(نویں قسط)
جبل زیتون پرسلمان فارسی ؓ اوررابعہ بصریؒ کے مقامات
جبل زیتون پرکئی تاریخی مقامات ہیں۔ ان میں سے ایک احاطے میں دو مشاہیر کی طرف منسوب مقامات بھی ہیں مشہور صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام بھی مشہور ہے جہاں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی موجود ہے۔ اس کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے یہ سفید گھنی ریش، چوڑا ماتھا خوبصورت نین و نقوش والے ایک بزرگ ہیں… جانتے ہیں یہ کون ہیں؟…یہ ہیں 76سالہ مفتی اعظم فلسطین جناب محمدالحسینی صدیوں سے حسینی خاندان بیت المقدس کے منصب افتاء پر مسند نشین ہے۔ ہمارے اوائل شعور میں جب اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی تھی تو اس وقت انہی کے والد تھے امین الحسینی۔ سب کے ناموں میں حسینی آتا ہے۔ مفتی امین الحسینی نے مسلم دنیامیں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شخصیت عالم دنیا میں فلسطین کے نمائندہ کے طور پر معروف ہے اور انہیں ایک سربراہ مملکت کا پروٹو کول ملتا ہے۔ انہی کی وجہ سے مجاہد کبیر مولانا محمد علی جوہر کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی تھی۔ موجودہ مفتی صاحب علم و ادب، تقویٰ اور نرم روئی کا عنوان ہیں۔ ہر آنے جانے والوں سے گرمجوشی سے ملتے اورحال احوال پوچھتے ہیں انہیں بہت دعائیں دیتے ہیں۔ بالخصوص یورپ سے آنے والے زائرین کو دیکھ کر انہیں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپ سے مسلمان آزادانہ بیت المقدس آجا سکتے ہیں۔ مفتی صاحب کے خدام حاضرین و زائرین کی چائے کافی اور پھلوں سے تواضع کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس کاامام بننا یا منصب افتاء کی ذمہ داری سنبھالناکوئی معمولی بات نہیں ہے۔جہاں یہ بڑے اعزاز کی بات ہے وہاں یہ بڑی نازک ذمہ داری بھی ہے ۔ ہر وقت جان کو خطرہ رہتا ہے ۔لیکن فلسطینیوں کیلئے ایسے معرکے کوئی اجنبی بات نہیں ہیں ۔ ان کی مائیں اپنے دودھ کیساتھ انہیں اس مغضوب علیہ قوم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کاجذبہ بھی پلاتی ہیں ۔ تقبل اللہ مساعیھم ۔حضرت سلمان فارسی جنہوںنے اسلام کی نعمت حاصل کرنے کیلئے بڑا لمبا سفر کیا ۔ ایران کے ایک مالدار زمیندار کے بیٹے تھے ۔ لیکن ان میں جستجوئے حق کی لگن تھی جو انہیں ارض طیبہ لے آئی ۔اوریہاں تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے خداوندان کلیساؤں کی مذہبی حالت اور اخلاقی انحطاط کا بچشم خود ملاحظہ کیا۔بنوکلب سے تعلق رکھنے والے ایک قافلے کے ساتھ آپ وادی القریٰ پہنچے ۔ لیکن انہوں نے بے وفائی کرکے حضرت سلمان کو غلام بنا لیااور وادی القریٰ کو ایک یہودی کے ہاتھ انہیں بیچ دیا ۔پھر اس یہودی کا ایک دوست جو قبیلہ بنو قریظہ (یثرب… مدینہ النبیؐ) سے تعلق رکھتاتھا وہ انہیں خرید کریثرب لے آیا ۔یعنی آخر کار کسی نہ کسی طرح راہ حق کا متلاشی ایران سے وادی یثرب پہنچ ہی گیا ۔ اس زمانے میں یثرب کی وادیاں نور نبوت سے منور ہوچکی تھیں اور سیدنا محمد کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وازکی التسلیم بنفس نفیس طیبہ کی فضاؤں میں نور نبوت بکھیر رہے تھے ۔ سلمان کی تلاش حق کا سفر تمام ہوا ۔اور آپ آغوش نبوت میں پہنچ گئے ۔رسول اقدس کے قلب مبارک میں ان کی کتنی قدر تھی ! انہیں اپنے گھرکافرد قرار دے دیا اوراوراہل ایمان کے دلوں میں سیدنا سلمان کا مقام سلمان ابن اسلام کے طور پر اجاگر ہوا ۔