• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی آنکھیں اوپر کی جانب اٹھ چکی تھیں صرف سفید پتلیاں نظر آرہی تھیں، چہرہ بے جان ہوگیا تھا، میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں مزید کچھ دیر اور اس کا چہرہ دیکھ سکوں، میں نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا جو سخت ٹھنڈ میں مزید ٹھنڈا ہوا جارہا تھا، میرے آواز دینے پر ایک دفعہ اس نے آنکھیں کھولیں مجھے انجان نظروں سے دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ صرف چند لمحوں قبل پورے مجمع میں سب سے زیادہ طاقت سے نبی کریم ﷺ کی شان میں نعرے بلند کرنے والا، سب سے زیادہ پرجوش دکھائی دینے والا، شدید سردی اور بارش کے باوجود اس کا جوش دیدنی تھا لیکن صرف چند لمحوں کے دوران ہی اچانک اسے دل کا دورہ پڑا اس مظاہرے میں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد کی فراہمی کا کوئی بندوبست نہیں تھا لیکن شکر تھا کہ مظاہرہ بھی جاپان میں ہوا تھا اور یہاں ہنگامی بنیادوں پر طبی سروس بھی میسر آجاتی ہے فوری طور پر ایمبولینس سروس کو فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اگلے پندرہ منٹ میں ایمبولینس پہنچ جائے گی، میں اس وقت ایک مظاہرے کی کوریج کے لئے ٹوکیو کے مرکز میں موجود تھا جہاں حضور اکرم ﷺ کی شان میں یورپ میں بننے والے گستاخانہ خاکوں کی جاپان کے ایک مقامی اخبار میں اشاعت کے خلاف بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں نہ صرف پاکستانی بلکہ دیگر ممالک کے مسلمان بھی جمع تھے جس میں ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان اپنے پرجوش نعروں کے باعث سب سے نمایاں تھے لیکن نبی اکرم ﷺ سے محبت اور جذبات سے دل اتنا بھاری ہوچکا تھا کہ سنبھل نہ سکا۔ ملک نور اعوان وقت پر اسپتال پہنچے اور فوری طور پر ان کی انجیو پلاسٹی کی گئی، ڈاکٹرز نے تاکید کہ مستقبل میں کمزور دل کے ساتھ طاقت ور نعروں سے گریز کرنا ہوگا لیکن ایک دفعہ پھر اسی طرح وہ سیاسی و مذہبی مظاہروں میں نمایاں ہونے لگے، اسلام آباد کی اعوان برادری سے تعلق رکھنے والے ملک نور اعوان پچھلے بائیس سالوں سے جاپان میں مقیم ہیں لیکن کاروبار سے زیادہ دل سیاست میں لگتا ہے، جاپانی خاتون کو مسلمان کرکے شادی کی اور آخرت کے لئے جنت کا سامان کرلیا۔ ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ ملک صاحب کو نمایاں ہونے کا کافی شوق ہے اور ان کو مواقع بھی ایسے مل جاتے ہیں جہاں وہ نمایاں ہی نظر آتے ہیں کبھی وہ کفن باندھ کر نوازشریف کی حمایت میں اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے نکل پڑتے ہیں، تو کبھی پاکستان میں سیلاب زدگان کے لئے فنڈ جمع کرنے کے لئے جاپان بھر میں اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈھائی ہزار کلومیٹر کا سفر کرتے نظر آتے ہیں، لیکن جس واقعے نے انھیں عالمی شہرت بخشی وہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو پارلیمنٹ ہائوس میں جھپی ڈال کر اپنے بائیس لاکھ روپے کی واپسی کا تقاضا کرنے کے واقعہ تھا، یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شیخ رشید احمد نوے کی دہائی میں جب آتش بھی جواں تھا میاں نواز شریف کی کابینہ میں وزیر تھے اس زمانے میں وہ جاپان تشریف لائے تھے اس دورے کی دعوت انھیں مسلم لیگ ن جاپان کی جانب سے دی گئی تھی جس کے صدر شیخ قیصر محمود تھے جو اس وقت مسلم لیگ اوورسیز کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں، دونوں ہی شخصیات شیخ برادری سے تعلق رکھتی ہیں، شیخ رشید کے دورہ جاپان کے دوران شیخ رشید صاحب کو ایک ایسی گاڑی دکھائی گئی جس کے پچھلے حصے میں ایک عدد