جب کسی معا شرے میں طبقوں کے مخصوص مفاد اتنے طاقتور ہو جائیں کہ ان کی وجہ سے سچ نہ بولا جاسکے اس میں کسی نظام کی حقیقی اصلاح تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال ہمارے معاشرے میں عدا لتی نظام کے حوالے سے ہے۔ اس نظام کے نقائص اتنے واضح ہوچکے ہیں کہ اب کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے ان کمزوریوں سے متاثر ہونے والے عام لو گ اس بارے میں شکایتیں کرتے ہیں بالکل اسی انداز میں حکمران، جج اور چیف جسٹس بھی شکایتیں کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جو ان شکایتوں کا ازالہ کرسکتا ہے۔18 دسمبر2017 کے روزنامہ جنگ کے اداریے میں چیف جسٹس کے بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک بیوہ پنشن کے لئے گیارہ سال دھکے کھاتی ہے اور کرایہ دار سے مکان خالی کرانے میں تیرہ سال لگ جاتے ہیں۔ عجب صورتحال ہے۔ اہل اختیار یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس کی حقیقی وجوہات کیا ہیں اور یہ وجوہات معلوم کرکے انہیں دور کیوں نہیں کیا جاتا۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ اس میں کچھ طبقوں کا مخصوص مفاد ہے۔
غالباً اس مفاد کی وجہ سے یا حقیقی وجوہ سے ناواقفیت کے سبب اس مسئلہ کا حل آ ج تک نہیں تلاش کیا جا سکا۔ اس مسئلہ کے حل کے ذمہ دار ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ججوں کی تعداد بڑھانے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ تعداد بڑھائی گئی مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ تعداد بڑھانے سے صرف ادارے کی صلاحیتوں اور وقار میں کمی ہوئی ہے۔ فیصلوں میں تاخیر سب سے بڑا نقص سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ ججوں کی تعداد کی کمی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ ججوں کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ ججوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ جج کا کام ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر جج کی تعیناتی کے لئے یہ لازمی شرط ہی نہیں ہے کہ اس میں قوت فیصلہ بھی ہو۔ یہ نہ پوچھا اور دیکھا جاتا ہے اور نہ کسی تعیناتی کے طریقہ کار میں شامل کیا گیا ہے۔ کسی بھی سطح پر جج وکیلوں میں سے لئے جاتے ہیں۔ وکیل کا کام فیصلہ کرنا نہیں ہے اور انہیں اس کا نہ کوئی تجربہ ہوتا ہے اور نہ کو ئی ٹریننگ۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اچھا وکیل اچھا جج ہوسکتا ہے۔ جبکہ دونوں شعبوں کے فرائض منصبی بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ صرف قانون کا استعمال دونوں کا مشترک شعبہ ہے۔ جج کے عہدے کے لئے قو ت فیصلہ کی شرط نہ ہونا مضحکہ خیز بات ہے۔
ہر سطح پر جج کی ابتدائی تعیناتی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ وکیل ہو۔ و کیلوں کے علاوہ صرف عدالتوں کے عملہ کو استثنا دیا گیا ہے۔ اس کے باہر کوئی کتنا بھی قابل شخص ہو وہ کسی بھی سطح پر جج کے عہدے کے لئے قانونی طور پر اہل نہیں۔ ہمارے اس نظام کے سلسلے میں ایک بہت بڑا دھوکا یہ ہے کہ اس کو نظام عدل کہا جاتا ہے جب کہ یہ قانون کے نفاذ کا نظام ہے۔ یہ نظام محض معاملات کو قانون کے مطابق مکمل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ جج حلف بھی اسی کے لئے لیتے ہیں۔ یہ بات پاکستان میں آج تک نافذ ہوئے تمام آئینوں میں دیئے گئے حلف ناموں سے ظاہر ہے۔ حقیقت میں نظام عدل نہ ہونے کے باوجود لو گ اس سے عدل کی توقع رکھتے ہیں۔
