رپورٹ:طلعت عمران
سونا برآمدکرنے کے بہ جائےقیمتی پتھروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے حکومت پر دبائو نہیں ڈالا جاتا،برانڈنگ کی غرض سےسہولتیں فراہم کرنے کے لیےاختراعات ضروری ہیں،پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کو مستقل رابطے میں رہنا چاہیے،ٹیکسٹائل سیکٹر سے زیادہ جیمز اینڈ جیولری انڈسٹری پر توجہ دی جائے،تو یہ پاکستان کےسارے قرضے اتار سکتی ہے،خام مال کی برآمد پر50فیصد ڈیوٹی عاید اور فنش پراڈکٹ ایکسپورٹ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے
محمد اقبال تابش
2016-17میں ہماری جیمز اینڈ جیولری کی ایکسپورٹ صرف 16کروڑ 80لاکھ ڈالرز رہی، جبکہ اس عرصے میں بھارت نے 43ارب ڈالرز کے قیمتی پتھر اور زیورات برآمد کیے ،ہمارے پاس بھارت سے بہتر ہنر منداور بیش قیمت پتھر موجود ہیں، حکومت ہمارے ساتھ مل کر اس صنعت کی ترقی کے لیے جامع پالیسی بنائے ،مشینری پر عاید ریگولیٹری ڈیوٹی فوری طور پر ہٹائی جائے، خام مال کی برآمد پر پابندی عاید کی جائے اور ہر شہر میں جیمز اینڈ جیولری پارکس بنائے جائیں
اختر خان ٹیسوری
مطلوبہ مقدار سے کم سونا ملنے کی وجہ سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پاکستان سے خام مال کی برآمد لمحہ فکریہ ہے، بھارت اس میں ویلیو ایڈ کرنے کے بعد اسے عرب ممالک میں برآمد کرتا ہے اور وہاں سے بھارتی زیورات پاکستان آتے ہیں، جو ہماری خواتین پہنتی ہیں، لوگوں کو ہنر مند بنانے کے لیے تربیتی ادارے قائم کیے جائیں، مائن ٹو مارکیٹ کے لیے جامع پالیسی تشکیل دینی چاہیے، اگر حکومت واقعی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے، تو جیمز اینڈ جیولری جیسے اہم شعبے پر توجہ دے
ہما بخاری
پالیسی میں عدم تسلسل کی وجہ سے جیمز اینڈ جیولری سیکٹر کے لیے اعلان کردہ منصوبوں پر عمل نہیں ہوسکا، ڈیزل پارک20برس بعد بھی عملی شکل اختیا رنہیں کر سکا،پاکستانی زیورات کی نمائش کے لیے 55ایکسپورٹرز امریکا میں روڈ شو منعقد کریں گے، ڈیزل پارک اور انڈسٹری پارک سمیت دوسرے تجارتی مراکز کوسی پیک منصوبے میں شامل کیا جائے، بیرون ملک نمائشیں منعقد کرنے میں ٹی ڈیپ سے زیادہ جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی نے تعاون کیا،صارفین ہال مارک جیولری کے سوا دوسرے زیورات قبول نہ کریں
مطیع اللہ ایم شیخ
پاکستان میں سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں سمیت دیگر معدنی ذخائر بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم ان سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر اہم معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ بھارت صرف زیورات کی برآمد سے سالانہ اربوں ڈالرز کا زر مبادلہ حاصل کرتا ہے، جبکہ ہماری برآمدات میں، جو ویسے ہی روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہیں، زیورات اور قیمتی پتھروں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت پاکستان میں جیولری کی سالانہ مارکیٹ 9سے10ارب ڈالرز ہے۔ قیمتی دھاتوں کی سالانہ کھپت تقریباً 170ٹن ہے۔ اس صنعت سے 5لاکھ سے زاید افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ملک بھر میں جیمز اینڈ جیولری کے تقریباً 90ہزار یونٹس قائم ہیں اور 2006-07ء سے 2016-17تک جیمز اینڈ جیولری کی ایکسپورٹ کا حجم4ارب ڈالرز سے کچھ زاید رہا۔ ملک میں موجود انتہائی مہارت یافتہ اور سستی افرادی قوت کے ذریعے مسابقتی قیمت پر بڑی تعداد میں عمدہ ڈیزائن کے حامل زیورات تیار کیے جا سکتے ہیں۔ روایتی دستکاری کی مدد سے بڑے پیمانے پر جیولری کی پیداوار ممکن ہے اور نئی ٹیکنالوجی متعارف کروا کر برانڈڈ جیولری وجود میں لائی جا سکتی ہے اور سائنسی طریقوں سے نئے نئے ذخائر تلاش اورکان کنی کے ذریعے جیمز اینڈ جیولری کی پیداوار اور ان کی ویلیو ایڈیشن کے ذریعے ان کی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور پاکستان اور اس خطے میں زیورات کی کھپت کو دیکھتے ہوئے اس صنعت کو پنپنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہو سکا، جو ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان تمام امور کا جائزہ لینے، مسائل کی وجوہات اور حل جاننے کے لیے گزشتہ دنوں نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس میں’’قیمتی پتھروں اور زیورات کی صنعت کی ترقی‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف، اختر خان ٹیسوری، پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، محمد اقبال تابش، آل پاکستان جیمز مرچنٹس اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین، مطیع اللہ ایم شیخ اورنیوپورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس کی چیئرپرسن، ہما بخاری نے اظہار خیال کیا۔یہ گفتگو ذیل میں پیش کی جار ہی ہے۔
