کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کو مقدم کرنیوالی قانون سازی کی جانی چاہئے ، قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے، آئین کے تین ستونوں میں پارلیمنٹ کا کردار واضح کرنا چاہتے ہیں،پاکستان میں کئی بار جمہوریت پر شب خون مارا گیا، ماضی میں جمہوری حکومتوں کو ڈیڑھ یا ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا، تاریخ میں پہلی دفعہ جمہوریت تسلسل کے ساتھ اپنے دس سال مکمل کرنے جارہی ہے، نواز شریف کو ایسے فیصلے پرنااہل کیا گیا جسے مخالفین بھی کمزور فیصلہ مان رہے ہیں، ایسی قانون سازی ہونی چاہئے کہ اس طرح کے فیصلے نہیں آئیں، منی لانڈرنگ سے الزامات شروع ہوئے اور اقامہ پر وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا، نواز شریف جس پر ہاتھ رکھتے ہیں وہ وزیراعظم بنتا ہے، ہماری تحریک کا مقصد ووٹ کے تقدس کا احترام بحال کروانا ہے، وزیراعظم نے خود کہا اب امپائرکی انگلی کے اشارے پر پاکستان کی قسمت کے فیصلے نہیں ہوں گے،پارلیمنٹ کو جس کا جو دل چاہتا ہے بول دیتا ہے کیا پارلیمنٹ کی عزت نہیں ہے، پارلیمان کو مقدم کرنے والی قانون سازی کی جانی چاہئے،وہ قانون سازی ہو جوبار بار پاکستان کا آئین توڑنے والوں کو سزا دے، پرویز مشرف کو بیرون ملک نہیں بھیجنا چاہئے تھابلکہ انہیں سزا ہونی چاہئے تھی، پرویز مشرف سے ڈی چوک میں سوال ہونا چاہئے تھا، بائیس کروڑ عوام میں کوئی ایسا شخص ہے جو آئین توڑنے والوں کیخلاف بھی فیصلہ سنائے، پرویز مشرف ریڈ وارنٹ جاری کر کے واپس بلا کر عدالت میں پیش کیا جانا چاہئے، یہ بات صرف بیانیہ تک نہیں بلکہ ایکشن سے ہونی چاہئے، پیمرا آرڈیننس اور آئین میں عدلیہ اور افواج پاکستان کو تحفظ دیا گیا ہے،پارلیمنٹ کو بھی اسی آئین کے مطابق تحفظ دینا چاہئے، تحریک عدل خود ایک فریم ورک ہے، نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کیلئے پارلیمان کی قانون سازی پر اعتراض اٹھائے جارہے ہیں، اس وزیراعظم کوبھی تحفظ ملنا چاہئے جسے پاکستان کی عوام منتخب کرتے ہیں، ن لیگ ان لیگل فریم ورک پر قانون سازی دیکھ رہی ہے جو اس طرح کے فیصلوں سے پاکستان کے وزیراعظم اور پارلیمان کومحفوظ کرے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کے پچھلے چھ سات سال کے فیصلوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیخلاف شیخ رشید کی اپیل پر سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں آنا چاہتے، ایسے معاملات کے فیصلوں سے پاکستان کی دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی ہے،سیاستدانوں نے اپنی آپسی لڑائی میں عدلیہ کو شامل کیا،عدلیہ اب شدید متنازع ہوتی جارہی ہے عدلیہ کو پارلیمنٹرینز کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں تھا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17کے مطابق کوئی بھی شخص کسی پارٹی کا ممبر بن سکتا ہے یا کوئی پارٹی بناسکتا ہے، کوئی بھی شخص میں یہ شرط نہیں کہ اس شخص کیخلاف کوئی کیس نہ ہو یا فوجداری سزا نہ ہو، سزا یافتہ افراد ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں، نااہلی کی شقوں میں واضح لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو سزا ہوجاتی ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا، اگر وہ عدالت کی توہین کرتا ہے تو بھی اس کی نااہلی ہوسکتی ہے، اگر اسپیکر قومی اسمبلی کسی شخص کے صادق اور امین ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں تو اسے نااہل قرار دینے کا اختیار عدلیہ کو نہیں چیف الیکشن کمشنر کو ہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر کوئی قدغن ہے، نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے سے متعلق نئی ترمیم آئین کے مطابق ہے، اگر پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کردیتی ہے کہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تو پھر یقیناً نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکے گا۔ عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس لارجر بنچ بنا کر پچھلے سات آٹھ سال میں دیئے گئے فیصلوں پر نظرثانی کرسکتے ہیں، عدالت اپنی درستگی کرلیتی ہے تو اداروں میں ٹکراؤ کی صورتحال کا باعث بننے والا ڈیڈ لاک ختم ہوجائے گا، پارلیمنٹ بھی قانون سازی کے ذریعہ پچھلے سات آٹھ سال کے آئین کے خلاف فیصلوں کو خلاف آئین ظاہر کردے تو وہ فیصلے خودبخود ختم ہوجائیں گے، پارلیمنٹ ایک سادہ قانون کے ذریعہ ان تمام فیصلوں کے consequences بھی undo کردے تو اس سے بھی ممکنہ تصادم کا خطرہ ٹل جائے گا۔میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ قانون سازی کا اختیار کس کو ہے، عدلیہ اختیار سے تجاوز کررہی ہے یا پھر پارلیمنٹ اپنی آئینی حدود سے آگے بڑھ رہی ہے، ملک میں اب ایک نئی بحث نے جنم لے لیا اور یہ بحث نئے تنازع کی طرف بڑھ رہی ہے، پیر کو پارلیمنٹ میں عدلیہ کے کردار پر کھلی بحث ہوئی۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کہہ رہی ہے آئین بنانا اس کا اختیار ہے اسے قانون سازی کیلئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین سے ہٹ کر کوئی اختیار حاصل نہیں،یہ تو اداروں میں جنم لینے والا تنازع ہے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں بھی میدان میں ہیں، مسلم لیگ ن معاملہ کو پارلیمنٹ میں لے آئی ہے، پارلیمنٹ میں عدلیہ کے کردار پر بحث ہورہی ہے اور عدلیہ کی طرف سے جواب آرہا ہے، بہرحال اس وقت ملکی سیاست پر عدالتی ریمارکس، عدالتی فیصلوں اور عدلیہ کے کردار کی باتیں کی جارہی ہیں، نواز شریف سمجھتے ہیں کہ عدلیہ آزاد نہیں وہ عدل کو بحال کروائیں گے جبکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ نواز شریف عدلیہ پر دبائو ڈال رہے ہیں اور وہ عدلیہ کو اس دبائو سے بچائیں گے،واضح ہورہا ہے کہ دونوں کی انتخابی مہم کا سب سے اہم نعرہ عدلیہ سے متعلق ہی ہوگا، اب یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ کون کس کے کام میں مداخلت کررہا ہے، پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ عدلیہ اختیارات سے تجاوز کررہی ہے جبکہ عدلیہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ آئین کے تحت کام کررہی ہے، اس معاملہ پر منگل کو بھی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پارلیمنٹ سمجھتی ہے کہ اداروں کا اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ملکی مفادات کیلئے فائدہ مند ہوگا جبکہ مداخلت کی صورت میں پاکستان کمزور ہوگا، خود سابق وزیراعظم نواز شریف بھی سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوگیا ہے، موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں کہ انتظامیہ مفلوج ہے لوگ کام نہیں کرتے کیونکہ انہیں باز پرس کا ڈر ہوتا ہے، مگر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ وہ تو خود مفلوج ہے، نواز شریف کے اسی بیان پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ ہم نے مفلوج کیا ہوا ہے مگر انہیں نہیں پتا وہ خود ان کی وجہ سے کتنے مفلوج ہیں، چیف جسٹس نے ایک بار پھر واضح کیا کہ قانون سازی پر نظر رکھنا ان کی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ کو آئین سے ہٹ کر قانون سازی کی اجازت نہیں،پیر کو پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے واضح کیا کہ نواز شریف خودکش حملہ کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عمارت ہی تباہ ہوجائے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بھی ٹوئٹ میں یہی بات کہی، بلاول بھٹو نے لکھا کہ شریف خاندان پھر سے یہ چاہتا ہے کہ عدلیہ وہ فیصلے دے جو شریف خاندان انہیں بتائے، ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے، وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان بدل چکا ہے، ہم اس قسم کے حملوں اور ہماری عدلیہ کو بلیک میل کرنے کے عمل کو برداشت نہیں کریں گے، تحریک انصاف نے بھی واضح کردیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے ذریعہ عدلیہ پر حملے کی کوشش کی گئی تو سڑکوں پر نکل آئیں گے، عمران خان عدلیہ کی حمایت میں میدان میں اترنے کو تیار ہیں، صاف محسوس ہورہا ہے کہ انتخابی مہم کا یہ سب سے اہم نعرہ ہوگا کیونکہ نواز شریف پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ عدلیہ انہیں نااہل قرار دینے کے بعد پارٹی صدارت سے بھی ہٹانا چاہتی ہے، نواز شریف عوام سے اپیل کرچکے ہیں کہ انہیں اتنے ووٹ دیں کہ وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر ان فیصلوں کو ٹھیک کرسکیں، نواز شریف پہلے ہی ووٹ کے تقدس اور عدل کی بحالی کی تحریک کا اعلان کرچکے ہیں، لودھراں اور شیخوپورہ میں ہونے والے جلسوں میں ان کی تقاریر نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ انتخابی مہم عدلیہ اور عدالتی فیصلے کے خلاف ہی چلائیں گے، عمران خان نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ عدلیہ کے تحفظ کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ2013ء میں انتخابی مہم کا نعرہ لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی سے نجات کا تھا مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کا نعرہ عدلیہ کے اردگرد گھومے گا مگر کیا پاکستانی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ عدالتی فیصلے ہیں، کیا یہ وہ نعرے ہیں جس کی بنیاد پرا نتخابات لڑکر عوام سے ووٹ لیا جائے، کیا حقائق یہی بتاتے ہیں، گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے سروے کے نتائج کچھ اور بتارہے ہیں، جنگ، جیو اور دی نیوز نے گیلپ اور پلس کنسلٹنٹ کے اشتراک سے سروے کروایا ، سروے میں پوچھا گیا کہ ان کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو عوام کی اکثریت نے بیروزگاری اور مہنگائی کو بڑا مسئلہ قرار دیا، گیلپ پاکستان کے نتائج کے مطابق بائیس فیصد افراد کے نزدیک بیروزگاری جبکہ اکیس فیصد افراد مہنگائی کو بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں، چودہ فیصد افراد نے کرپشن جبکہ آٹھ فیصد نے بجلی کے بحران کو اہم مسئلہ قرار دیا، سات فیصد نے دہشتگردی اور تین فیصد نے ناخواندگی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا\\۔