اٹلی کا شمار یورپ کے خوبصورت ترین ملکوں میں ہوتا ہے، چاہے وہ اطالوی الپس کی حسین وادیاں ہوں یا پھردنیا کا فیشن کیپٹل میلان، جس کے سٹی سینٹر میں موجود دکانوں پر دنیا کے مہنگے ترین برانڈز خریدنے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔ اٹلی کا دارالحکومت روم اٹھائیس صدیوں سے آباد ہے، یہیں پر 510قبل از مسیح میں رومن ریپبلک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔وہیں وینس کا شہر بھی ہے، پانی پر بسا یہ شہر جہاں آمدورفت کے لئے پانی پر تیرتے گنڈولوں کا استعمال کیا جاتا ہے دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی منزل ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سیاح ہو جو وینس دیکھے بغیر اٹلی سے واپس چلا جائے، اٹلی کا ٹسکنی نامی علاقہ بھی دنیا بھر میں اپنے کلچر، تاریخ اور لینڈ اسکیپ کے حسین امتزاج کی وجہ سے مشہور ہے۔ نیپلز کی بندرگاہ بھی اسی ملک میں آباد ہے، جہاں سے جہاز دور دراز کے علاقے فتح کرنے کی امید لئے نکلتے تھے۔
میں جتنی بھی بار اٹلی گیا وہاں ایک مانوسیت کا سا احساس ہوا، ہمیشہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اٹلی کے باسی بھی اپنے ملک کے لوگوں جیسے ہی ہیں۔ لیکن کبھی صحیح سے سمجھ نہ پایا کہ آخر کار دونوں ممالک میں وہ کونسی ایسی مماثلت ہے جس کی بنا پر مجھے یہ احساس ہوا۔ کبھی ایسا لگتا کہ شاید اس کی وجہ اطالوی لوگوں کی خوش خوراکی ہے، تو کبھی محسوس ہوتا کہ ان کی سستی اپنے ملک کے لوگوں جیسی ہے۔ تو کبھی ان کے معاشرتی نظام میں خاندان کو دی جانے والی اہمیت دیکھ کر سوچتا کہ شایدیہی مانوسیت کی اصل وجہ ہے۔
میں اٹلی کی یونیفکیشن کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتا، صرف اتنا جانتا ہوں کہ اٹھارہ سو اکہتر میں روم کو دارالحکومت بنائے جانے سے پہلے موجودہ اٹلی کے علاقے کئی ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے۔ان کے اتحاد کے بعد ملک تو ایک بن گیا لیکن شاید اطالوی ایک قوم بننے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ آج بھی اٹلی میںشمال اور جنوب کے مابین ایک سرد جنگ کی سی کیفیت ہے، کچھ عرصہ پہلے تک تو شمال میں علیحدگی کی تحریک بھی چلتی رہی۔ آج بھی اٹلی کی مختلف وفاقی اکائیاں اپنے علاقوں کے لئے فیصلہ سازی کرنے کے ان اختیارات کا مطالبہ کر رہی ہیں جو اس وقت اٹلی کی وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ پاکستان کی طرح اٹلی میں بھی ایک صوبہ، دوسرے صوبے اور وفاقی حکومت کو نہ صرف شک کی نظروں سے دیکھتا ہے بلکہ اسے اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کی وجہ بھی سمجھتے ہیں۔ اٹلی میں بھی وطن عزیز کی طرح قوم پرست جماعتیں موجود ہیں،اس کے لئے قوم پرستی کوئی نئی بات بھی نہیں ہے چونکہ موجودہ اٹلی کئی پرانی ریاستوں کے انضمام سے وجود میں آیاہے اس لئے تقریباََ ہرعلاقے میں قوم پرست جماعتیں موجود ہیں، جو اس علاقے کی الگ شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں، ان میں سے چند ایک کو عوام میں کافی مقبولیت بھی حاصل ہے۔
پاکستان کی طرح اٹلی کا سیاسی نظام بھی ہمیشہ ہلچل کا شکارہی نظر آتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب اٹلی کے فاشسٹ حکمران بنیتومسولینی کو حکومت سے علیحدہ کیا گیا تو ان کے اکیس سالہ دور حکمرانی کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن ان کے بعد آنے والا کوئی بھی رہنما زیادہ دیر تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز نہ رہ سکا۔ انیس سو چھیالیس سے لے کر موجودہ دور تک، ان تہتر سالوں میں اٹلی میں 22 مرتبہ حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں۔