جنگ:پاکستان میں قیمتی پتھروں اور زیورات کی صنعت کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالیں۔
اختر خان ٹیسوری:یہ بہت اہم شعبہ ہے۔ یوں تو مجموعی طور پر ہی ہماری ایکسپورٹ گر رہی ہے، لیکن پاکستان سے 2016ء- 2017ء میں قیمتی پتھروں اور زیورات کی صرف 16کروڑ 80لاکھ ڈالرز کی ایکسپورٹ ہوئی اور اس میں زیورات کی ایکسپورٹ کا حصہ صرف40لاکھ ڈالرز ہے اور باقی چیزوں میں مختلف اقسام کے پتھر اورخام مال وغیرہ شامل ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اسی عرصے میں بھارت نے 43ارب ڈالرز کی جیمز اینڈ جیولری ایکسپورٹ کی اور ہماری مجموعی برآمدات کا حجم صرف20ارب ڈالرز ہے۔ 2015-16ء میں بھارت کی جیمز اینڈ جیولری کی ایکسپورٹ 39ارب20کروڑ ڈالرز تھی، جس میں تقریباً10فیصد اضافہ ہوا ہے اور بھارت کی مجموعی برآمدات میں جیمز اینڈ جیولری کی ایکسپورٹ کا حصہ 15.7فیصد ہے۔ دراصل، حکومت نے اس شعبے کی جانب وہ توجہ ہی نہیں دی، جس کا یہ مستحق ہے۔ اگر حکومت ہمیں مطلوبہ وسائل فراہم کرے، تو ہم دو برس کے عرصے میں 43ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ میں سے کم و بیش 5ارب ڈالرز کا حصہ وصو ل کر سکتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے پاس بہترین ہنر مند موجود ہیں اور شمالی علاقوں میں قیمتی پتھروں کی تقریباً 40کانیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں سے یہ پتھر خام مال کی صورت بھارت جاتے ہیں اور وہ ویلیو ایڈیشن کے بعد انہیں برآمد کر کے اربوں ڈالرز کماتا ہے۔ میں ہمیشہ یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس صنعت کی ترقی کے لیے حکومت پبلک سیکٹر اور اس شعبے کے ماہرین سے مل کر ایک پالیسی بنائے اور ٹی ڈیپ سری لنکا، تھائی لینڈ اور بھارت اپنا ایک وفد بھیجے، جو ان ممالک کی جانب سے اس صنعت کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات کا بہ غور جائزہ لے۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ویت نام کی ایکسپورٹ پالیسی 1990ء میں بنی اور اس وقت ان کی برآمدات کا حجم 216ارب ڈالرز ہے اور یہ پالیسی ویت نام نے پاکستانی حکام کی مشاورت سے تیار کی تھی۔ اسی طرح سابق وزیر خزانہ محبوب الحق کے دور میں جنوبی کوریا کا ایک وفد ان کے پاس آیا اور اس نے ہمارے وزیر کا تجویز کردہ منصوبہ اپنایا اور آج ان کی برآمدات کا حجم 465ارب ڈالرز ہے۔ نیز، تھائی لینڈ کی ایکسپورٹ 269ارب ڈالرز ہے۔ حالانکہ جب ہم جرمنی کو قرضہ دے رہے تھے، اس وقت ان ممالک کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اس کا سبب غلط حکمتِ عملی ہے۔ اب مشینری کی درآمد پر 10فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، جو نہایت نامناسب ہے اور اسے فوری طور پر ہٹا دینا چاہیے۔ پھر جن جن ممالک میں بھارتی مصنوعات ایکسپورٹ ہو رہی ہیں، وہاں قائم پاکستانی سفارت خانوں کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ یعنی ہمارے کمرشل اتاشی پاکستان کے قیمتی پتھروں اور زیورات سمیت دیگر مصنوعات کی نمائشیں منعقد کریں، جس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا، کیونکہ ہماری مصنوعات بالخصوص جیمز اینڈ جیولری بھارت کی بہ نسبت کافی اچھی ہیں۔
جنگ:یعنی ہم اس شعبے میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر پا رہے؟
اختر خان ٹیسوری:جی بالکل۔ جیمز اینڈ جیولری کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری مشاورت سے ایک جامع پالیسی بنائی جائے اور ہم دو برس میں اپنی برآمدات کم از کم 5ارب ڈالرز تک بڑھا سکتے ہیں۔ میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہا ہوں۔
جنگ:کیا پالیسی سازی میں آپ کو شامل نہیں کیا جاتا؟
اختر خان ٹیسوری:ہمیں شامل نہیں کیا جاتا اور صرف تجاویز طلب کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہےاور ان تجاویز پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ حالانکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنگامی طور پر ایک اجلاس منعقد کرے اور ہماری مشاورت سے پالیسی تیار کرے۔
جنگ:آپ حکومت کو ایسی کون سی تجاویز دینا چاہیں گے کہ جن پر عمل درآمد سے جیمزاینڈ جیولری کی صنعت کو عروج حاصل ہو؟