ججوں میں قوت فیصلہ کی کمی کے علاوہ فیصلوں میں تاخیر کی اور بھی کئی و جوہات ہیں۔ ججوں کی تعداد بڑھانا کوئی حل نہیں کیونکہ قوت فیصلہ سے محروم ایک جج کی جگہ قوت فیصلہ سے محروم دس جج بٹھا دیئے جائیں تب بھی کوئی قابل قدر فرق نہیں پڑے گا۔ ایسے جج کام بہت کرتے ہیں لیکن اصل نکتے تک بہت دیر میں پہنچتے ہیں۔ سپیریئر کورٹس میں عام طور پر جج معاملا ت کے فیصلوں سے زیادہ قانونی نظیریں بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان عدالتوں میں کیونکہ عام طور پر شہادتیں قلمبند کرنا نہیں ہوتا۔ وہاں جو ذمہ داری ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وکیلوں کے دلائل سننا ہوتے ہیں۔ جو مواد پیش گیا ہو وہ دیکھنا ہوتا ہے اور فیصلہ لکھنا ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے اگر اچھے قوت فیصلہ رکھنے والے جج ہوں تو تاخیر سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ضلعی عدالتوں میں فیصلوں میں تاخیر ختم کرنے کے لئے قوت فیصلہ رکھنے والے ججوں کے ساتھ ساتھ ضابطہ کار کے قوانین میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ کرمنل کیسوں میں پراسکیوشن کی ذمہ داریاں عدالتوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ مثلاً گواہوں کی عدالت میں حاضری قیدی ملزموں کی حاضری اب عدالت کی ذمہ داری ہوگئی ہے۔ اگر عدا لت غیر جانبدار ادارہ ہے تو یہ سب اس کی ذمہ داری نہیں ہونا چاہئے۔ عدالت کو یہ اختیار بھی ہونا چاہئے کہ صحیح طور پر کام نہ کرنے والے پولیس اور دوسرے عملے کو خود بامقصد سزا دے سکے بجائے اس کے کہ وہ کسی اور کو اس کی شکایت کرے۔ عدالت کو بااختیار ہونا چاہئے۔ سول عدالتوں میں بھی ضابطہ کار کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مثلاً علیحدہ ایگزیکیوشن کارروائی کوئی جواز نہیں رکھتی۔
ہمارا نظام عدل بداعتمادی کی بنیاد پر قائم ہے اسی لئے اس میں لا تعداد اپیلوں کی گنجائش ہے۔ حالانکہ ہمارے آئین میں اپیل کی صرف تین عمودی سطحوں کا تصور ہے لیکن لا تعداد متوازی اپیل کی سطحیں بھی بنالی گئی ہیں۔ آ ئینی اپیلٹ ادارے صرف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہیں۔ اپیل کے متوازی ادارے سپیریئر کورٹس میں اس اصول پر بنائے گئے ہیں کہ ایک ہی سطح کے جج زیادہ تعداد سے زیادہ قابل ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں ایسا ضلعی عدالتوں میں کیوں نہیں ہوتا۔ ہائی کورٹ کی سطح پر متوازی اپیلٹ کورٹ ایک ناقص قانون کے ذریعہ بنایا گیا۔ یہ ایک آرڈیننس تھا۔Ordinance X of 1980۔ اس آرڈیننس کے ذریعے سول پروسیجر کوڈ (سی پی سی) میں ترمیمات کی گئیں۔ ترمیمی قانون ہونے کی وجہ سے یہ ایک عارضی قانونی دستاویز تھی جو سی پی سی میں ترمیم کر کے ختم ہو گئی۔ اس کی14 دفعات کے ذریعے سی پی سی کی مختلف دفعات میں ترامیم کی گئیں جبکہ پندرہویں دفعہ کے ذریعہ ایک مستقل شق رکھ دی گئی جو لا ریفارمز آرڈیننس 1972 کی ایک شق سے متضاد تھی۔ پتہ نہیں عارضی قانون میں ڈالی جانے والی مستقل شق کیسے قائم ہے۔
سپریم کورٹ کی اپیلٹ حیثیت آئین آرٹیکل 185 کے ذریعہ طے کرتا ہے۔ جو ہائی کورٹس کے احکامات کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ عدالتی نظام میں سب سے اونچی عدالت ایسی بنائی گئی تھی کہ اس کا حکم یا فیصلہ آخری ہو اور فائنل۔ اسے چیلنج نہ کیا جاسکے مگر متوازی اپیلوں نے اس کی یہ آخری اور فائنل حیثیت ختم کر دی۔ اب تو یہ بھی ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک بنچ کا اپیل میں فیصلہ ایک دوسری بنچ نے ججوں کی زیادہ تعداد بٹھا کر اور اوریجنل جیو ریسڈکشن استعمال کر کے ختم کردیا۔ اب تو اس معاملے میں کوئی اصول ہی باقی نہیں رہا۔ پتہ نہیں کب کس سپریم کورٹ کے اپیل کے فیصلے کو ججوں کی زیادہ تعداد بیٹھ کر بدل دے یا ختم کر دے۔ یہ محض فرضی تصور ہے کہ ذہنوں کی تعداد کی زیادتی اسی مناسبت سے دانائی میں اضافہ کرتی ہے۔ عام طور پرہجوم کا عمل اور فیصلہ عقل کے خلاف ہوتا ہے۔
نظام کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ قانون میں یہ تفصیلاً ً لکھا ہونا چاہئے کہ ایک جج میں کون کون سی صلاحیتیں اور خوبیاں ہونا ضروری ہیں اور ان کو جج بناتے وقت معقول طریقے سے پرکھنا چاہئے۔ ہمارے نظام عدل میں اپنے اندر یہ صلاحیت ہونا چاہئے کہ وہ خود کو صحیح طریقہ سے نافذ کرا سکے۔ یہ شکایت بے معنی ہے کہ لوگ اسے صحیح طور پر نافذ نہیں کرتے۔ ایک عدالتی نظام جس میں خود کو صحیح نافذ کرانے کی صلاحیت نہ ہو۔ محض ایک دکھاوا ہے۔