اسلام آباد (طارق بٹ) کمر میں تکلیف کے باعث خاصی طویل خاموشی توڑتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنمائوں کی جانب سے گزشتہ کئی دنوں سے روزانہ برسائے گئے تیروں کا بھرپور جواب دیا۔ اپنے خلاف سخت تنقید پر ردعمل کے ساتھ انہوں نے بعض اہم نکات اٹھائے جن پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے خصوصاً جو سیاسی مفاد کے لئے انسداد دہشت گردی کے نیشنل ایکشن پلان میں خامیاں نکال رہے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی طرف بھی انگلی اٹھائی اور کہا کہ وہ گزشتہ دو سال سے حکومت سے مراعات لے رہے ہیں تاہم حکومت کو یہ وضاحت کرنا ہوگی کہ بدلے میں اس نے کیا حاصل کیا کیونکہ سیاست میں مفت کچھ نہیں ہوتا، ہر شخص مر اعات کا بدلہ چاہتا ہے۔ چوہدری نثار کا یہ کہنا درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوق سے نہیں لڑی جاسکتی اورنفسیاتی لڑائی جیتنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمدکے حوالے سے بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے نامناسب تنازع پیدا کرنا یقیناً خراب چیز ہے اور اس طرح دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تاہم وفاقی و صوبائی حکومتیں خوف و ہراس پھیلانے کی از خود ذمہ دار ہیں۔ اسکول، کالج و جامعات سمیت آسان اہداف کو سیکورٹی خدشات کا سامنا ہے لیکن انتظامیہ نے اس سے جس طرح نمٹا اس نے سوالات اٹھائے، انہوں نے کنفیوژن بڑھایا جس سے عام لوگوں میں خوف و ہراس بڑھا، وزیر داخلہ نے ان اقدامات کی توثیق نہیں کی اور وفاقی دارالحکومت کے اداروں کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی۔