اختر خان ٹیسوری:سب سے پہلے تو خام مال کی برآمد پر پابندی عاید کی جائے۔ بھارت میں ہر تھوڑے سے وقفے کے بعد جیولری پارکس تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کسٹم حکام بھی ہمارے لیے مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔ بھارت میں آرڈر ملنے کے اگلے روز مال خریدار کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے گاہک کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتے، جبکہ ہمارا مال آرڈر ملنے کے 20روز بعد کہیں جا کر خریدار کو ملتا ہے۔ پھر خام مال کے درست استعمال کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اس وقت پاکستان کی برآمدات کا کل حجم کم وبیش 20ارب ڈالرز ہے، جس میں12ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔ حکومت کو اس شعبے کی جانب فوری طور پر توجہ دینی چاہیے اور ہم ایکسپورٹ میں اضافے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
جنگ:کیا پچھلے چندبرسوں میں ٹیسوری گروپ کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے؟
اختر خان ٹیسوری:جی بہت زیادہ۔ بالخصوص امن و امان کی ناقص صورتحال کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر خاصے منفی اثرات مرتب ہوئے ۔ میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ بھارت کی طرح ہمارے ملک میں بھی جیم اینڈ جیولری کے باقاعدہ پارکس اور شہر بنائے جائیں۔ برسوں قبل’’ڈیزل پارک‘‘ کے نام سے ایک منصوبے کی منظوری دی گئی تھی، مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جنگ:موجودہ حکومت جب قائم ہوئی تھی، تو اسے کاروبار دوست حکومت سمجھا جا رہا تھا، لیکن بد قسمتی سے توقعات کے مطابق کاروباری سرگرمیوں کو فروغ نہیں مل سکا۔ کیا ہماری صنعت میں اتنی استعداد ہے کہ وہ بھارت کا مقابلہ کر سکے؟
مطیع اللہ ایم شیخ:جیسا کہ اختر ٹیسوری نے بتایا کہ ڈیزل پارک کا منصوبہ منظور ہوا تھا۔ اسی طرح حکومت نے دیگر منصوبے شروع کرنے کا بھی اعلان کیا تھا، لیکن پالیسی میں عدم تسلسل کی وجہ سے ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اس کا سبب اسٹیک ہولڈرز کا آپس میں رابطوں کا فقدان ہے۔ ڈیزل پارک بنانے کا منصوبہ 20برس پہلے پیش کیا گیا تھا، جو ایک فری زون ہو گا۔ اس سلسلے میں کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب زمین بھی لے لی گئی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جیولرز اپنی مصنوعات تیار کر کے فوراً برآمد کر سکیں اور ساتھ ہی بیرون ملک سے آنے والے افراد پاکستانی مصنوعات کا معائنہ بھی کر سکیں۔ اس ضمن میں آج سے تین ماہ قبل ہماری ایسوسی ایشن کی ٹی ڈیپ سے ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ ٹی ڈیپ زمین کی رقم بھی ادا کر چکی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جلد ہی اس منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا۔ آج سے 12برس قبل یو ایس ایڈ نے دوسرے سیکٹر کے علاوہ جیم اینڈ جیولری سیکٹر میں بھی دلچسپی لینا شروع کی تھی اورجیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی بھی بنائی گئی تھی۔ اس نے 3برس تک کام کیا اور وزارتِ تجارت کے ساتھ مل کر ایک فری زون بنانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا، لیکن اس پر بھی کوئی کام نہیں ہو سکا۔
جنگ:اس کا سبب کیا ہے؟
مطیع اللہ ایم شیخ:اس کا سبب سیاسی مداخلت ہے۔ یہ کمپنی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تشکیل دی گئی ہے اور اس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوتی ہیں۔ تاہم، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہے۔ حکومت نے اسے 1.5ارب ڈالرز دیے اور اس نے کراچی سمیت ملک بھر میں کام شروع کیا۔ اگرچہ کام کی رفتار کافی سست تھی، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں پہلی مرتبہ کمیپوٹرائزڈ ایڈڈ ڈیزائننگ اینڈ کمپیوٹرائزڈ ایڈڈ مینوفیکچرنگ وجود میں آئی اور ان تمام اقدامات کا نتیجہ جیمز اینڈ جیولری کی ایکسپورٹ میں اضافے کی صورت میں سامنے آنا تھا، لیکن پھر اچانک ایک ایس آر او 760جاری کر دیا گیا، جس سے برآمدات رک گئیں۔
جنگ :وہ ایس آراو کیا تھا؟