غزوہ خندق میں حضرت سلمان نے فارسی طریق جنگ کو استعمال کرتے ہوئے خندق کھودنے کامشورہ دیا اور اسلام میں اس غزوہ احزاب کا نام ہی غزوہ خندق پڑگیا۔سیدنا وامامنا فاروق اعظمؓکے دور میں ایران فتح ہوا تو اس عظیم الشان موقع پر سیدنا سلمان ؓ بھی موجود تھے ۔ پھر فاروق اعظمؓ ہی نے انہیں مدائن کا گورنر مقرر کردیا اور اس دور میں انہوں نے تونگری کی بجائے فقیری کا منش جاری رکھا۔ عبا اور اونچا پاجامہ پہنتے رہے جوکچھ مال ملتااسے فوراً غربا میں تقسیم کردیاکرتے تھے اور اس منصب پر آپ خلافت سیدنا عثمان ابن عفانؓ کے دور تک فائز رہے 33ھ میں آپ مدائن ہی میں فوت ہوئے۔
آں مسلمان کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی فقیری کردہ اند
مسجد سلمان الفارسیؓ سے چند سیڑھیاں اوپر چڑھیں تو اس احاطے میں مقام حضرت رابعہ بصری ہے۔ حضرت رابعہ بصریہ عدوی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کی مشہور مبلغہ اور معلمہ تھیں۔ لیکن انہیں اہل تصوف کسی اور روپ میں پیش کرتے ہیں ان کے بارے میں بے شمار روایات پھیلی ہوئی ہیں ۔ان روایات کا منبع مستند نہیں ہے، ایک صوفی منش مصنف شیخ فرید الدین عطار ؓنے صدیوں بعد بیان کیاہے اور بغیر کسی سند روایت کے۔ حقیقت کیا ہے کچھ معلوم نہیں اوران کی طرف منسوب روایات کی سچائی یاجھوٹ کا کوئی معیار نہیں ہے ۔بہرحال مسجد سلمان بہت خوبصورت ہے ۔مفتی اعظم فلسطین کا اعلی اخلاق ،وہاں موجود ان کے خدام کاحسن سلوک ، بابرکت علاقہ ، بابرکت پہاڑ ، جبل زیتون کی بلندی سے یروشلم کا نظارہ اور قبۃ الصخراء کا چمکتا گنبد عجیب احساسات پیدا کررہا تھا ہم جبل زیتون کے اس رخ پر کھڑے تھے جہاں سے یروشلم کا قدیم شہر اپنی گود میں قبہ صخراء لیے ڈوبتے ہوئے سورج کی زرد کرنوں میں جھلملاتا نظر آرہاتھا ۔ اہل فلسطین کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فخر سے کہیں یہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت ہے
یروشلم کاعجوبہ…غار سلیمانی کا وزٹ
اگلی صبح میں تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا کہ ہمارے رہبرڈاکٹر یاسین صاحب کافون آیا کہ اگر ہمت عود آئی ہو تو آجائیں کافی جگہ دیکھنے جانا ہے۔ میں فوراً تیار ہوکر چلا گیا تو باب ہیروڈیس سے متصل ایک غار ہے جہاں ہمارے گروپ کے سبھی ساتھی میراانتظار کررہے تھے ۔اس جگہ دیکھنے کیلئے ٹکٹ لینا پڑتا ہے ۔ باہر لکھا ہوا کہ’’ غار سلیمان ‘‘اور ساتھ ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کی مزعومہ فوٹو لگائی ہوئی ہے۔روایات کے مطابق مسجد اقصی کی تعمیر میں جو پتھر لگے ہیں ۔ غالباًوہ اس غار سے لیجائے گئے تھے ۔ایک ایک پتھر ساٹھ ساٹھ ٹن کا ہوگا۔ اور ایک بلاک تو کئی ٹن وزنی ہوگا۔مصلی مروانی میں پتھروں کی موجودگی بتارہی ہے کہ انہی پتھروں سے اس ایریے کوبنایاگیاہے جن کی قدامت اور مضبوطی حیران کن ہے۔غار میں ایک جگہ پانی کے قطرات مسلسل گررہے ہیں کہاجاتاہے کہ یہ کسی بڑے آدمی کے آنسو ہیں جس کا نامSdiqioبتایاجاتاہے ،جب ان پر اسرائیلیوں نے ظلم کیایاناجائز قتل کرنے لگے، تو ان کی آنکھوں سے آنسو گرکر امر ہوگئے اور ابھی تک گررہے ہیں ۔ میں نے ان کو قطرات کوہاتھ میں لے کر چکھا، عام پانی کاذائقہ ہے، جیسا پہاڑوں سے پانی نکلتا ہے۔ پتہ نہیں اس کہانی کا پس منظر کیا ہے ۔