خوبصورت بیڈ تھا، فریج کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کے لئے کچن بھی موجود تھا جبکہ وقت گزاری کے لئے ٹی وی بھی نصب تھا اور ائر کنڈیشنر اور ہیٹر بھی موجود تھا وہ گاڑی شیخ رشید کو اس قدر پسند آئی کہ انھوں نے شیخ قیصر سے گاڑی کی خریداری کی فرمائش کردی اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اس گاڑی کی قیمت ادا کریںگے لہٰذا شیخ قیصر نے اپنے چند دوستوں جس میں ملک نور اعوان بھی شامل تھے کو ہدایات جاری کیں کہ وہ شیخ رشید احمد کے ساتھ گاڑیوں کے آکشن میں جائیں اور جو گاڑی وہ پسند کریں وہ انھیں دلادی جائے، ایسا ہی ہوا، گاڑی خریدی گئی اور شیخ رشید صاحب کی ہدایات کے مطابق اسے دبئی روانہ کردیا گیا جہاں سے اسے پاکستان لے جانا تھا، اس کے بعد کیا ہوا حقائق تو معلوم نہیں ہیں لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ شیخ رشید صاحب نے گاڑی کا بل آف لینڈنگ بھی لے لیا لیکن اس کی رقم آج تک واپس نہ کی، اس بات کو تو شاید جاپان والے شیخ رشید کے تمام دوست بھلا چکے تھے لیکن جیسے ہی شیخ رشید احمد نے میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑا اور میاں نواز شریف کے خلاف بیان بازی شروع کی تو نواز شریف کے بہت سے چاہنے والوں کو ان کی یہ ادا بالکل پسند نہ آئی اور کئی دفعہ ان کو احسان فراموشی کے طعنے بھی دیئے گئے لیکن حقیقت میں سیاسی بیانات تو سیاست کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ملک نور اعوان جیسے بعض کارکن جو میاں نوازشریف سے جذباتی لگائو بھی رکھتے ہیں انھیں شیخ رشید صاحب کے کردار سے ہمیشہ تکلیف ہی رہی۔ انھوں نے ایک سال قبل شیخ رشید احمد کو اسلام آباد ائرپورٹ پر بھی روک کر اپنی رقم کا تقاضا اسی انداز میں کیا، ان کے شور شرابے سے کافی لوگ جمع بھی ہوئے لیکن اس واقعہ کو اتنی شہرت نہ مل سکی، جبکہ انھوں نے پولیس میں بھی شیخ رشید احمد کے خلاف ایف آئی آر درج کرا رکھی تھی لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی، اتفاق سے جون کے مہینے میں، میں بھی اسلام آباد میں اپنی کتاب، یاران وطن کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں موجود تھا، جہاں ملک نور اعوان بھی میرے ساتھ ہی تھے اور اس دوران بھی کئی دفعہ شیخ رشید صاحب سے اپنی رقم کا تقاضا کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے تھے، وہ شاید رقم کے حصول کے اتنے خواہاں نہیں تھے جتنا وہ شیخ رشید احمد کو نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے پر شرمندہ کرنا چاہ رہے تھے، اتفاق یہ تھا کہ جس روز میری جاپان واپسی ہوئی اس سے اگلے روز ہی ملک نور اعوان کو شیخ رشید احمد نظر آگئے وہ بھی پارلیمنٹ ہائوس میں وہاں انھوں نے جس طرح شیخ رشید احمد سے اپنی رقم کا تقاضا کیا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے، معلوم نہیں کہ میاں نوازشریف کا ملک نور کے اس اقدام پر کیا ردعمل تھا لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ان کے خلاف سخت دفعات کے ساتھ ایف آئی آر بھی درج کرائی اور انھیں گرفتار کرایا جو آج بھی اس کا مقدمہ بھگت رہے ہیں، ملک نور اعوان ایک سال پاکستان میں گزارنے کے بعد جاپان پہنچے ہیں انھیں ایک بار پھر سینے میں تکلیف کی شکایت ہوئی، ڈاکٹرز نے ان کو چیک کیا اور دل کی ایک نس کو مزید بند پایا ہے اور ایک بار پھر انجیو پلاسٹی کا مشورہ دیتے ہوئے احتیاط کا مشورہ دیا ہے جبکہ ان کے دوستوں نے انھیں سینیٹ کے الیکشن میں یا اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کا یہ جیالا زندگی بھر صرف نعرے ہی لگاتا رہے گایا کبھی پارلیمنٹ میں بھی جاسکے گا۔

تازہ ترین