مطیع اللہ جان شیخ:میں اس پر آگے چل کر بات کروں گا۔ اس کی وجہ سے گزشتہ ڈھائی ماہ سے میرا سونا ایئرپورٹ ہی پر رکا ہوا ہے۔ پہلے ہم سے جو بھی پارٹی رابطہ کرتی تھی، ہم اس سے سونے سمیت دیگر اشیا کی خرید و فروخت کر لیتے تھے، لیکن اب یہ پالیسی بنائی گئی ہے کہ جو بھی پارٹی رابطہ کرے گی، وہ پہلے پاکستانی سفارت خانے سے منظوری لے گی۔ ہمارا زیادہ تر ہندو بیوپاریوں سے رابطہ رہتا ہے اور وہ اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتے، جس کی وجہ سے یہ بزنس بالکل ہی دم توڑ گیا۔ اسی طرح یہ پابندی بھی عاید کی گئی کہ یہاں سے سونا خریدنے والا اپنے ساتھ ترسیلاتِ زر بھی لائے گا۔ اس قسم کے اقدامات سے ہماری برآمدات میں رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں اور اب لوگ ڈرنے لگے ہیں۔ یعنی جب یہ ادارہ اپنے اہداف حاصل کرنے لگا، تو ایکسپورٹ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ اب ایکسپورٹ بالکل رک گئی ہے اور ایکسپورٹرز بھی اس طرف نہیں آ رہے۔ تاہم، اس کے باوجود ہماری کوششیں جاری ہیں اور چند روز بعد مجھ سمیت تقریباً 55افراد امریکا میں ایک روڈ شو کے لیےجا رہے ہیں۔ یہ روڈ شو امریکا کی تین مختلف ریاستوں میں ایک مہینے سے زاید عرصے تک جاری رہے گا۔ ٹی ڈیپ اس کے لیے تیار ہے اور اس نے ہمیں پریزنٹیشن دینے کا کہنا ہے۔ اس میں نئے ایکسپوٹرز بھی شامل ہیں۔ قیمتی پتھروں اور زیورات کے بڑے خریدار بھارت، عرب ممالک اور چین ہیں اور یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، لیکن ہم اسے حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے۔ میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ ایئرپورٹ پر واقع ڈیزل پارک اور انڈسٹریل پارک سمیت دیگر تجارتی مراکز کو سی پیک میں شامل کیا جائے۔
اختر خان ٹیسوری:سی پیک کے تحت بننے والے اکنامک زونز میں جیمز اینڈ جیولری دونوں ہی کو شامل کیا جانا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں قیمتی پتھروں اور زیورات کی برآمدات میں خاصا اضافہ ہو گا۔ حکومت کو اس تجویز پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ بھارت میں اتنی سمجھداری سے کام لیا جا رہا ہے کہ بینکوں میں جمع ٹنوں وزنی سونے کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں باقاعدہ پالیسی بنائی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہمارے بینکس کو قرضے فراہم کرنے چاہئیں، تاکہ ہمارے چھوٹے تاجر بھی اپنے آرڈرز بروقت مکمل کر سکیں اور ابتدا میں سود کے بغیر قرضے فراہم کیے جائیں۔
جنگ:کیا ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت، ماہرین اور ادارے موجود ہیں؟
اختر خان ٹیسوری :جی بالکل موجود ہے۔ پی جے ڈی سی نے متعدد ہنر مند تیار کیے ہیں، جو جدید مشینوں پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بلاسٹ کر کے قیمتی پتھر کان سے نکالے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پتھر بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں انہیں کمپریسر سے نکالا جا رہا ہے۔
جنگ:سیندک اور ریکوڈک پراجیکٹ میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
اختر خان ٹیسوری:یہاں سونے کے کافی ذخائر موجود ہیں اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فی الوقت ان منصوبوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ مردان کے قریب پنک ٹوپاس موجود ہے، جو دنیا میں اور کہیں نہیں پایا جاتا ۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں ایسے ایسے پتھر موجود ہیں کہ جو صرف یہیں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ بھارت کس طرح اپنی ایکسپورٹ کو ری ایکسپورٹ کر کے آمدنی حاصل کر رہا ہے، جبکہ ہم اپنے ملک میں قیمتی پتھر موجود ہونے کے باوجود برآمدات نہیں کر پاتے۔
مطیع اللہ ایم شیخ:ہمارے ملک میں کم و بیش 50لاکھ باشندے جیم اینڈ جیولری کی صنعت سے بلاواسطہ و بالواسطہ وابستہ ہیں۔ گزشتہ دنوں چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی اور اسے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں نئے تربیتی مراکز قائم ہوں گے اور ہماری برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے ہنر مندوں کی استعداد میں اضافہ ہو گا۔ ہم چین سے سونا، خام مال اور قیمتی پتھر درآمد کر سکتے ہیں، جنہیں ویلیو ایڈیشن کے بعد ایکسپورٹ کیا جا سکے گا۔
جنگ :پھر اندرون ملک ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے؟
