سوچ سوچ کے خوف آتا ہے۔ ایک ڈھلان پہ پوری قوم لڑھک رہی ہے۔ روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ معاملات خراب ہر طرف سے ہو رہے ہیں۔ انتہا پسندی ہے کہ اس کے سیاہ سائے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں اورمسلسل گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ ایک ذرا سنجیدگی سے جائزہ لیں تو کوئی بھی طبقہ مستثنیٰ نہیں ہے۔ مذہب کے نام لیوا ہوں، لبرل ہوں، وکلا ہوں، اساتذہ ہوں، ڈاکٹر ہوں، پولیس ہوکسی بھی حلقہ کو دیکھیں، سب ہی معقولیت سے دور ہٹتے نظر آرہے ہیں۔ ایسا پہلے شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ ایک معقولیت ہوا کرتی تھی، خیالات کا اختلاف ہوتا تھا، اپنے اپنے نظریات تھے، اگر ان کی کوئی اہمیت تھی تو۔ بحث مباحثہ ہوتا،سب اپنی اپنی بات پر مصر رہتے ۔ نظریاتی اختلافات میں یہ گنجائش کہاں ہوتی ہے کہ لوگ اپنی رائے تبدیل کرلیں۔ ان آرا کا ایک پس منظر ہوتا تھا، تربیت ہوتی تھی، اپنی بات آگے بڑھانے کی لگن ہوتی تھی۔ امنگ ہوتی تھی۔ مقصد سب کا ایک ہوتا، ایک بہتر معاشرے کی تشکیل، تاویلیں ان کی اپنی اپنی ہوتی تھیں۔ ان سب کو معاشرے کے مسائل کے حل نظر آتے۔ کبھی کبھی کچھ چپقلش بھی ہو جاتی۔ مگر معاملات ایک حد سے آگے نہ بڑھتے۔ اور جو جانتے ہیں انہیں اندازہ ہوتا تھابحث و تمحیص کی ایک حد ہے اور کچھ قیود ہیں جن کی پابندی لازمی کی جانی ہے۔
آج کے حالات دیکھیں ، ان کا جائزہ لیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔کسی بھی طرف دیکھ لیں۔ا یک سا عالم ہے۔ کونسا ایسا ادارہ ہے جوتعظیم کے عام معیار پر بھی ماپا جا سکے؟ درست کہ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہو گیا۔ ایک دن میں اتنا بگاڑ نہیں ہوتا۔ خرابی بتدریج ہوتی ہے۔ معاشرے کواس کی گرفت میں آتے آتے وقت لگتا ہے۔ دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں، جہاں ملکوں پر اس طرح کی افتاد آہستہ آہستہ پڑی، مگر بالآخر اس نے ہر طبقہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اور جب نتائج سامنے آئے تو صاف نظر آگیا، کوئی محفوظ نہیں رہا۔
اپنی طرف اطمینان کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ ہر شعبہ میں گراوٹ اپنے عروج پر ہے ،بڑھتی جا رہی ہے، برق رفتاری سے، اور ہر پہلو سے۔ ایک زمانہ تھا، مذہبی طبقہ کی ایک عزت ہوتی تھی۔ انہیں عزت کروانی بھی آتی تھی۔ خرابیاں کہاں نہیں ہوتیں۔ اچھائیاں مگر زیادہ تھیں اور خرابیاں ان میں گم ہوجاتیں، اس طرف کون توجہ دیتا۔ بہت سے تھے جن کی صحبت کے لوگ متمنی رہتے۔ ان کے ساتھ گزارے کچھ لمحے زندگی بھر کا سرمایہ ہوتے۔ اسی طرح دوسرے طبقات تھے۔ اساتذہ تھے۔طلبا کو اپنا بچہ سمجھتے۔ان کا رویہ ایسا ہوتا کہ ساری زندگی یاد رہتے۔ ایک استاد تھے، بھگوان داس۔ ان سے حمایت الاسلام اسکول میں بھی تعلیم حاصل کی، بعد میں جب یونیورسٹی پہنچے وہ وہاں بھی تھے۔ اپنے گھر لے جاتے، ان کی معمر والدہ بچوں کو پاپڑ تل کر کھلاتیں۔ کیا لذیذ پاپڑ ہوتے۔ تعلیم کے ابتدائی دور میں ماسٹر انیس کے یہاں جاتے۔ سارا دن ان کے ہاں گزرتا۔ خوش خوش گھر واپس آتے۔ یونیورسٹی کی ایک معلمہ ، میڈم فاروقی کو ہم سارے دوست اب تک یاد رکھے ہوئے ہیں۔ خیام درانی کی بیٹی کی شادی ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ہوئی۔ انہوں نے اور ان کے شوہر نے رونق بخشی۔ اقبال قاضی، وصی زیدی، جعفر کاظمی اور میںان سے نہایت عقیدت سے ملے۔ انہوں نے اپنے گھر مدعو کیا۔ اس سے کافی پہلے، پرانے دوستوں کے ایک کھانے پر بھی وہ تشریف لائیں۔ پرانے اساتذہ کا تذکرہ ہوتا رہا۔ ایک احترام ان سب کا اب تک ہے۔ خوشگوار یادیں ہمارے ساتھ ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی تھا، کراچی کے محترم اور سینئر وکلا سے روز ہی ملاقات ہوتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین منظور کراتے ہی ہنگامی حالات نافذ کردئیے، اورڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مخالفین کو نظربند کرنا شروع کردیا۔ روز ہی پٹیشنیں داخل ہوتیں۔ بڑے بڑے وکلا دلیلیں دیتے۔ خالد اسحاق، اے کے بروہی، منظور قادر، ناصر اسلم زاہد، راجہ حق نواز، صغیر جعفری، اقبال حیدر، اور بہت سے ماہرین قانون کے نیاز حاصل ہوتے۔ خبریں ان کے دلائل پر مبنی ہوتیں۔ بیچ بیچ میں کبھی کبھی کسی کے دفتر میں دوپہر کو کچوریاں کھائی جاتیں۔ سرکاری وکلا اور مخالفین کے درمیان کبھی ہاتھاپائی نہیں دیکھی، گالم گلوچ کا تو کبھی خیال بھی نہیں آیا۔ آج وکلا سڑکوں پر نکلے ہوتے ہیں۔ ججوں کو مارتے پیٹتے ہیں۔ ہڑتالیں کرتے ہیں۔ عدالتوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ کہاں وہ کہاں یہ۔ وہ اپنے پیشے کی آبرو، یہ اس معزز پیشہ پر کلنک کا ٹیکا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مختلف طبقات میں کشیدگی بڑھتی گئی۔ ذمہ داری کسی پر بھی ڈالی جا سکتی ہے۔ فائدہ اس کا کوئی نہیں۔ ایک غیر ضروری بحث کو ہوا دینا مقصد ہے نہ مناسب۔ سب ہی ذمہ دار ہیں۔ وہ جو تذکرہ ہوا مذہبی گروہوں کا۔ اب ان کو دیکھیں تو بعض کے الفاظ سے گھن آتی ہے۔ گالم گلوچ ہر جملہ کا لازمی حصہ۔ اسلام تو ایک معتدل مذہب ہے، سلامتی کا مذہب۔ اس کی روایات اور تعلیمات میں اس رویہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر آپ پیغمبرِ اسلامﷺ کے ماننے والے ہیں، تو آپ کو جاننا چاہیے حضورؐ کی تعلیمات کا اس رویہ سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایک طرف بعض مذہبی رہنما اپنے مقام کو فراموش کر بیٹھے، دوسری طرف ایک ا ور گروہ کو موقع ملا اور اس نے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔یہ گروہ سول سوسائٹی اور لبرل کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ توقع یہ تھی کہ یہ معقولیت کا ثبوت دیں گے۔ مگر ان کی زبان اور لہجہ دیکھا سنا تو ان میں اور انتہا پسندگروہوں میں کوئی فرق نہیں۔انتہا پسندوں میں وہ پیشہ ورانہ مہارت موجود نہیں ہے جو ان لوگوں کو بوجوہ حاصل ہے۔ ان لبرل اور سول سوسائٹی نے حالات بہتر کرنے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ خراب انہوں نے ضرور کیا۔ سوشل میڈیا پہ ان کے خیالات دیکھیں، حیرانی ہوتی ہے، یہ لبرل ہیں؟ یہ سول سوسائٹی سے وابستہ ہیں؟ لگتا تو نہیں۔ لگ بھی نہیں سکتا۔ جب تک کردار مثبت نہیں ہوگا، رویہ درست نہیں ہوگا، بات گالیوں یا دوسروں کا مضحکہ اڑانے کی ہوگی تو اس کا اثر منفی ہی ہوگا۔ سلمان حیدر کو اس بات پر اعتراض ہے کہ لاہور میں ایک اسپتال کا نام غازی علم الدین شہید کے نام پر کیوں رکھا گیا ہے۔
کیا یہ ایک معقول بات ہے؟ اور اس موقف سے لوگ کیا نتیجہ نکالیں؟ غازی نے توہین رسالتﷺ کے ایک مرتکب کو قتل کردیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کا مقدمہ لڑا، علامہ اقبال نے انہیں لحد میں اتارا۔ سلمان حیدر کو کیا اعتراض ہے؟ انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس نے کہا۔ کون اسے درست مانے گا۔ ہاں اس کے پیچھے اگر کوئی سازش ہے تواس کی کچھ جھلک نظر آتی ہے۔ یہ نہ کریں، میرے بھائی۔ اس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ان لبرل حضرات نے مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو بھی نہیں بخشا۔ مولوی اگر ایک انتہا پر ہے تو یہ دوسری انتہا پر۔ نماز جنازہ میں عورتوں نے مردوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر مذہب کے کچھ اصول ہیں۔ ان کی پابندی لازمی ہے۔ اگر صورت حال بہتر کرنی ہے تو۔ خواتین نے اگر عاصمہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ہوتی تو بھی نماز ہوجاتی، اب بھی ہوگئی۔ مگر ان لبرلوں نے ایک شوشہ چھوڑ دیا۔ مقصد کچھ تو رہا ہوگا۔
اور ادھر، ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے آرزو مند، سب ہی، بلا استثنیٰ ، ایک دوسرے کے بارے میں گالم گلوچ کے بغیر بات ہی نہیں کرتے۔ چور، ڈاکو، لٹیرے، وہ عام الفاظ ہیں جو روز ہی یہ سیاستدان اپنے مخالفین کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کل اگر انہوں نے ملک کا اختیار سنبھال لیا، تو کیا معاملات بہتر ہوں گے؟ جواب کے لئے کوئی فلسفی ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے ملک کو جہاں پہنچا دیا ہے، خرابے کی طرف اس سے مزید آگے لے جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ مزید وقت ہاتھ سے نکل جائے، جو بہ ہرحال کسی کا انتظار نہیں کرتا، اپنی انائوں کو دفن کردیں، مل بیٹھیں اور انتہائی سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لیں۔ ان حالات سے جلد از جلد نکلنا ہی قوم کے حق میں بہتر ہے۔کل بس ہاتھ مَلنے کا وقت رہ جائے گا، وہ بھی اگرمِلا، اور کسی نے ہاتھ مَلنے دئیے تو۔