(دسویں قسط)
دورفاروقی میں بیت المقدس کی فتح
سیدنافاروق اعظمؓ کے دور میںکفر وشرک میں ڈوباہوا کرہ ارض اسلام کے نور سے منورہورہاتھا شدہ شدہ نور ربانی کی کرنیں یروشلم پربھی پڑنی شروع ہوگئیں جو اس وقت ملک شام کا ایک حصہ تھا اسلامی افواج شام و عراق کو فتح کرتی ہوئی یروشلم پہنچ گئیں، یہاں رومیوں کی حکومت تھی چنانچہ دربار خلافت سے ان مشرکین کی سرکوبی کیلئے ایک خصوصی لشکرامین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کی کمان میں شام اورالقدس بھیجا گیا ان کی اعانت کیلئے دوسرا لشکرحضرت عمرو بن عاص ؓ، تیسرا لشکرحضرت امیر معاویہ کے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اور چوتھا لشکر حضرت شرحبیل بن حسنہ کی قیادت میں پہنچا اوران چاروں لشکروں نے پورے شہر کامحاصرہ کرلیا ۔ جوچھ ماہ تک جاری رکھا۔ جس سے تنگ آکر رومی گورنر نے لاٹ پادری صفر یانوس کے مشورہ سے کہامیں امیرالمومنین کوچارج دینے کیلئے تیار ہوں اگر وہ خود تشریف لائیں ،تب حضرت عمرخود یروشلم تشریف لے گئےیہ بھی کہا جاتاہے کہ لاٹ پادری صفریانوس نے پہلی آسمانی کتابوں میں فاتح بیت المقدس کی صفات پڑھی تھیں اوراسے امیرالمومنین کی ذہانت و فطانت شجاعت وریاضت کی خبریں برابر مل رہی تھی ۔اس نے اپنی کتاب کی پیشگوئیوں کے سچ کو آزمانے کی خاطریہ شرط عائد کی تھی کہ اگر امیرالمومنین عمرفاروقؓ بنفس نفیس تشریف لائیں تو القدس ان کے حوالے کرنے کوتیارہیں حضرت امیرالمومنین نے اب تک بیرونی دنیا کا کوئی سفر اختیار نہیں کیاتھالیکن بیت المقدس کی خاطر انہوں نے یہ بھی گوارا کرلیااورمختصر ساقافلہ لیے آپ اس سفر پرروانہ ہوگئے ۔آٹھ سو میل کاسفر طے کرنے کی وجہ سے ان کے کپڑے میلے ہوگئے تھے۔کرتے پر متعدد پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپ کے استقبال کو آنے والے اجل صحابہ نے عرض کیاکہ بادشاہوں والی پوشاک زیب تن کرلیجئے لیکن حضرت عمرؓ فاروق نے یہ کہہ کران کی درخواست مسترد کردی کہ اللہ نے ہمیں عزت اسلام کی وجہ سے عطا کی ہے شاہانہ ملبوسات کی وجہ سے نہیںلاٹ پادری صفریانوس اورعمائدین روم نے یروشلم آمد پر امیرالمومنین کا استقبال کیا۔ اور سابقہ آسمانی کتب میں میں فاتح بیت المقدس کی بیان کردہ نشانیاں پوری دیکھ لیں ۔تو سر نڈر کردیااور یروشلم کی چابیاں آپ کے حوالے کردیںاور عیسائی عوام اور ان کی عبادتگاہوں کیلئے امن طلب کی ۔ آپ نے بتادیاکہ اسلام میں کسی غیرمسلم کی عبادتگاہ کو بلا وجہ منہدم کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔لیکن اس کا اصرار ہوا کہ ہمیں امان نامہ لکھ کردیاجائے تو امیرالمومنین نے وہ معاہدہ تحریر کردیا جسے العھدۃ العمریہ کہا جاتا ہے۔ (اس کی نقل مسجد عمر پر نصب ہے)اس دستاویز پر بطور گواہ تاریخ اسلام کے عظیم کمانڈر وں سپہ سالار اعظم حضرت خالد بن ولید،حضرت عمرو بن عاص اور علاقہ شام کے گورنرحضرت معاویہ بن ابی سفیان، اور یکے از عشرہ مبشرہ مشہور صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین کے دستخط ہیں ذرا ان اسماء گرامی پر ایک بار پھر نظر ڈالیے اور امیرالمومنین عمر بن خطاب کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی پر غور کیجیے کہ اس اہم دستاویز پر کس کس کے دستخط لیے گئے اور کیوں اس معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ تمہاری کنیسائوں اور عبادت گاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ تمہاری جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ اس زمانے میں یہود یوںکا یہاں کوئی نمائندہ تھا، نہ لوگوں میں ان کا اثر و رسوخ، لیکن فاروق ؓاعظم نے ان کی غیر موجودگی میں بھی انہیں شریک معاہدہ کرلیا حالانکہ رومیوں کی طرف سے یہود پر پابندی تھی کہ وہ بیت المقدس کی صرف زیارت کرسکتے ہیں یہاں مقیم نہیں ہوسکتے لیکن حضرت عمرفاروقؓ نے انہیں رہنے کاحق دے دیا۔یہ دستاویز اسلامی رواداری، عفو و درگزر، مروت اور رحم دلی کی تابناک مثال ہے ۔اسی دوران میں جب نماز کا وقت آیا تو لاٹ پادری صفریانوس نے مشورہ دیا کہ آپ چرچ ہی میں نماز پڑھ لیں لیکن آپ نے وہاں نماز ادا کرنے سے انکار کردیا کہ مبادا بعد میں مسلمان اس چرچ پر اپنا حق جتائیں کہ امیر المومنین نے یہاں نماز ادا کی تھی اور باہر نکل کر اس جگہ نماز ادا کی۔
ایک حیران کن حقیقت
دور فاروقی سے لے کر اب تک اس چرچ کی چابیاں ایک مسلمان خاندان کے پاس ہیں۔ ہوا یوں کہ امیرالمومنین کی دانشمندی اور دور اندیشی کو دیکھتے ہوئے لاٹ پادری صفریانوس نے کلیسا کی چابیاں بھی حضرت عمر فاروق ؓ کو پیش کردیں۔آپ نے ان کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اس کی چابیاں مدینہ سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم خاندانی شخص کو دے دی گئیں اور انہیں پابندی سے کلیسا کو کھولنے اور بند کرنے کا حکم دیا۔ جس طرح حرم اقدس بیت اللہ کی چابیاں اسی خاندان عتیبی کے پاس ہیں، جس کو خاتم النبین ﷺ نے عنایت فرمائی تھیں ، اور آج تک بیت اللہ کے کلید بردار وہی ہیں، اسی طرح آج تک اس کلیسا ( کنیسۃ القیامہ)کی چابیاں بھی اسی مسلمان خاندان کے پاس ہیں جن کو حضرت عمرفاروق ؓ نے عطا کی تھیں ۔ وہ روزانہ آ کراس کو کھولتے اورشام کو وہی بند کرتے ہیں۔ یروشلم میں مقیم عیسائیوں کے سات فرقے ہیں اور ان کے آپس میں شدید اختلافات ہیں کہ وہ اس اہم چرچ کی چابیاں اپنے کسی فرقہ کی بجائے مسلمانوں کے قبضہ میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔چرچ کے باہر والی دیوار کے چھجے پر ایک سیڑھی نظر آتی ہے۔ چھوٹی سی یہ ساڑھے چار سو سال سے پڑی ہوئی ہے کوئی بھی اسے ہٹانہیں سکتا کہ کہیں دوسرے فرقے والے اس پر ہنگامہ نہ کر دیں۔ اور کلیسا کی اصل چابی ایک مسلمان کے پاس ہے وہی اس چرچ کو کھولتااوربند کرتا ہے ۔ میں چاہتاتھا کہ اس خاندان کے کسی فرد سے ملاقات ہوجائے تو اس سے مزید معلومات لوں لیکن وقت کی قلت کے پیش نظر ایسا ہو نہ سکا۔جہاں اس وقت مسجد عمر ہے۔ اس وقت یہ جگہ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے صاف کرواکے نمازادا کی تھی ۔ کچھ عرصہ بعد عبدالملک بن مروان نے اس جگہ کی نشاندھی کیلئے لکڑی کاڈھانچہ بنادیاجبکہ 1193ء میں اس واقعہ کی یاد میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے افضل بن صلاح الدین نے ایک مسجد تعمیر کروائی جس کا نام مسجد عمر ہے ۔جس کی مکمل تزئین عثمانی سلطنت کے سلطان عبدالمجید نے اپنے دور میں کی اب وہ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد کی شکل میں موجود ہے ۔فتح و کامیابی، طاقت اور حکومت کے باوجود صحابہ کرام اور سلف صالحین نے مغلوب اور محکوم قوموں کے ساتھ کتنا رحمدلانہ سلوک کیا اس کی ایک تابناک مثال یہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی غیر مسلم حضرت عمر بن خطاب ؓ کا اسم گرامی عقیدت و احترام سے لینے پر مجبور ہیں۔کہنا یہ چاہتاتھا کہ کنیسۃ القیامۃ بھی حضرت امیر المومنین عمر فاروقؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی اور بے شماردوسرے بہادرجرنیلوں کی دریادلی کی وجہ سے محفوظ جارہاہے ۔اگروہ اسے منہدم کردیتے اورعثمانی خلیفہ سلطان القانونی نے بیت المقدس کے گرد اتنی اونچی دیوارتعمیرکی جس سے بیت المقدس کا144ایکڑ رقبہ محفوظ ہوگیاورنہ اب تک یہ نام کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوتا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح اور حسن سلوک
مسلمانوں کاتو ان عیسائیوں اوریہودیوں کے ساتھ یہ حسن سلوک اور اس کے مقابل میں ان لوگوں کی بدعہدیاں عجیب الجھن میں ڈال دیتی ہیں ۔ انہوں نے جب بھی موقع ملا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کے تمام طریقے روا رکھے اور مسلسل روا رکھے ہوئے ہیں اسلامی تاریخ کے دور عروج کے بعدجب حکمرانوں کی گرفت ذرا سی ڈھیلی پڑی تو یروشلم کے عیسائیوں نے بغاوت کردی۔ اور چار سو سال تک جنگ اور بدعہدی کی فضا قائم رکھی ۔ اور پھر رومی حکومت اور اس کی تمام حلیف یورپین طاقتیں یروشلم کے عیسائیوں کی پشت پر اکٹھا ہوگئیں ۔صلیبی جنگوں کے حوالے سے عیسائیوں کی تاریخ بہت تاریک ہے ،1099میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران یہ شہر عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا جنہوں نے ہزاروں مسلمانوں کا اس بیدردی سے خون بہایا اور یہودیوں کو بیدخل کردیا ،گنبدصخراء پر صلیب نصب کردی اور صحن بیت المقدس میں مسلمانوں کو قتل کرنے کیلئے چار صلیبیں مزیدنصب کردیں مصلی مروانی میں پناہ لینے والے کم وبیش ستر ہزار بے گناہ مسلمانوں کو ذبح کرڈالااور قتل و غارت کا یہ کھیل نوے سال تک عیسائیوں نے جاری رکھا خود عیسائی مورخین بھی اس مرحلہ پر خون کے آنسو روتے ہیں کہ بے گناہ مسلمانوں کے خون میں گھوڑوں کے سم ڈوب رہے تھے آج بھی اس حقیقت کے نشان بیت المقدس کے مغربی حصے میں دیکھے جا سکتے ہیں دائود محل کے باب الداخلہ پر مسجد اقصیٰ کے مرکزی دروازہ پر گولیوں کے کثیر نشانات یہودیوں کی حالیہ بربریت کی گواہی دے رہے ہیں۔ مگر میڈیا جب مسلمانوں کا تذکرہ کرتا ہے تو ایسی تصویر پیش کرتا ہے گویا یہ خونخوار اور ظالم قوم ہے، یہود و نصاریٰ امن کے رکھوالے۔ کہ برعکس نہد نام زنگی کافورلیکن مسلسل سولہ جنگوں اور ہلا ل و صلیب کی مسلسل کشمکش کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے2اکتوبر 1187کو بیت المقدس پر فتح کا جھنڈا لہرا دیا تو قابضین عیسائیوں ہی کے حق میں سلطان کی رحمدلی تاریخ میں ایک عنوان بن گئی۔ دور فاروقی کی فضا رحمدلی، ہمدردی روادی اور غیرمسلم اقوام کے حقوق کی ادائیگی دوبارہ پیدا ہوگئی ۔پھر اس چرچ کے بارے بھی انہیں مشورہ دیا گیا تھاکہ اسے دیگر عیسائی مقامات کے ساتھ مٹادیاجائے کیونکہ یہی فساد کی جڑ ہے لیکن سلطان کا ارشاد تھا کہ جو کام امیر المومنین سیدنا عمربن خطاب ؓنے نہیں کیاوہ میں بھی نہیں کر سکتا مسلمان جرنیلوں کی رحمدلی روایات کے مطابق سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہودیوں کو طلب کیااور شہر میں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دی (جس کے نقصان کا خمیازہ مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں)سلطان صلاح الدین نے اس چرچ کو محفوظ قرار دے دیا ۔بلکہ اس کی حفاظت کاپکاپکاانتظام کردیا اس کے شمال میں صلاح الدین کا صدر مقام تھا جو آج بھی چند گزکے فاصلے پر خانقاہ سلطان کے نام سے موجود ہے ۔ اس چرچ کے چند گزبعد وہ جگہ ہے جہاں حضرت عمرالخطابؓ نے نمازادا کی تھی اب وہ چھوٹی سی مسجد ہے اور دائیں طرف مسجد اقصی ہے مغربی جانب ایک چھوٹی سی مسجدہے گویاچہارطرف سے اس چرچ کو مسلمانوں کے مقدس مقامات کے درمیان ایسے محفوظ کردیاگیا ہے ۔جیسے وہ سب اس کے نگران ہوں، تاریخ میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں مسلمانوں کی اس رحمدلی کے مقابلے میں یہودیوں اور عیسائیوں کی سنگدلی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مسلم قائدین نے یہ غلطی کی اور بار بار کی حالانکہ قائد اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاسکتا تواس ارشاد نبوی کو بنیاد بنا کرکم ازکم سلطان صلاح الدین کو اپنے کمانڈروں کی بات مان لینا چاہئے تھی اور اس شہر اسلام کو ان کے شر سے پاک کردینا چاہئے تھا اگر ایسا کیا جاتا توآج وہاںاہل فلسطین عیسائیوں ( امریکہ و یورپ) کی سازش اوریہودیوں کی چیرہ دستی سے محفوظ ہوتے۔ اور برصغیرکے مسلم بادشاہوں نے اگر اسلام کی صحیح تعبیر رنگا رنگ مذاہب و مسالک کی بجائے خالص قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کی ہوتی تو ہندوستان کانقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور سارا برصغیر پاک ہوتا تھا۔اس سب کے باجود عیسائیوں کواب تک اسلام اور مسلمان قائدین کی اس رحمدلی اور عظمت کااحساس نہیں ہو رہا ہمیشہ یہ یہودیوں کیساتھ مل کر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پہ تلے ہوئے ہیں موجودہ امریکی صدر بھی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہا بلکہ اپنی بیٹی کے سسرالیوں (یہودیوں ) کیلئے مراجارہاہے حالانکہ اسلام جیسا رحیم وکریم کوئی مذہب ہے نہ مسلمانوں جیسی نرم دل اور احسان کرنے والی کوئی امت۔