میں نے اپنے گزشتہ روز کے کالم میں جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ کی خدمت میں چند معروضات پیش کی تھیں مگر ابھی میری تسلی نہیں ہوئی۔ میں کچھ باتیں مزید کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً میری تنخواہ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس کے حوالے سے محمود صادق صاحب نے اپنے ٹی وی پروگرام میں وہی بات کہی جو میں نے عرض کی تھی کہ ایک اوسط درجے کے اینکر کی تنخواہ بھی کم از کم پندرہ لاکھ روپے ہے جبکہ ایک کروڑ ماہوار تنخواہ لینے والے اینکر بھی اس پروفیشن میں موجود ہیں۔ میں جناب چیف جسٹس کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ پی ٹی وی نے ’’کھوئے ہوئوںکی جستجو ‘‘ کے عنوان سے جو پروگرام تقریباً دو سال تک جاری رکھا اور جس میں ساٹھ کے قریب ملک بھر کے مشاہیر کے انٹرویو کئے گئے، میں اگر یہی پروگرام کسی اور چینل سے کرتا تو اس کا معاوضہ لاکھوں میں وصول کر سکتا تھا، مگر میں نہ تو پی ٹی وی کے اسٹاف میں ہونے کی وجہ سے یہ معاوضہ وصول کرنے کا مجاز تھا اور اگر ہوتا بھی تو کبھی وصول نہ کرتا۔ میں نے تو وہ رقوم بھی لینے سے انکار کر دیا جو میرا استحقاق تھا۔ میں نے جس دن چارج لیا، اس سے دو چار دن بعد میرے ڈائریکٹر فنانس میرے پاس تشریف لائے اور دو لاکھ روپے کا چیک مجھے پیش کیا۔ میں نے پوچھا یہ کس لئے؟ بولے جب چیئرمین اپنے عہدے کا چارج لیتا ہے تو یہ دو لاکھ روپے اسے ضروری اشیاء کی خریداری کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ میں نے کہا الحمد للہ میرے پاس ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں۔ موصوف نے فرمایا مگر سر یہ آپ کی انٹائٹیلمنٹ ہے یہ آپ رکھ لیں، مگر میں نے کہا اگر یہ میرا استحقاق بھی ہے تو بھی مجھے یہ ناجائز لگتا ہے۔ لہٰذا میں معذرت خواہ ہوں۔ آپ اسے کینسل کر دیں یا اس سے پی ٹی وی کی کوئی ضرورت پوری کر لیں۔ میں یہ دو لاکھ بہرحال نہیں لوں گا۔
اس طرح جب میں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی پہلی میٹنگ چیئر کی تو دوسرے ڈائریکٹرز کے علاوہ مجھے بھی اٹھارہ ہزار روپے کا چیک دیا گیا کہ چیئرمین بورڈ کا ڈائریکٹر بھی ہوتا ہے، میں نے یہ چیک وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا اور ہدایت کی کہ آئندہ بھی میرا چیک نہ بنایا جائے۔ میں لاہور ٹی وی سینٹر دورے پر گیا تو سینٹر کے جنرل منیجر نے مجھے غالباً بیس ہزار روپے کا چیک پیش کیا اور بتایا کہ چیئرمین بننے سے پہلے کے بطور ٹیلنٹ آپ کی کچھ رقم واجب الادا تھی یہ اس کا چیک ہے۔ میں نے عرض کیا اب آپ یہ چیک ٹی وی کے ٹیلنٹ کو نہیں۔ ٹی وی کے چیئرمین کو دے رہے ہیں۔ لہٰذا آپ اسے اوپن کرائیں اور کسی غریب کارکن کو دے دیں۔ چیئرمین بننے سے پہلے ایک مد میں مجھے کچھ معاوضہ ملا کرتا تھا میں نے دو سال کی چیئرمین شپ کے دوران یہ معاوضہ جو تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے بنتا تھا شکریئے کے ساتھ متعلقہ ادارے کو واپس کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ میری چیئرمین شپ کی میعاد ابھی ایک سال اور تھی مگر میں نے ایک سال پہلے مستعفی ہو کر اپنی بقایا تنخواہ کے ایک کروڑ ارسٹھ لاکھ روپے پر بھی چار حرف بھیجے اور واپس گھر آ کر بیٹھ گیا۔ مراعات اس کے علاوہ تھیں۔ مگر میں محسوس کرتا تھا کہ جب کچھ ہوس پرست سب اختیارات خود استعمال کر کے کھل کھیلنا چاہتے ہیں اور میرے فرائض کی راہ میں بظاہر ان دیکھی رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پی ٹی وی کو انفارمیشن منسٹری کا ایک غلام ادارہ بنانے کے درپے ہیں تو مجھے لگا کہ اب میں جتنی دیر اس ادارے سے منسلک رہوں گا اور جو تنخواہ یا مراعات حاصل کروں گا وہ شرعاً حرام ہو گی تو میں نے خود کو دوزخ کی اس آگ سے دور کر لیا۔ منسٹری نے میرے ایک ماہ کے نوٹس سے پہلے ہی میرا استعفیٰ منظور کر لیا اور یوں قانون کی رو سے میری ایک ماہ کی تنخواہ ان کی طرف واجب الادا ہے۔ جناب چیف جسٹس میری یہ تنخواہ بھی اگر قانون میں گنجائش ہو تو انہی کے کاسۂ گدائی میں ڈال دیں۔ ورنہ مجھے دلوائیں تاکہ میںکسی اچھے کام میں اسے صرف کر سکوں۔
جناب والا، میں اب جو عرض کرنا چاہتا ہوں، میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے صفحہ قرطاس پر لائوں مگر ٹی وی کے دگرگوں حالات کے بیان کے لئے مجبوراً یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ جب کبھی میں لاہور سینٹر وزٹ کرتا تھا تو شکایت ملتی تھی کہ شدید گرمی کی وجہ سے اسٹوڈیوز میں ریکارڈنگ کے دوران مہمان پسینے میں نہا جاتے ہیں کیونکہ سینٹرل ایئر کنڈیشنڈ ناکارہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح پروگرام کی ریکارڈنگ سے پہلے اور بعد میں مہمان پروڈیوسروں کے کمرے میں آ کر بیٹھتے تھے تو گرمی کی وجہ سے ان سے پروگرام کے بارے میں تبادلہ خیال بھی مشکل ہو جاتا تھا۔ میں کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں تھا۔ میں نے حسب توفیق تین کمروں میں نئے ایئر کنڈیشنڈ اپنی جیب سے انسٹال کروائے۔ میں ملتان ٹی وی سینٹر وزٹ کرنے گیا تو ان کا مطالبہ تھا کہ ٹی وی انتظامیہ مسجد میں کار پیٹنگ کرا دے۔ میں نے یہ ’’فضول خرچی‘‘ بھی ٹی وی کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے اپنے ذمے لے لی۔ میں ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے والے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی اپنے طریقے سے کیا کرتا تھا۔ میں نے ٹی وی کے نچلے درجے کے ملازمین کے لئے جو کام کئے وہ مجھے آج بھی یاد رکھتے ہیں۔ صرف وہی نہیں پورے ملک کے دانشور میری خدمات کو سراہ رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز بلوچستان کے دانشوروں نے میرے لئے کلمہ خیر کہا ہے۔ اور یہی میری کمائی ہے۔
جناب چیف جسٹس میری اپوائنٹمنٹ کے حوالے سے جو سوال اٹھایا گیا میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا اس میں اگر کوئی فنی خامی رہ گئی تھی تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ تاہم آپ ایک دفعہ پتا کریں کہ گزشتہ دور میں ایک بہت خوبصورت اداکار توقیر ناصر کو جس نے میرے ایک ڈرامے میں ’’الہ دین کے جن کا زوال‘‘ میں لازوال کردار ادا کیا تھا۔ نیشنل کونسل آف دی آرٹس کا ڈی جی لگایا گیا تھا اور اس ادارے کا تعلق کسی ایک فن سے نہیں تمام فنون لطیفہ سے ہے، کیا اس تقرری میں وہ تمام امور ملحوظ رکھے گئے تھے۔ جو رکھے جانے چاہئیں تھے۔ یا دیگر تمام اداروں کے ماضی کی ہی جانچ پڑتال کریں اور دیکھیں کہ کوئی چھوٹی موٹی بے ضابطگی ہوئی ہے یا کوئی بلنڈر کیا گیا ہے تاہم میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بابا رحمتے کے طور پر لوگوں کے لئے رحمت کا سبب بنیں۔ تاکہ لوگ آپ کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بابا رحمتے کے طور پر یاد رکھیں اور ان کے ذہن میں جب آپ کا خیال آئے تو رحمت کے حوالے ہی سے آئے زحمت کے حوالے سے نہیں۔