کرپشن کا خاتمہ ٹارگٹ نہیں بلکہ ایک مسلسل پراسس ہوتا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کرپشن کو جواز بنا کر مقننہ کی تذلیل نہیں کی جاتی،مگر بدقسمتی سے آج پاکستان میں ایسا ہی ہورہا ہے۔جو کام پہلے طاقت کے ذریعے کیا جاتا تھا ،آج قانون کے ذریعے کیا جارہا ہے۔پہلے ملک کی سیاسی ایگزیکٹو (Political Executive)کو بے بس کیا گیا اور اب پاکستان کی انتظامی ایگزیکٹو (Operational Executive)نشانے پر ہے۔ترقی پذیر معاشرے میں غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کا رہنا بہت مشکل ہوتا ہے اور احد چیمہ غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔پاکستان کو اندھیروں سے نکالنے میں احد چیمہ کی گراں قدر خدمات بھلالی نہیں جاسکتیں اور ہم نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا، افسوس صد افسوس۔
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
احد چیمہ سے آج صرف چند لاکھ کی زرعی زمین خریدنے کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ایک ایسی زرعی زمین جس کو احد چیمہ نے اپنے ٹیکس ریٹرن اور اثاثہ جات کے فارم میں چار سال قبل خود ظاہر کیا تھا۔بھلا کوئی کرپشن کے پیسے سے حاصل کی گئی زمین کو اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرتا ہے۔کاش کوئی ادارہ توانائی کے منصوبوں میںاربوں روپے کی ہونے والی بچت کی بھی تحقیقات کرسکے۔احد چیمہ کی وجہ سے بھکھی پاور پلانٹ 30ماہ کی قلیل مدت میں مکمل ہوا اور اس میں 40ارب روپے کی بچت کی گئی ۔پاکستان کے معروف بزنس مین عارف سعید قائداعظم تھرمل پاور کمپنی کے چیئرمین ہیں اور احد چیمہ اس کمپنی کے سی ای او ہیں۔جب بھکھی پاور پلانٹ کی 12سال کے لئے دیکھ بھال کا معاملہ سامنے آیا توپہلی بولی366ملین ڈالر کی آئی۔ سب نے کہا کہ بہت جائز بولی آئی ہے۔ احد چیمہ اڑ گئے اور انہوں نے دوبارہ بولی کروائی۔جس میں 168ملین ڈالر کی بولی آئی۔احد چیمہ نے پھر تیسری دفعہ بولی کروائی اور130ملین ڈالر پر آکر معاملہ رکا۔ سرکار کے 22ارب بچانے والے سے پوچھا جارہا ہے کہ آپ نے چند لاکھ مالیت کی زرعی زمین کیسے لی؟ احد چیمہ حال ہی میں تریموں(جھنگ) کے مقام پر 1200میگا واٹ مزید کا منصوبہ اسی بچت کے ساتھ لگارہے ہیں،جیسا بھکھی میں کیا گیا۔کاش احد چیمہ سے چند لاکھ کا حساب لینے والے سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری کی رپورٹ پر بھی ایکشن لیتے۔ نندی پور پاور پروجیکٹ صرف 120میگاواٹ کا منصوبہ ہے اور 10سالوں میں مکمل ہوا ہے۔جسٹس صاحب نے اپنی رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ بابر اعوان اور ان کی ٹیم نے 111ارب روپے کا نقصان کیا ہے۔ مگریہ فائل پانچ سال سے نیب کے دفتر میںپڑی ہے۔ احد چیمہ جب ڈی جی ایل ڈی اے تھے تو کم و بیش 60ارب کے منصوبے مکمل کئے مگر کسی ایک منصوبے کی شفافیت پر آج تک انگلی نہیں اٹھی،جس میٹرو کا پی سی ون پشاور حکومت نے ساڑھے چار سال میں مکمل کیا ہے، احد چیمہ نے 11ماہ میں اس میٹرو کو لاہور میں چلا کر دکھایا۔ لاہور میں ڈی جی ایل ڈی اے کا سب سے کلیدی کردار ہوتا ہے۔حکمران جماعت کا وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وفاقی وزراء13ممبر قومی اسمبلی 26ممبر صوبائی اسمبلی کا تعلق لاہور سے ہونے کی وجہ سے ڈی جی ایل ڈی اے کی غفلت یا بے ضابطگی کبھی بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ایل ڈی اے کے بارے میں تاثر ہے کہ اس کے درجہ چہارم سے لے کر ڈائریکٹر تک سب افسران مسلم لیگ ن کے سپورٹر ہیں۔کیونکہ جب سے ایل ڈی اے بنی ہے مسلم لیگ ن اقتدار میں ہے۔اس ایل ڈی اے میں احد چیمہ نے رہ کر 168سے زائد افسران کو تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کرپشن کے سنگین الزامات پر نوکری سے برطرف کیا۔احد چیمہ تو خود چلتا پھرتا احتساب مشہور تھا۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا کوئی افسر سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے پوری سروس کے دوران 10 سے زیادہ لوگوں کو کرپشن پر نوکری سے برطرف کیا ہو۔