ظاہر ہے یہ سنگدل اور ازلی بدنصیب قوم سترسترانبیاء کو ایک دن میں ناجائز قتل کرکے بازارمیں جاکر اپنے کاروبارمیں مشغول ہوجانے والی قوم تھی۔ معلوم نہیں کن کن انبیاء کرام اور صالحین کوان ظالموں نے قتل کیا ہوگا۔ اور مسلسل کررہے ہیں ۔ بہر حال کسی مظلوم کے آنسو ہیں۔یاپہاڑی چشمہ واللہ اعلم ۔پھر اس غار کے بارے میں لٹریچر پڑھا تو یہ انکشاف ہوا کہ فری میسن تنظیم جو شیطان و فرعون اور جادو پر یقین رکھتی اورانہیں اپنا امام مانتی ہے ۔ انہیں معبود قرار دیتی ہے ان کی خیالی تصاویر اوربتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھی یہودیوں نے جادو کومنسوب کیا تھا۔اوران کی عظیم الشان سلطنت کو جادو کا شاخسانہ قراردیاتھا۔جس کی قرآن مجید نے سختی کے ساتھ تردیدفرمائی ہے کہ جادو ٹونہ کرنا کفر ہے اور کوئی نبی اس کفرکامرتکب نہیں ہوا {سورہ البقرہ آیت نمبر102}اور آپ نے جنوں کے ذریعے سے مسجد اقصیٰ تعمیرکرائی تھی ۔فری میسن تنظیم اس وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی تقدیس کی شایدقائل ہے۔اس کے خیال میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے جن یہاں سے پتھر نکالاکرتے تھے۔لیکن یہ غار 1845میں دریافت کی گئی تھی ۔ اس کی لمبائی 200میٹر ، چوڑائی400میٹراوراونچائی4.15میٹر ہے ۔ یہ غار فری میسن سے متعلقہ لوگوں کا مرکزاور قبلہ بھی ہے ، اسی لیے وہ اپنا سالانہ انتخابی اجلاس اسی غار میں منعقد کرتے ہیں ۔ اور اس کا طریق کار کہ یہ ہے کہ ایک آدھ دن پہلے انتخابی تاریخ کا اعلان کیاجاتاہے اور دنیا بھر سے اس شیطانی تنظیم کے اراکین اگلی صبح یروشلم کی اس غار میں جمع ہوجاتے ہیں ۔کوہ صہیون کے اس حصے کے اوپرمسجداقصی کی دیوار ہے اور جہاں اس کی لمبائی ختم ہوتی ہے وہاں سے مسجداقصی شروع ہوجاتی ہے، ہم غارسلیمانی میں داخل ہوئے کافی نشیب میں چلتے گئے اور دم بدم اندھیرا بڑھتاجارہاتھا۔ہم نے چل پھر کی اس غار کو دیکھا۔بہرحال یہ غاربھی یروشلم کا عجوبہ ہے ۔غار سے باہرنکلے تو دو مقامی فلسطینی نوجوان جنہیں ڈاکٹر یاسین صاحب نے بطور گائیڈ لیاتھا ۔ ان کی ہمراہی میں ہم نے اپنا سفر شروع کیا ۔ اولڈ سٹی کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے نکل کر پہلے ہم مسجد عمرؓگئے جوبند تھی کیونکہ نماز کا وقت نہیں تھا۔ اس لیے باہر ہی سے ہم اسے دیکھ سکے، اس سے صرف دس گز دور کنیسۃ القیامہ ہے عیسائیوں کامشہور چرچ ۔بیت المقدس کی مغربی دیوار کے قریب یہ کلیسا’’ کنیسۃ القایامۃ ‘‘(Holy Sepulchre) کے نام سے جانا پہچانا جاتاہے ۔
کنیسۃ القیامہ مسلمانوں کی رحمدلی کی وجہ سے محفوظ ہے
سچی بات تویہ ہے کہ بیت المقدس کی پوری تاریخ مسلمانوں کی رحمدلی اور محبت و عقیدت کی رہین منت ہے اسی چرچ کو دیکھ لیجئےدنیا بھر کے عیسائیوں کا مرکز ہے، جہاں عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا اور یہیں ان کی قبر بنائی گئی اورتین دن بعد یہیں سے انہیں اٹھایا گیا تھانبی ﷺ کی ولادت سے 300سال پہلے ایک رومی بادشاہ قسطنطین Constanstine نے یہودیت چھوڑ کرعیسائیت اختیار کی تو اس کی والدہ ہیلن نے اسے تعمیرکرایا۔ تاریخ کی کڑیاں جوڑی جائیں تو لگتاہے کہ یہ ہیلن اصحاب الکہف کے قائد میکس میلن Max Melon)کی بیوی اور دقیانوس کی بیٹی تھی۔یا اسی کی نسل سے تھی ۔