توہین عدالت کے الزام میں غیر مشروط معافی مانگنے والے پارلیمنٹیرین، سینیٹر نہال ہاشمی کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کا فیصلہ متفقہ نہیں، دو ایک سے اکثریتی تھا۔ اور اب سینیٹ کے بجائے، نہال ہاشمی ایڈوکیٹ کا نیا پوسٹل ایڈریس اڈیالہ جیل راولپنڈی ہے۔اس دوران وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو بھی سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا جسے موصوف وصول بھی کر چکے ہیں۔ انہیں 6 فروری کو شاید اسی بنچ کے سامنے پیش ہونے کے لئے کہا گیا ہے اور اس سے اگلے روز 7 فروری کو وفاقی وزیر برائے نجکاری چوہدری دانیال عزیز، سپریم کورٹ میں طلب کر لئے گئے ہیں، ان پر بھی وہی الزام توہین عدالت کا ہے۔دوسری طرف ہر قسم کے میڈیا میں خبر گرم ہے کہ نااہل وزیراعظم نواز شریف کااصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ شاید اپوزیشن انہیں مزید نااہل کروانا چاہتی ہو ورنہ فی الحال تو وہ عمر بھر کے لئے نا اہل ہیںاور آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی حد کا تعین ہونا باقی ہے۔ مقدمہ عدالت کے معزز چیف جسٹس کی عدالت میں ہے جہاں پہلے یہ طے ہونا ناگزیر سمجھا گیا کہ اس ترمیم، تبدیلی، اضافہ یا تشریح کا مجاز کون ہے عدلیہ یا پارلیمنٹ؟ جس کے لئے محترم چیف جسٹس ابھی ملک کے قابل ترین اور تجربہ کار وکلاکی رائے سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نازک قومی معاملہ ہے۔ ریاست کے تین میں سے دو بنیادی ستون یا اداروں کے اختیار کا، اور اسی لئے قابل احترام چیف جسٹس نے جائز طور پر اس معاملے میں اپنی ذاتی اور خصوصی توجہ کا اہتمام کیا ہے۔
سب جانتے ہیں جمہوری ریاست کے تین روایتی بنیادی ستون ہیں۔ مقننہ LEGISLATURE ، عدلیہ JUDICIARY، اور منتظمہ EXECUTIVE اور رتبے میں تینوں ایک دوسرے سے بڑھ کر۔ عدلیہ نے محسوس کیا کہ سینیٹر نہال ہاشمی نے ایک جذباتی تقریر میں عدلیہ کی توہین کی ہے، انہیں شوکاز نوٹس جاری ہوا، مقدمہ چلا، سینیٹر نے عدالت میں حاضر ہو کر غیر مشروط معافی مانگ لی، عدالت نے اسے ناکافی سمجھا اور پارلیمنٹ یعنی ریاست کے دوسرے بنیادی ستون مقننہ کے رکن سینیٹر نہال ہاشمی کو قید، جرمانے اور نااہلی کی سزا سنا کر قانونی تقاضا پورا کیا۔ ریاست کے تیسرے بنیادی ستون منتظمہ یعنی ایگزیکٹو کے ذیلی ادارے پولیس نے عدلیہ کی طرف سے دی جانے والی سزا کے حکم پر من و عن عمل کیا۔ قانون ساز ادارے کے سینیٹر اور ملک کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کی سیاسی پارٹی کے اہم رکن کو عدالت کے کمرے سے تحویل میں لیا۔ تھانے لے جا کر کاغذی کارروائی مکمل کی گئی اور شام سے پہلے جیل پہنچا دیا گیا۔ اور یوں قانون پر عمل درآمد خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ لیکن یہ کوئی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔ ایسا ہر روز ہوتا ہے، صبح سے شام تک، سینکڑوں ہزاروں بار ہوتا ہے۔ یہ ریاست کے تین بنیادی ستون اور ان کے ذیلی اداروںکے معمول کا طریقہء کار ہے جو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اپنی حدود میں تجاوز سے مسلسل گریز اس ہم آہنگی کے لئے اکسیر کی مانند ہے۔ نچلی سطح پر یہ ہم آہنگی اگر معمول کا طریقہ کار ہے تو اعلیٰ ترین سطح پر اس کا اہتمام کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ شاید یہ ممکن نہیں کیونکہ مقننہ یعنی پارلیمنٹ جو سینیٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل ہے، ریاست کا پہلا بنیادی ستون ہے اور منتظمہ یا ایگزیکٹو جو وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی صورت میں ریاست کا دوسرا بنیادی ستون ہے۔ ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کہ دونوں کا خمیر عوامی نمائندگی کی مٹی سے بنتاہے۔ تیسرا اہم اور بنیادی ستون عدلیہ ہے جو ریاست کے ہر شہری کو انصاف فراہم کرنے کی ضامن ہے۔ اور دنیا بھر کی عدالتی روایات کے مطابق لازم ہے کہ عدلیہ معاشی، معاشرتی اور سماجی ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہو اسی لئے جج صاحبان عام طور پر غیر ضروری سماجی میل جول سے بھی حتی الامکان گریز ہی کرتے ہیں تا کہ اپنی غیر جانبداری کا بھرم رکھ سکیں۔
