائی کے اس سے بڑے اور بھی کئی دھندے موجود ہیں، اس کے باوجود پولیس بےگناہ افراد کی پکڑ دھکڑ، تاوان لینے اور انہیں قتل کرنے جیسے غیرقانونی کاموں میں بھی مصروف ہے۔

ریتی بجری اٹھانے سے علاقے میں پانی کی زیر زمین سطح انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے ، کاشتکاری کے حوالے سے بہترین علاقہ بنجر بنتا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ کہ حکومت یا کسی سرکاری ادارے کو اس کی فروخت کا کوئی فائدہ نہیں، کروڑوں روپے ماہانہ کی ریتی بجری اٹھانے کا پیسہ مافیا، پولیس اور متعلقہ ادارے کے اہلکاروں کی جیبوں میں جاتے ہیں۔

تازہ ترین