اختر خان ٹیسوری:ہماری آبادی کا بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور تھائی لینڈ سمیت دوسرے ممالک میں جہاں یہ صنعت عروج پر ہے، وہاں80فیصد خواتین اور بچیاں ہی اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ جیمز اینڈ جیولری کی مشینری پلوشن فری ہے اور یہ ایک گھریلو صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ایک عام ورکر بھی گھر بیٹھے ماہانہ 25سے 30ہزار روپے کما سکتا ہے۔ ہم نے متعدد مرتبہ مختلف پلیٹ فورمز سے اس موضوع پر بات کی ہے، لیکن حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
جنگ:حکومت جیمز اینڈ جیولری سیکٹر کی ترقی پر توجہ کیوں نہیں دیتی؟
محمد اقبال تابش:حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر سے مشاورت کے بعد ہی ایک اسٹرٹیجک ورکنگ گروپ بنایا۔ یہ 2006ء اور 2007ء میں بنایا گیا اور تب منسٹری کا نام تھا، منسٹری فار انڈسٹریل پروڈکشن اینڈ اسپیشل انیشی ایٹو۔ یہ کام پی آئی ڈی سی کی سربراہی میں کیا گیا۔ اس گروپ کا مقصد ہنر مندوں کو سہولتیں اور تیکنیکی معاونت فراہم کرنا تھا۔ اس دوران کمپیوٹر ایڈڈ ڈیزائننگ اینڈ مینوفیکچرنگ کے ذریعے ہنر مندوں کو کافی مدد ملی اور اب ہماری جیولری کی ڈیزائننگ بھارت سے کہیں زیادہ بہتر ہو چکی ہے۔ یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس ہنرمندی کو ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کیسے استعمال کریں؟ ہمارا مقصد خام مال کو مارکیٹ تک اور پھر مارکیٹ سے اپنی مصنوعات کو بیرون ملک بھجوانا تھا، مگر ہمارے ہاں کچھ مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بیٹھے کاروباری افراد اس طرح منافع حاصل نہیں کر سکے، جس طرح لاہور اور کراچی کی کاروباری شخصیات نے منافع حاصل کیا۔ کاروباری افراد کانوں کا مالک بننے کے بہ جائے ان سے اپنا منافع حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سونا پیدا نہیں ہوتا اور ہم اسے درآمد کرتے ہیں۔ اگر ہم سونے کی درآمد بڑھا دیتے ہیں، تو اس کا مطلب خام مال کی رسد روکنا ہو گا۔ ہماری مقامی مارکیٹ کا حجم 7سے 8ارب ڈالرز ہے اور سالانہ 70ٹن سونا استعمال ہو رہا ہے۔ اس میں سے تقریباً 80فیصد سونا غیر رسمی ذرایع سے ملک میں آ رہا ہے اور انہیں آپریٹ کرنے میں ہمیں سرمائے کی کمی کا سامنا ہے۔ گزشتہ دنوں اس سلسلے میں میری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام سے بات ہوئی، تو میں نے انہیں بتایا کہ اگر اس سیکٹر کی سرمائے تک بہ آسانی رسائی نہیں ہو گی، تو کاروباری افراد بالخصوص چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ حال ہی میں ہال مارکنگ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی صارف نے 22قیراط سونا دیا ہے، تو اسے اتنا ہی سونا ملنا چاہیے اور یہ نہ صرف پاکستان کے ہر کونے میں بلکہ پوری دنیا میں بھی مستند سمجھا جانا چاہیے۔ ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور ہمیں انہیں قبول کرنا چاہیے۔ ہم نے سونا برآمد کیا ہے اور 2011-12ء اس کی برآمد ایک ارب سے بڑھ گئی تھی اور ہمیں یہ شکایات بھی موصول ہوئی تھی کہ پاکستانی جتنے قیراط کا سونا بتاتے ہیں، اتنے کا ہوتا نہیں ہے اور پھر وہ کہیں کم قیراط کا سونا بتاتے ہیں۔ اب جہاں تک ٹیکسز کی بات ہے، تو اگر ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس اور ڈیوٹی عاید کی گئی ہے، تو ہم نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں اسے 0.5فیصد کرنے کا مطالبہ کیا، تو جواب دیا گیا کہ ایک فیصد نہایت موزوں ٹیکس ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ یہ موزوں نہیں ہے، کیونکہ اس میں دیگر چیزیں بھی جمع ہو جاتی ہیں اور پھر یہ رقم بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں سونے کے بہ جائے قیمتی پتھروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمارے اپنے ملک میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے لیے زیادہ بھاری مشینری کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ ڈی نیشنلائزیشن کے حوالے سے حکومت کا پبلک اینڈ پرائیویٹ پارٹنرشپ کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا اور حکومت نے اس میں دلجمعی کے ساتھ اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ حکومت نے اس سلسلے میں 10کمپنیاں بنائیں، جن میں سے 2جوائنٹ وینچر تھیں اور 8اس سیکٹر کی ترقی کے لیے بنائی گئیں۔ جو کمپنیاں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کی گئی تھیں، وہ خود کفیل ہو چکی ہیں، جبکہ باقی سرکار کے لیے درد سر بن چکی ہیں۔