گو وطن عزیز کے برعکس وہاں سیاسی حکومتوں کے جانے کے بعد سیاسی حکومتیں ہی آئیں لیکن اٹلی میں بھی سیاسی بے یقینی کی ویسی ہی کیفیت پائی جاتی ہے جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اٹلی میں دائمی طاقت رکھنے والا کوئی ادارہ ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں سیاستدانوںکو گھر نہیں بھیجتا بلکہ سیاستدانوں کو سیاستدان ہی تبدیل کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک تبدیلی اتوار کو بھی ہونے جا رہی ہے، پانچ مارچ کو اطالوی عوام اپنے مستقبل کے لئے نئے حکمرانوں کا انتخاب کریں گے۔ اس الیکشن میں ایک طرف تو موجودہ حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی ہے جو اپنی حکومتی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ایک مرتبہ پھر سے اقتدار میں آنے کی خواہشمند ہے، تو دوسری جانب فائیو اسٹار موومنٹ نامی ایک پاپولسٹ جماعت ہے جو خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار دیتی ہے ۔اکتیس سالہ لوئی جی ڈی مائیو کی زیر قیادت یہ جماعت ایک ایسے اٹلی کی خواہاں ہے جو یورپی یونین کی پابندیوں سے آزاد ہو۔ان دو جماعتوں کے مقابلے میں دائیں بازو کی جماعتوں نے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا ہے،اس اتحاد کی سربراہی کرنے کی ذمہ داری اٹلی کی حالیہ تاریخ کے سب سے متنازع سیاستدان اکیاسی سالہ سیلیو برلسکونی کو سونپی گئی ہے۔
برلسکونی اطالوی سیاست کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انیس سو چورانے میں پہلی بار اٹلی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور چار مرتبہ اٹلی کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان چار ادوار میں انہوں نے نو سال بطور وزیر اعظم فرائض انجام دیئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اٹلی کی تاریخ میں کوئی بھی سیاستدان برلسکونی سے زیادہ عرصے تک ملک کا وزیر اعظم نہیں رہا۔ سیاست میں آمد سے قبل وہ ایک ارب پتی بزنس مین کے طور پر جانے جاتے تھے، جن کے اپنے ٹی وی چینلز بھی تھے۔ برلسکونی کی سیاسی جماعت فورزا اٹالیا پانچ مارچ کو ہونے والے انتخابات میں دائیں بازو کی جماعت ناردرن لیگ اور تین دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ انتخابات سے قبل جاری ہونے والے ایگزٹ پولز بھی اس بات کی نشاندہی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان جماعتوں کی کامیابی کا امکان سب سے زیادہ یعنی 36.8% ہے۔ جس کے بعد حکومت سازی کے عمل میں ان جماعتوں کو خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس جیت کے باوجود اس بار برلسکونی وزیر اعظم نہیںبن پائیں گے۔ اٹلی کی سب سے بڑی عدالت سے ٹیکس فراڈ کے الزام میں تین سال سزا پانے والے برلسکونی کو ایک نئے قانون کے تحت چھ سالہ نا اہلی کا بھی سامنا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے برلسکونی وفاقی اسمبلی یا سینیٹ کے رکن بننے کے اہل نہیں ہیں لیکن اس نا اہلی کے باوجود برلسکونی نہ صرف اپنی پارٹی کے سربراہ ہیں بلکہ ان کی عوامی مقبولیت بھی کافی حد تک برقرار ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسی مقبولیت کے باعث اتوار کے الیکشن کے بعد ایک نا اہل برلسکونی ایک ایسے کنگ میکر کے روپ میں سامنے آجائیں جو اٹلی کے آئندہ وزیر اعظم کو چنیں گے۔ ٹیکس چوری کے علاوہ ان پر نہ صرف کرپشن بلکہ غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہونے کے بھی الزامات ہیں۔ ان پر اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں کو 10 ملین یورو رشوت دینے کا بھی الزام ہے۔
ایسا بھلا کبھی کسی ترقی یافتہ جمہوری ملک میں بھی ہوا ہے کہ ایک نا اہل اور بدعنوان شخص نہ صرف سیاسی جماعت کا صدر بن جائے بلکہ الیکشن کے بعدوزیر اعظم کے منصب کے لئے شخصیت کا انتخاب بھی کرے؟ اب سمجھ آیا کہ اٹلی اتنا اپنا اپنا سا کیوں لگتا ہے۔