لیکن اکیسویں صدی کے پاکستان نے ججوں کو اپنی بحالی کی تحریک چلاتے دیکھا جس کے ہراول دستے میں معروف اور غیر معروف وکلا کی اکثریت شامل تھی اور جس کی قیادت سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے۔ 2009 میں ججزبحال کر دیئے گئے۔ معزول چیف جسٹس بھی دوبارہ اپنے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر 2013میں ریٹائر ہوئے۔ لیکن چار برس کی اس مدت میں عدلیہ کی غیر معمولی فعالیت اپنے عروج پر تھی۔ اب اس میں پسندنا پسند کا عنصر بھی شامل ہو چکا تھا جس نے عدلیہ کی غیرجانبداری کو گہنا دیا اور مقبولیت تیزی سے غیر مقبولیت میں بدلتی گئی۔ دراصل ججز بحالی کی تحریک ایک سیاسی عمل تھا ۔سیاست میں بہت سے آپ کے دوست اور حامی ہوتے ہیں اور کم و بیش یہی تعداد آپ کو نا پسند کرنے والوں اور مخالفین کی بھی ہوتی ہے جس سے آپ کی غیرجانبداری کو دو طرفہ نقصان پہنچتا ہے۔ اسی لئے اکثر اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اعلٰیٰ عدالتیں سیاسی معاملات اور مقدمات میں الجھنے سے دور رہتی ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے ریٹائر ہونے کے بعد جب سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تو انہوں نے اپنے آپ کو تنہا پایا۔ یہ سیاسی تنہائی کئی سال گزرنے کے بعد آج بھی جاری ہے۔ اور صورت حال یہ ہے کہ آئندہ انتحابات کیلئے الیکشن کمیشن میں ان کی پارٹی کی رجسڑیشن اب تک ممکن نہیں ہو سکی کہ وہ اپنی درخواست میں پارٹی اراکین کی وہ فہرست شامل نہیں کر سکے جس میں مطلوبہ تعداداور مکمل کوائف بھی موجود ہوتے۔ گویا وہ آج بھی اکیلے ہیں اور ان کی غیر معمولی عدالتی فعالیت کے باوجود حکومتوں کی کارکردگی جوں کی توں ہے اور غریب عوام کے مسائل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
توہین عدالت میں سینیٹر نہال ہاشمی کی سزا اور دو وفاقی وزیروں کی اسی حوالے سے سپریم کورٹ میں طلبی کا ذکر کرتے ہوئے ایک خبر کا حوالہ اس کالم کے آغاز میں دیا گیا ہے کہ ‘‘دوسری طرف ہر قسم کے میڈیا میں خبر گرم ہے کہ نا اہل وزیراعظم کا امتحان تو اب شروع ہوا ہے‘‘ یہ خبر یقیناً اپوزیشن نے چلائی ہو گی لیکن غیر جانبداری کا چاند تو آپ کا گہنا گیا۔ اسی طرح عدالتوں کا از خود نوٹس (suo moto) ایک مثبت اختیا ر ہے جس سے سوئی حکومت اور معاشرے کو جگایا جا سکتا ہے۔ اس کے نتائج بھی کبھی کبھار حوصلہ افزا ہوتے ہیں لیکن جب انکی تعداد بڑھنے لگے تو بے شمار مسائل اور مشکلات میں گھرے ملک میں انکی کامیابی کا گراف بھی تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کیلئے بچے بچیوں کے اغوا، زیادتی اور قتل یا گمشدہ افراد کی بازیابی کا رونا رویا جا سکتا ہے۔ ایسے مقدمات میں حکومت اور اس کے متعلقہ ذیلی اداروں نے کچھ تو کوشش کی ہو گی، کوئی ہمت دکھائی ہو گی۔ اسی طرح کئی عدالتی از خود نوٹس بھی ہوئے۔ زینب کا قاتل پکڑا گیا، لوگوں کی جان میں جان آئی، اجتماعی ہیجان بھی کم ہوا لیکن میڈیا آج بھی ہر روز ایک یا دو نئی خبریں سنا رہا ہے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کا سلسلہ بھی جاری ہے، اس میں کامیابی کا تناسب کم ہوا ہے اور اٹھائے جانیوالے افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
ہمارا ملک بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ کوئی شارٹ کٹ اس کا حل نہیں۔ ہمیں اس کیلئے معاشی اور معاشرتی محاذوں پر ایک مسلسل اور طویل جنگ لڑنا ہے۔ اکیس کروڑ عوام کی اکثریت اس کے لئے تیار ہو جائے گی لیکن اس کی قیادت کرنیوالے کہاں سے لائیں؟کاش؎
مرے درد کو جو زباں ملے
مجھے اپنا نام و نشاں ملے.