جنگ:اختر خان ٹیسوری کا دعویٰ ہے کہ وہ دو برس میں جیمز اینڈ جیولری کی برآمدات 168ملین سے 5ارب ڈالرز تک پہنچا سکتے ہیں، تو حکومت ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک جامع پالیسی کیوں نہیں بناتی؟
محمد اقبال تابش:اس کا سبب یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے حکومت پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کا کاروبار ہو رہا ہے، لیکن وہ نئی نئی اختراعات نہیں کرتے کہ جن کی برانڈنگ کے لیے حکومت سہولتیں فراہم کرے۔ ہم نے اس شعبے سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو بھی تربیت فراہم کی، تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی گزر بسر کر سکیں، لیکن انہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ اگرچہ حکومت صرف پیداوار اور سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے برآمدات میں اضافے کے لیے اس سیکٹر کی معاونت کی ہے۔ ہم اس وقت بھی اسٹیک ہولڈرز سے رابطے میں ہیں اور مرحلہ وار تمام نکات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے ہماری رہنمائی کرنا ہو گی کہ ہمیں کن خطوط پر کام کرنا ہے۔
جنگ :لیکن یہ تو آپ کو تجاویز دیتے رہتے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد ہی نہیں ہوتا۔
محمد اقبال تابش:اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمیں بجٹ کے دوران تجاویز دیتے ہیں، لیکن ان میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی رہ جاتی ہے کہ جس کی وجہ سے حکومت اس پر توجہ نہیں دے پاتی۔ اس سیکٹر کی جانب سے چند روز کے لیے حکومت پر دبائو ڈالا جاتا ہے اور پھر سب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر اور حکومت کو مستقل رابطے میں رہنا چاہیے اور نجی شعبے کو معدنی ذخائر کی تلاش، پیدوار میں اضافے اور نئی نئی اختراعات میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
جنگ:ایک صارف کی حیثیت سے خواتین کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
ہما بخاری:بتائے گئے قیراط سے کم سونا ہونے کی وجہ سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان کا خام مال برآمد ہوتا ہے۔ بھارت اس میں ویلیو ایڈیشن کر کے اسے دبئی سمیت دیگر عرب ممالک میں بھیجتا ہے اور وہاں سے بھارتی زیورات پاکستان پہنچتے ہیں، جو پاکستانی خواتین پہنتی ہیں، حالانکہ پاکستان کو جیمز اینڈ جیولری ایکسپورٹ کرنی چاہیے۔ اب خواتین سلائی کڑھائی تو کرسکتی ہیں، لیکن پتھروں کی تراش خراش کے لیے انتہائی مہارت کے حامل افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایسے ادارے تعمیر کرنا ہوں گے کہ جن میں لوگوں کو ہنر مند بنایا جا سکے۔ بدقسمتی سے ہمیں پتھروں کی فنشنگ کے لیے جے پور جانا پڑتا ہے، لیکن اگر ہمارے اپنے پاس افرادی قوت موجود ہو، تو ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ پھر مائن ٹو مارکیٹ تک کے لیے ایک جامع پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں قیمتی پتھروں کی تلاش کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے کئی پتھر ضایع ہو جاتے ہیں۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس سیکٹر سے وابستہ افراد کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں یہ پالیسی دیگر ممالک کو فائدہ پہنچانے کے لیے تو نہیں بنائی گئی۔
جنگ:ٹی ڈیپ کا کام دنیا بھر میں پاکستانی مصنوعات کو فروغ دینا ہے۔ کیا اس نے جیمز اینڈ جیولری کی نمائشیں منعقد کیں؟ نیز، رواں سال بجٹ جلد پیش کیا جا رہا ہے اور آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
مطیع اللہ ایم شیخ:گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بیرون ملک نمائشیں منعقد کی گئی ہیں، لیکن اس میں ٹی ڈیپ کا کوئی کردار نہیں رہا، بلکہ جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی نے ہمارے ساتھ خاصا تعاون کیا۔ حکومت ہمارے شعبے پر توجہ دے رہی ہے اور اس کمپنی کا قیام اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، لیکن سیاسی مداخلت کا مسئلہ تا حال اپنی جگہ برقرار ہے اور بورڈ میں ایسے افراد کو تعینات کر دیا جاتا ہے کہ جو اس شعبے سے واقف نہیں ہوتے۔ اس شعبے کی ترقی کے لیے سرکاری اور نجی شعبے کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا اور تبھی بہتری واقع ہو گی۔
جنگ:عام طور پر یہ شکایات موصول ہوتی ہیں کہ آپ اگر صارفین کو 22قیراط سونا فروخت کرتے ہیں، تو وہ ہوتا 17سے 18قیراط کا ہے۔ اس کے تدارک کے لیے کیا اقدمات کیے جا رہے ہیں؟
