سانحہ قصور کے حوالے سے عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تیز ترین انصاف دیکھنے میں آیا ہے۔ معصوم زینب کے مجرم عمران کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں تیزی سے سماعت مکمل کرکے سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ایک قابل تحسین فیصلہ ہے۔ اس سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ ننھی بچیوں پر ظلم میں ملوث درندہ صفت افرادکسی بھی قسم کی معافی کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے خلاف حکومت کو سخت قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ ایسے روح فرسا اور افسوسناک واقعات رونما نہ ہوسکیں۔ اس ضمن میں میڈیا اور سوسائٹی کو بھی اپنا کردار اداکرناپڑے گا۔ میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز میں ایسے پروگرام نشر کرنے سے احتراز کرنا چاہئے کہ جس سے نوجوان نسل کے اخلاق تباہ ہوں۔ بعض ٹی وی چینلز کے پروگرامات اس قدر لغو اور غیراخلاقی ہوتے ہیں کہ وہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے بھی نہیں جاسکتے۔ میڈیا کے ذریعے بچوں اور خواتین کی اسلامی خطوط پر تربیت کا بھی اہتمام ہونا چاہئے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ننھی زینب کے قاتل عمران کا ٹرائل کم ترین وقت میں مکمل کیا گیا۔ اگر دیگر مقدمات میں بھی ہماری عدالتیں یہی روش اپنائیں تو عوام کو جلد انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کے نظام عدل پر سوالیہ نشان بھی لگ گیا ہے۔ آخر کیوں ہماری عدالتوں میں کئی سالوں سے زیرالتوا مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوپاتا؟ ننھی زینب کے والدین کی خواہش ہے کہ مجرم عمران کو سرعام اسی جگہ پر پھانسی دی جائے جہاں اس نے ان کی بیٹی کو قتل کیا تھا۔ اس درندہ صفت انسان کو سرعام پھانسی پر لٹکانا چاہئے اور اسے عبرت کی مثال بنانا چاہئے۔اسی طرح قصور میں اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں بچوں کی ویڈیوز بنانے کے مقدمے میں ملوث ملزموں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ان گنت ایسی بچیاں ہیں جن کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا۔ ان مظلوم افراد میں کراچی کی17سالہ طالبہ سمیرا بھی شامل ہے، جسے کراچی سے اغوا کرکے پنجاب کے علاقے منڈی بہائوالدین لایا گیا۔ جرائم پیشہ افراد نے اُسے اغوا کیا اور بعدازاں اُس کا بہیمانہ قتل کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کون کررہا ہے؟ کیا پنجاب پولیس ایسے عناصر کو روکنے میں بے بس ہوچکی ہے؟ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف جوکہ اپنے آپ کو خادم اعلیٰ بھی کہتے ہیں اُنہیں منڈی بہائوالدین میں قتل ہونے والی کراچی کی طالبہ سمیرا کے افسوسناک واقعہ پر بھی حرکت میں آنا چاہئے اور ملزمان کو گرفتار کرکے مقتولہ کے اہل خانہ کی داد رسی کرنی چاہئے۔ اسی تناظر میں مجھے قتل ہونے والی طالبہ سمیرا کی والدہ نے دکھی دل کے ساتھ اپنا خط بھجوایا ہے جوکہ نذرقارئین ہے۔
محترمی و مکرمی محمد فاروق چوہان صاحب!
کالم نگار‘روزنامہ جنگ!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!
میں اپنے خط کے توسط سے آپ کے سامنے اپنا دکھ بیان کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے کالم کے ذریعے انصاف کی فراہمی کے لئے میری مدد کریں گے۔ میری17 سالہ نویں جماعت کی طالبہ مقتولہ بیٹی سمیرہ18 اپریل،2015 کو TCF اسکول سعیدآباد میں امتحانات کا پرچہ دینے گھر سے نکلی اور واپس گھر نہیں لوٹی۔ اس کی تلاش میں ناکامی کے بعد تھانہ مدینہ کالونی، سعیدآباد (بلدیہ ٹائون، کراچی) میں سمیرا کے اغوا کی F.I.R. No. 90/2015 درج کرائی۔ اغوا کے واقعہ کو 15 دن ہوئے تھے کہ موبائل فون سے سمیرا کا فون آیا، میری بیٹی نے مجھے بتایا کہ میں ایک بڑی حویلی میں قید ہوں۔ یہاں پر کوئی عورت نہیں ہے صرف اسلحہ بردار مرد ہیں۔ بیٹی کا فون بند ہونے کے فوراً بعد میں تھانہ مدینہ کالونی گئی اور تفتیشی افسر کو فون نمبر دیا ۔ جس کے بعد تفتیشی افسر نے اس نمبر کا ایڈریس نکلوا کر مجھے دیا اور کہا کہ آپ کی بیٹی بہت گندی جگہ پہنچ گئی ہے فوراً وہاں جا کر اسے بچا لیں۔ جس کے بعد میں پولیس کے دیئے گئے ایڈریس پر کراچی سے منڈی بہائوالدین پہنچی جہاں پر میں نے دیکھا کہ وہاں سب مرد ہی مرد ہیں اور سب کے پاس اسلحہ ہے۔ کچھ دیر بعد میری بیٹی سمیرا کو میرے سامنے لایا گیا۔ میری بیٹی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ امی یہاں سے چلی جائیں ورنہ یہ لوگ آپ کو بھی قید کردیں گے۔ جس کے بعد وہاں موجود چوہدریوں نے مجھے ڈرایا دھمکایا کہ یہاں کسی تھانہ میں نہ جانا، یہاں ہمارے اپنے تھانے ہیں جس کے بعد میں واپس کراچی آگئی اور تھانہ مدینہ کالونی کے ڈیوٹی افسر کو تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا۔ ڈیوٹی افسر نے کہا کہ آپ 3 لاکھ روپے کا انتظام کرلو ہماری ٹیم کے وہاں جانے کے اخراجات آتے ہیں جس پر میں مایوس ہوکر گھر چلی آئی۔ پھر مجھے پولیس کے ذریعے اطلاع ملی کہ انشال ولد طارق محمود، جس نے میری بیٹی کو اغوا کیا تھا، نے میری بیٹی سے کورٹ میرج کی ہے جبکہ میری بیٹی کو سامنے نہیں لایا گیا اور نہ ہی مجھے کورٹ میں پیش کیا گیا ۔ انشال سے میری بیٹی کا جعلی نکاح کرایا گیا تھا۔ پھر جعلسازی کے ساتھ میرے دستخط کرکے میری بیٹی کے اغوا کی ایف آئی آر نمبر 90/2015 ختم کردی گئی۔ مورخہ 4 مارچ، 2016 ء کو میرے پاس میری بیٹی کے انتقال کی اطلاع پہنچی اور میں نے ایک مرتبہ پھر تھانہ مدینہ کالونی میں تفتیشی افسر کو آگاہ کیا اور بتایا کہ آپ میری بیٹی کو اس کی زندگی میں بازیاب نہیں کراسکے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہی اس کو قتل کردیا گیا جس پر اس تفتیشی افسر نے کہا کہ آپ پنجاب چلی جائیں یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے۔ میں نے ساہیوال میں اپنے قریبی عزیزوں سے رابطہ کیا جس پر ساہیوال میں موجود میرے عزیز منڈی بہائوالدین میں انشال کے گھر گئے ۔ انشال نے پہلے لاش دینے سے انکار کیا بہت مشکل سے لاش حوالے کی تو میری بیٹی کے منہ اور ناک سے خون بہہ رہا تھا اور جسم پر سگریٹ سے داغے جانے اور تشدد کے نشانات تھے۔ چونکہ میں غم سے نڈھال تھی اور اپنے عزیزوں سے کہا کہ اس کا پوسٹ مارٹم کروالیں مگر میرے عزیزوں نے کہا کہ عزت کا معاملہ ہے اللہ پر چھوڑدو اللہ ان ظالموں کو خود سزا دے گا۔ میری بیٹی کی لاش اس قابل نہیں تھی کہ میں اسے کراچی لاتی اس لئے لاش کو ساہیوال میں ہی دفن کردیا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور پچھلے برس اپریل،2017 میں سمیرا کے پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے قبر کشائی کی گئی۔ مگر میری بیٹی کے قاتل اس قدر بااثر ہیں کہ مجھے اب تک پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے رپورٹس نہیں دی گئی ہیں۔ تمام تر صورتحال سے تفتیشی افسر کو آگاہ رکھنے کے باوجود میں آج تک انصاف سے محروم ہوں۔ جناب عالی، میری بیٹی سمیرا کو اغوا کیا گیا، اس کی بے حرمتی کی گئی، اسے قتل کیا گیا۔ سمیرا کو اغوا کرنے والا گروہ انتہائی بااثر ہے جو نوجوان لڑکیوں کے اغوا میں ملوث ہے۔ میں اب تک چند باضمیر لوگوں کی مدد سے اپنی بیٹی کو اغوا اور قتل کرنے والے درندوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے جدوجہد کررہی ہوں۔ میں اپنی بیٹی کے قاتلوں کو کیفر کردار پہنچا کر قوم کی لاکھوں، کروڑوں کمسن بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہوں۔ شاید اس طرح میری مامتا کو تسکین مل جائے اور مجھے صبر آجائے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ سمیرا کے اغواکاروں اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے میری مدد کریں۔ میری استدعا ہے میری بیٹی سمیرا کی پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ دی جائے، سمیرا کے اغوا کی ایف آئی آر ری اوپن کی جائے، قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے اور اغوا اور قتل میں ملوث نامزد ملزمان اور دیگر افراد کو گرفتار کرکے عبرتناک سزا دی جائے۔
والسلام۔ حمیرہ بی بی والدہ سمیرا۔ بلدیہ ٹائون، کراچی۔