اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نےالیکشن ایکٹ ْ2017کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی جانب سے سینیٹ کے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا فارم اور دیگر تفصیلات جبکہ اٹارنی جنرل آفس سے آئین میں کی جانے والی 14 ویں ترمیم کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔ جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو شخص رکن اسمبلی نہیں بن سکتا ، کیاوہ کسی سیاسی جماعت کا سر براہ بن سکتا ہے؟ کیا کوئی چور یا ڈرگ مافیا کا بندہ کسی جماعت کا سر براہ بن سکتا ہے ؟ اگر عدالت نے اس قانون کو آئین سے متصادم ہونے کی صورت میںکالعدم قرار دیدیا تو سینیٹ کے آئندہ انتخابات کیلئے جاری پارٹی ٹکٹوں کا کیا بنے گا؟ مخالف امیدوار کو واک اوور مل جائیگا یا سینیٹ الیکشن دوبارہ ہو گا؟ جب بنیاد ختم ہو جائے تو ڈھانچہ بھی قائم نہیں رہ سکتا، یہ کوئی بنانا ری پبلک نہیں۔ جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعت سر براہ کے گرد گھومتی ہے، پار ٹی سربراہ ہی اپنے پارلیمنٹرینز کو کنٹرول کر تا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگرکوئی شخص رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو وہ پارٹی کا سربراہ کیسے بن سکتاہے؟ کیا سنگین جرائم میں سزا پانے والا شخص بھی کسی پارٹی کا سربراہ بن سکتاہے؟ کیا کوئی منشیات فروش بھی کسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ چوری کرنے والا بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے، قانون میں پارٹی سربراہ کیلئے کوئی قدغن نہیں، پارٹی چاہے تو ایسے شخص پر قدغن لگا سکتی ہے۔انہوںنے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنی بصیرت سے قانون پاس کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی پارٹی کا سربراہ رکن اسمبلی بن جائے تو پارلیمانی کمیٹی اس کیخلاف کارروائی کا نہیں کہہ سکتی کیونکہ اصل فیصلہ تو سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک شخص کو عدالت نااہل قرار دے چکی ہے، عدالت ایک شخص کو غیر امین اور غیر ایماندار قرار دے چکی ہے اور ایسا شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ کیا بطور انسان ان کے بنیادی حقوق ختم ہو گئے ہیں، کیا ایسے شخص کے تنظیم سازی اور اظہار رائے کے حقوق ختم ہو گئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسے شخص کے تمام حقوق موجود ہیں لیکن وہ پارٹی کاسربراہ نہیں بن سکتا، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ آئین پارٹی سربراہ بننے پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتا،تاہم عوام ایسے شخص کو منتخب نہیں کر سکتے جس پر آرٹیکل 62 ون کا اطلاق ہوا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قانون کالعدم ہو گیا تو سینیٹ کے امیدواروں کے ٹکٹوں کا کیا ہوگا، کیا سینیٹ کا الیکشن دوبارہ ہوگا، اگر ڈیکلیئر کر دیا کہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تو سینیٹ الیکشن پر کیا اثر ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا قانون کالعدم ہونے پر واک اوور ہوگا کیونکہ جب بنیاد ختم ہوجاتی ہے تو اس پر کھڑا ڈھانچہ بھی گر جاتا ہے، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 کا سیکشن 5 نرالا تھا جسکے ذریعے پارٹی سربراہ کیلئے قدغن لگائی گئی تھی جبکہ سیکشن 5 آرٹیکل 17 اور 19 کی خلاف ورزی تھا، سیاسی جماعت کو اپنا سربراہ منتخب کرنے کی اجازت ہے اورسیاسی جماعت کے اراکین پر اپنی مرضی کا سربراہ منتخب کرنے کی کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔انہوںنے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1)f کا اثر محدود ہے اور اس کا اطلاق صرف اراکین اسمبلی پر ہی ہوتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارٹی سربراہ ہی کسی رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کا کیس الیکشن کمیشن کو بھیجتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کا پابند نہیں ہوتا، اصل فیصلہ سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے اور سربراہ ہی اراکین پارلیمنٹ کو کنٹرول کرتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے کارکن کونااہل کرنے کے اختیار کو محدود کردیا گیا ہے اور اب 18 ویں ترمیم کے بعد پارٹی سربراہ نااہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن کوریفرکرسکتا ہے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کیا پارٹی سربراہ کاپارلیمانی کمیٹی کے کام میں کوئی کردار ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اراکین اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہدایات کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں؟ یہ سیاسی جماعت ہے کوئی کمپنی نہیں کہ قانون کے پیچھے جائے۔ انھوں نے کہا کہ ضروری نہیں، سربراہ رکن اسمبلی ہی ہو لیکن اسکے باوجود وہ اپنے اراکین پارلیمنٹ کوکنٹرول کرتاہے،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کسی سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے اورپارٹی سربراہ کسی رکن کو براہ راست نااہل نہیں کرسکتا ،الیکشن کمیشن نااہلیت کے معاملہ کا جائزہ میرٹ پر لیتاہے،اس وقت الیکشن کمیشن میں 20 ہزار سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، لیکن ہر سیاسی جماعت پارلیمنٹ کا حصہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پارٹی سربراہ کا حکومت سازی میں بھی کوئی کردار ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوایا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی ٹکٹ کون جاری کرتا ہے اور سینٹ الیکشن میں ٹکٹ کس نے جاری کیے ہیں۔ فاضل عدالت نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ( ن) اور پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا فارم بھی طلب کر لیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نمائندے کو عدالت میں پیش ہو کر سینیٹ کیلئے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے حوالے سے تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے کہ 14 ویں ترمیم کتنے وقت میں پاس ہوئی تھی اور کیا بحث ہوئی تھی ، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس ریکارڈ پیش کرے، عدالت نے 1997 میں ہونے والی 14 ویں ترمیم کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ بعد ازاں عدالت نے سلمان اکرم راجہ کو دلائل آج تک مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئےسماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی۔