جیساکہ ظاہر ہے کہ دقیانوس بڑا ظالم اور خدائی کا دعویدار بادشاہ تھا جس کے سامنے چند سرکردہ فیملیوں کے نوجوانوں نے سجدہ کرنے سے انکار کیا توا س نے انہیں قید کردیا جہاں سے وہ کسی طریقے سے فرار ہوکر غار میں چھپ گئے تھے ان کاسردار ہیلن کا خاوند تھا ۔یہ میاں بیوی ( بادشاہ کی بیٹی اور اس کاداماد)مسلمان ہوگئے تھے ، ہیلن کا خاوند بادشاہ کا داماد مسلمان ہونے کی وجہ سے غار میں چھپنے والوں میں شامل تھا۔جنہیں اللہ تعالیٰ نے تین سو نو سال سلائے رکھا۔لیکن لوگوں نے انہیں گمشدہ قرار دے دیا۔ ان کے جاگنے تک ملک میں انقلاب آچکا تھا لوگ اسلام کے عقیدہ آخرت کے قائل ہوچکے تھے۔اوریہ لوگ غالباً انہی کی نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ واللہ اعلم۔ ہیلن کا بیٹا بادشاہ بنا تو اس نے حضرت عیسی علیہ السلام کا دین اسلام قبول کرلیاتھا ۔ اورحضرت عیسی علیہ السلام کی یادگارمیں ہیلن نے اس مسجدکوتعمیرکیاجسے بعد میں عیسائیوں نے چرچ کا نام دے دیا ۔ اب یہ سمجھ نہیں آرہی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا دین تو اسلام تھا وہ اپنے آپ کو مسلم کہلاتے تھے ، اور ان کے ساتھی بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے تھے {قال الحواریون نحن انصار اللہ امنا باللہ و اشھد بانا مسلمون۔آل عمران52} پھر سینٹ پال نے ان کے عقیدے میں تثلیث و کفارہ جیسے مشرکانہ عقائد داخل کرکے اسلام سے عیسائیت بنا ڈالا، اور یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے کچھ عرصہ بعد اصل عیسائیت جو اسلام تھی اس کو کیسے مغلوب کردیاگیا؟توگویایہ بھی مسجداقصی کی طرح مسجد تھی جسے بعد میں عیسائیوں نے کنیسۃ القیامہ (Holy Sepulchre) کا نام دیا۔کہاجاتاہے، دوران تعمیرہیلن کو وہ صلیب ملی جو کہتے ہیں کہ اصلی تھی ۔جس پر حضرت عیسی علیہ السلام ( یا ان کے ہم شکل )کو سولی دی گئی تھی ۔ یہ اصلی صلیب یہاں موجود رہی ۔ حتیٰ کہ ایران کے مجوسی بادشاہ خسروپرویزنے بیت المقدس پر یلغارکرکے قبضہ کر لیا اور اس صلیب کوان سے چھین کرمدائن پہنچادیا۔ لاٹ پادری زکریا کو گرفتار کر لیا اور شہرے کے تمام گرجوں کو انہوں نے مسمار کر دیا۔ 628ء میں خسرو پرویز اپنے بیٹے کی بغاوت کے نتیجے میں قتل ہوگیااورایک عورت ایران میں تخت نشین کردی گئی جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھاکہ وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے ہاتھوں سونپ دیے ہوں ۔اسی سال خسروپرویزکے بیٹے کیقبادثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دستبرداری کااعلان کردیا جس کے نتیجے میں یہ صلیب بھی رومیوں کوواپس مل گئی اور629ء میں قیصر روم ہرقل اس صلیب کوخود اپنے ہاتھوں سے کنیسۃ القیامۃ میں رکھنے کیلئے یروشلم پہنچااور اسی سال نبی ﷺ عمرۃ القضاء اداکرنے کیلئے ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور قرآن کریم کی پیش گوئی بحق روم پوری ہوئی {سورہ روم 84}میں اسی کا ذکر کیاگیاہے۔ آپ کی وفات کے بعد خلافت صدیقی میں بہت سے فتنوں نے جنم لیا منکرین ختم نبوت مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی، اور زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والے اور دین اسلام ترک کرے کفر اختیار کرنے والے مفسدین نے اودھم مچادیا آپ کا مختصر سادورخلافت انہی فتنوں کی سرکوبی میں گزرگیا ۔لیکن آپ نے بیت المقدس کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائی، اور اس کی تکمیل دور فاروقی میں ہوئی تھی۔