اختر خان ٹیسوری:ہم اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں۔ ہم نے اس مقصد کے لیے مشینری بھی لگائی تھی۔
جنگ:یہ بات درست ہے کہ ٹیسوری گروپ نے ایسی مشینری لگائی تھی کہ جس کی مدد سے سونے کی اصل مقدار معلوم کی جا سکتی تھی، لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔
اختر خان ٹیسوری: 1990ء کی دہائی میں سری لنکا کے حکام ہمارے پاس آئے تھے اور انہوں نے ہماری ایسوسی ایشن سے مدد مانگی تھی کہ ان کے ملک سے سیفائر نکلا ہے اور وہ اسے کس طرح استعمال میں لائیں اور آج سری لنکا اس شعبے میں پاکستان سے کہیں زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ اس وقت ملک میں ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہے اور جب قیمتی پتھروں اور زیورات کی طلب و رسد بڑھ جائے گی اور عوام کو اس میں اپنا مستقبل دکھائی دے گا، تو پھر ہر فرد اس طرف آئے گا اور اسے سیکھنے کی کوشش کرے گا۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے اور خواتین صرف چھ ماہ کی تربیت حاصل کر کے گھر بیٹھے پتھروں کی تراش خراش کر کے رقم کما سکتی ہیں۔ البتہ ہمیں انہیں تربیت فراہم کرنی ہو گی۔
س:آپ انہیں تربیت کیسے فراہم کریں گے؟ کیا آپ کے پاس تربیتی ادارے موجود ہیں؟
اختر خان ٹیسوری:جی بالکل موجود ہیں۔ ہمیں اقبال تابش جیسے فعال افراد کی ضرورت ہے، جو تاجروں سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ اب جہاں تک تاجروں کے دبائو کی بات ہے، تو ہماری طرف سے حکومت پر ہمیشہ دبائو رہا ہے، لیکن وہ ہماری سنی ان سنی کر دیتی ہے۔
جنگ:کیا آپ چیمبر آف کامرس سمیت دوسری تنظیموں سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟
اختر خان ٹیسوری:ہم ان سے بھی بات کرتے رہتے ہیں، لیکن اب ہر کوئی اپنے ہی سیکٹر کی نمایندگی کرتا ہے، حالانکہ ویلیو ایڈڈ آئٹمز میں جیم اینڈ جیولری کا پہلا نمبر ہے۔ حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کرے، تو ہم اسے بتائیں کہ ہمیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں لیب کی ضرورت ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہال مارکنگ ہو رہی ہے یا نہیں۔ ہم بھارت سے اچھا کام کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں حکومت کی مدد کی ضرورت ہے اور حکومت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
فرحت:ایک جانب سونا مطلوبہ مقدار سے کم ہوتا ہے اور پھر جب ہم کسی تاجر کے پاس اپنا سونا لے کر جاتے ہیں، تو اس کی قدر کم بتائی جاتی ہے۔
اختر خان ٹیسوری:ہر جیولر بے ایمانی نہیں کرتا۔ اب ہم ہال مارکنگ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور جس جیولری کی دکان پر ہال مارکنگ کا اسٹیکر چسپاں ہو گا، صرف اسی کے سونے کا وزن مستند سمجھا جائے گا اور پھر زیورات بنانے کے بعد ویسٹیج تو ہوتی ہے، چاہے ایک یا دو گرام ہی کیوں نہ ہو اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے، لیکن اصل مسئلہ سونے کی مقدار کا ہے اور اس کے لیے ہماری ایسوسی ایشن اور پی جے ڈی سی بھی کوششیں کر رہی ہے اور مستقبل میں اس کے ثمرات نظر آئیں گے۔
مطیع اللہ ایم شیخ:اس سلسلے میں صارفین کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جیولرز سے ہول مارک جیولری طلب کریں اور اس کے علاوہ کوئی دوسری جیولری قبول نہ کریں۔
محمد اقبال تابش:ہماری کمپنی کے تحت پاکستان بھر میں جیم اینڈ جیولری کے 7 ہال مارک سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک صدر کے عبداللہ ہارون روڈ پر بھی واقع ہے۔ ان سینٹرز کے قیام کا مقصد ہی یہی ہے کہ صارفین کو ادا کی گئی رقم کے مطابق ہی سونا ملے۔ ہم اسے جبراً نافذ تو نہیں کر سکتے، لیکن اس سلسلے میں سہولت ضرور فراہم کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کراچی کے تقریباً 50اور لاہور کے کم و بیش 30جیولرز رجسٹرڈ ہیں اور اب دوسرے جیولرز میں بھی آگہی پیدا ہو رہی ہے۔ اگر ہم اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے کام کریں، تو ہم بہتر انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں۔
جنگ:کہا جاتا ہے کہ پاکستان معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہم ان سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کی مدد سے اپنی پیداوار اور ایکسپورٹ کو کس قدر بڑھا سکتے ہیں؟