نشانہ احد چیمہ نہیں ہے بلکہ اصل ٹارگٹ ترقی کو روکنا ہے۔جس اورنج لائن کو 22ماہ تک حکم امتناعی کے ذریعے روکا گیا،احد چیمہ ا س اورنج لائن کو جون تک مکمل کرنے کا دعویٰ کرتا تھا۔ ۔اصل ٹارگٹ اورنج لائن کو روکنا ہے۔کیا احد چیمہ بھارتی جاسوس کلبھوشن سے بڑا ملزم ہے۔کلبھوشن سےاس کی بیوی اور ماں کو خصوصی جہا ز کے ذریعے بلوا کر ملنے کا موقع دیا جاتا ہے اور یہاں پر قوم کے معمار کو بکتر بند گاڑیوںمیں لے کر آیا جاتا ہے اور اس کی بیوی اور بچوں کو عدالتی حکم کے باوجود ملنے بھی نہیں دیا جا رہا۔کاش نیب نندی پور کے 111ارب،ای او بی آئی پنشنرز کے 40ارب اور کراچی اور راولپنڈی کی ہاؤسنگ سوسائٹی میںہونے والے گھپلوںکی تحقیقات بھی کرے۔
احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد ایک باقاعدہ مہم تیار کی گئی کہ پنجاب کی بیوروکریسی نے اس پر شدید ردعمل کیوں دیا؟ حالانکہ سندھ میں بھی کئی بیوروکریٹس کوگرفتار کیا گیا ہے،بیوروکریسی کا کبھی ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا،کسی نے احد چیمہ کو ایسے طوطے سے تشبیہ دی،جس میں سب کی جان ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پنجاب اور سندھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔چند دانشوروں کو شک ہے تووہ صرف کشمور اور صادق آباد کے بارڈر پر کھڑے ہوکر موازنہ کرلیں۔سندھ میں اچھا بھلا افسر تعینات ہو تو چند ماہ بعد اس کی ساکھ پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔پنجاب میں تعینات افسران کی ساکھ کا دیگر صوبوں کے افسران سے موازنہ مناسب نہیں۔جب آپ ایسے صوبے کے افسران پر ہاتھ ڈالیں گے،جہاں پر شفافیت اور میرٹ معیار ہو تو پھر ایسا ہی ردعمل آئے گا ۔شہباز شریف کی ساکھ کا مقابلہ آصف زرداری سے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی پنجاب کی ترقی کا موازنہ سندھ سے کیا جاسکتا ہے۔سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہماری روح کا حصہ ہیں مگر تنقید ان صوبوں پر نہیں بلکہ وہاں پر براجمان حکمرانوں کے طرز عمل پر ہورہی ہے۔سندھ و دیگر صوبوں میں کچھ بہت اچھے افسر بھی ہیں مگر وہ وہاں نوکری نہیں کرسکتے اور پنجاب آجاتے ہیں۔اس لئے احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد پنجاب کے افسران کا شدید ردعمل آنا فطری ہے اور آپ جب بھی ایماندار افسران اور گڈ گورننس والے صوبے پر ہاتھ ڈالیں گے ایسا ہی ردعمل سامنے آئے گا۔اس لئے پنجاب کی بیوروکریسی نے کوئی بغاوت نہیں کی بلکہ اپنے حق کے لئے کھڑی ہوئی ہے۔
آج اگر لاہور کو پیرس سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس لاہور کے 80فیصد سے زائد منصوبوں کی اینٹوں میں احد چیمہ کا پسینہ شامل ہے۔جو شخص لاہور میں اربوں روپے کے پلاٹس کی نیلامی کرتا ہے۔گلبرگ مین بلیوارڈ اور ایم ایم عالم روڈ کے سینکڑوں پلاٹس کے تنازعات کے فیصلے کرتا رہا ہے۔جن کی مالیت اربوں نہیں کھربوں میں ہے۔اس سے 32کنال کی ایسی زرعی زمین کا پوچھا جارہا ہے ،جس کی مالیت لاکھوں میں ہے ۔زمین آشیانہ اقبال پروجیکٹ سے ایک سال پہلے لی گئی تھی ۔ مگر جب کچھ نہ ملے تو پھر اقامہ پر ہی نااہل ہونا پڑتا ہے۔احد چیمہ کے خلاف کھربوں روپے کے منصوبوں میں کچھ نہ ملا تو چند کنال زرعی زمین ہی سہی۔