محمد اقبال تابش:اگر ہم ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بات کریں، تو قیام پاکستان سے اب تک ہماری مجموعی برآمدات میں اس کا 65فیصد حصہ رہا ہے، لیکن جی ایس پی آیا، تو پتہ چلا کہ ہم ویلیو ایڈیشن نہیں کر پا رہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو سب سے زیادہ مراعات بھی ملتی ہیں اور یہ مانگتا بھی ہے اور مانگتا بھی رہے گا، لیکن پوری دنیا میں ایکسپورٹ میں اس سیکٹر کا حصہ صرف 4فیصد ہے۔ بدقسمتی سے ہم ٹیکسٹائل سے تعلق رکھنے والی مافیا کی ہتھے چڑھ گئے، جبکہ جیمز اینڈ جیولری کی انڈسٹری میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ پاکستان کے سارے قرضے اتار سکتی ہے۔ جب میں سارک میں تھا، تو ایک صاحب میرے پاس ایک پتھر لے کر آئے اور انہوں نے اس کی قیمت 7کروڑ بتائی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ جے پور سے اس کی کٹنگ کروائے گا، کیونکہ پاکستان میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ ہمیں دنیا میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا ہو گا اور مائن ٹو مارکیٹ کو ایک باقاعدہ چینل کی حیثیت دینی ہو گی، جو اس وقت مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ اسے باضابطہ طور پر نہیں چلایا جا رہا، جس کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے جامع پالیسی بنانی ہو گی۔ خام مال کی برآمد روکنے کے لیے اس پر 50فیصد ڈیوٹی عاید کر دی جائے اور اس کی بہ جائے فنش پراڈکٹ ایکسپورٹ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ تاہم، پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہو گا اور حکومت اس کی پشت پناہی کرے گی۔ ہم روایتی انداز سے ہٹ کر کام کرتے ہوئے اپنا ایک برانڈ بنانا ہوگا، جس کے کئی گنا زیادہ فواید حاصل ہوں گے۔
جنگ:جیم اینڈ جیولری سیکٹر کی ترقی کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے؟
اختر خان ٹیسوری:جب ہم نے 2002ء میں اپنی کمپنی کا آغاز کیا، تو ہم نے برانڈنگ پر توجہ دی۔ برانڈنگ کا فائدہ یہ ہے کہ اگر بنگلادیش میں کسی ٹی شرٹ کی تیاری پر 5ڈالرز لاگت آتی ہے، تو برانڈ بننے کے بعد 25ڈالرز میں فروخت ہوتی ہے۔ یعنی برانڈنگ کی اشد ضرورت ہے۔ برطانیہ نے پاکستان میں 22قیراط سونے کی اجازت دی ہے۔ اس کے بعد 18اور پھر 14قیراط سونے کا نمبر آتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر پاکستان سے 22قیراط سے کم سونا باہر جاتا ہے، تو اس پر 18قیراط کی مہر لگتی ہے، تو اس کے نتیجے میں نقصان ہوتا ہے۔ ان مسائل کا حل یہی ہے کہ حکومت ہمارے ساتھ مذاکرات کرے۔ ہماری انڈسٹری بے ضابطہ نہیں ہے، بلکہ ایک ضابطے کے تحت کام کر رہی ہے اور اس میں کئی ماہرین موجود ہیں۔ ڈیزائن پاکستان سے دبئی جاتے ہیں۔ کسی دور میں منوں کے حساب سے جیولری ایکسپورٹ ہوتی تھی، جو اب کم ہو گئی ہے۔ ایکسپورٹ کم ہونے کا سبب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرور پائی جاتی ہے اور ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر اسے دور کرنا ہو گا۔
مطیع اللہ ایم شیخ:میں اس بات کا پر زور مطالبہ کرتا ہوں کہ وزارتِ تجارت، وزارتِ صنعت اور جیم اینڈ جیولری سیکٹر پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو ان مسائل کو حل کرے۔ میں یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ماضی میں ہماری ایسوسی ایشن میں سیکٹر کے مسائل سے واقفیت نہ رکھنے والے افراد شامل ہونے کی وجہ سے ہم اپنا کیس حکومت کے سامنے درست انداز سے پیش نہیں کر سکے۔ تاہم، اختر خان ٹیسوری کی آمد سے ایسوسی ایشن کو طاقت ملی ہے اور اب ہم اپنے مطالبات منوانے کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گے۔
محمد اقبال تابش:یہ تمام مسائل اجتماعی دانش سے حل کیے جا سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے پبلک اینڈ پرائیویٹ پارٹنرشپ ضروری ہے۔ ہمیں درآمدات کو کم اور برآمدات کو بڑھانا ہے۔
ہما بخاری:جیمز اینڈ جیولری انڈسٹری کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت اور اس سیکٹر سے تعلق رکھنے والے افراد کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ہنر مند افرادی قوت پیدا کرنے کے لیے تربیتی مراکز قائم کرنا ہوں گے، جو طلبہ کے لیے ایک اچھی تعلیمی سرگرمی ہو گی۔ حکومت کی جانب سے معیشت کو مضبوط کرنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، لیکن ایکسپورٹ کی موجودہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر حکومت واقعی ملکی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے، تو پھر جیمز اینڈ جیولری جیسے اہم شعبے پر خصوصی توجہ دے۔