• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیچر: زندگی ہارنہ دینا

گزشتہ دنوں پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا ،سینیٹ،میں ڈپریشن یا کسی اور وجہ سے خودکشی کی کوشش کرنے والوں کو سزا دینے کی شق قانون سے نکالنے کا بِل منظور کرلیا گیا۔یاد رہے کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ نمبر 325 کے تحت خودکشی یا اس کی کوشش کرناجرم ہے جس کے لیے ایک سال تک قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

قانونِ تعزیرات کاترمیمی بل2017 میں سینیٹر کر یم خواجہ نے منظو ر ی کے لیے پیش کیاتھا۔ایوانِ بالا میں ان کا کہنا تھا کہ خودکشی کی کوشش انتہائی مایوسی کی حالت میں کی جاتی ہے اور یہ ایک بیماری ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والے کو سزا دینے کے بجائے اس کا علاج کر ا نا چا ہیے اور ریاست کو ایسے شخص کے ساتھ ماں جیسا سلوک کر نا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست ڈپریشن اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد کو تحفظ دے۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دسمبر2014 میںحکومت نے خودکشی کی کوشش کو جرم قرار نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔وہاں اس مقصد کے لیے تعزیر ا تِ ہند (آئی پی سی) کی دفعہ309 کو حذف کرکےاس جرم کی قابلِ گر فت اقدام کی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت اقدام خودکشی ایک سال کی قید کے ساتھ قابل سز ا جر م ہے۔اس وقت کےبھارتی وزیرِ مملکت بر ا ئے داخلہ ہر ی بھائی پرتھی بھائی چوہدری نے راجیہ سبھامیں کہا تھا کہ لا کمیشن آف انڈیا نے اپنی 210 ویں رپورٹ میں سفا ر ش کی تھی کہ آئی پی سی کے سیکشن 309 (خودکشی کی کو شش) کو قانون کی کتاب سے مٹا دینے کی ضرورت ہے۔

حقائق تسلیم کرنے کی ضرورت ہے

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال خودکشی کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ لوگوں کی موت ہوتی ہے ۔عالمی آبادی کے تناسب سےیہ تعداد ایک لاکھ میں16 بنتی ہے ۔ یو ں اوسطاً، دنیا میں ہر40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی سے ہلاک ہوجاتا ہے۔یہ تعداد دنیا میں ہونے وا لی اموات کا 1.8 فی صد ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس تعداد میں 45 برسوں میں تقریباً 60 فی صدکا اضافہ ہوا ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان خودکشی کے اعداد و شمار کا عالمی ادارہ صحت سے تبادلہ نہیں کرتا۔ یہاں خودکشی کے وا قعات کو بدنامی کے ڈر سے رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ اس لیےملک میں اس ضمن میںمستند اعداد و شمار دست یاب نہیںہوتے۔یعنی ہم خود کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم صحت عامہ کے اس اہم مسئلے پرکچھ کرنا ہی نہیں چا ہتے،حالاں کہ اس پر تحقیق اور گفتگو کرنے کی اشد ضر و ر ت ہے۔ ماہرینِ صحت اور سماجیات طویل عرصے سے اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ خودکشی کی کوشش کر نے و الوں کے دامن سے رسوائی کا داغ مٹانے کے لیے کوئی ٹھوس حل نکالنا چاہیے۔

غیر سرکاری اور آزادانہ اندازے کے مطابق پا کستا ن میں سالانہ 6 تا 8 ہزارافراد خودکشی کرتے ہیں اورایسا ہر شخص 10 سے 20 مرتبہ خودکشی کی کوشش کر چکا ہوتا ہے ۔پاکستان میں اس کی بنیادی وجہ ڈ پر یشن بتائی جاتی ہے ۔ تاہم دیگروجوہات میں گھریلو تنازعے، مالی مسائل، بے ر وزگاری وغیرہ شامل ہیں۔خودکشی کے طریقوں میں ( تعد ا د کے لحاظ سے) سب سے عام پھندا لگالینا، زہر پی لینا (کیڑے مار اور جراثیم کش ادویات)، اسلحے کے ذریعے، پانی میں ڈوب کر اور خود کو جلا کر مارنا شامل ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں اکثریت کی عمر 30 سال سے کم بتائی جاتی ہے۔خود کو ختم کرلینے والے مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں دگنی بتائی جاتی ہے۔یہ انتہائی اقدام کر نےوالوں میں اکثریت شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی بتائی جاتی ہے۔ گھریلو چپقلش اور ایک دوسرے سے تعلقات میں اتار چڑھائو آنا، اس کی سب سے زیادہ عام وجوہ گردانی جاتی ہیں۔ کسی دماغی بیماری میں مبتلا افراد بھی خود کشی کر لیتے ہیں، تاہم ایسے کیسز کم کم سامنے آتے ہیں۔

سماجی اور نفسیاتی ماہرین کے مطابق زندگی گز ا ر نے کے لیے لازمی وسائل کی کمی،صحت و صفائی کی بنیادی سہولتوں کی حالت زار، دماغی صحت کی سہولتوں کا فقدان اور ہمارا کم زور سیاسی نظام اس خطرناک رجحان کو روکنے میں بے بس نظر آتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس رجحان پر قابو پانے کے لیے صرف حکومت کو نہیں بلکہ پورے معاشرے اور غیر سرکاری تنظیموں اور ا د ا ر و ں کو بھی آگے آنا ہو گا۔

ہمارے ملک میں خود کشی کے رجحان میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟کیا فکری انتشار، تعلیم کی کمی، غربت، دماغی امراض، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام اس کی وجوہ ہیں؟ یا اس کے پس منظر میں کچھ اور عوامل کارفرما ہیں۔یہاں ہم نے ان سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

اسلام میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجودپاکستان جیسے ملک میں اس رجحان میں اضافہ ہونا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہاہے اور چند برس قبل تک یہ تعداد آج کے مقابلے میں کہیں کم کیوں تھی۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ملک میں سرکاری سطح پر خود کشی کے بارے میں اعدادوشمار جمع اور پیش کرنے کا نظا م نہیںہے۔ لہٰذا اس بارے میں سرکاری سطح پر غوروفکر کر نے کی بات سعی لاحاصل کی مانند ہے۔ اسی وجہ سے پا کستان میں اموات کی سالانہ شرح کے بارے میں حکو مت کی جانب سے جو اعدادوشمار جاری کیے جاتے ہیں ان میں خود کشی کے ذریعے ہونے والی اموات کا کوئی ذ کر نہیں ہوتا۔اگرچہ پاکستان میں رائج قانون کے مطا بق خود کشی یا خود کو جسمانی نقصان پہنچانے کا عمل غیر قا نو نی قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے جرمانے اور جیل کی سزائیں موجود ہیں۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ خود کشی کی کام یاب یا ناکام کوشش کے کیسز کو لازماً کسی سرکاری اسپتال تک لاناچاہیے۔اس مقصدکے لیے میڈیکو لیگل سینٹر کی قانونی اصطلاح موجودہے اور سرکاری اسپتالوں میں میڈیکو لیگل افسران مقرر ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔

خود کشی کے اکثر واقعات میں لوگ یہ کوشش کرنے والے کو سرکاری اسپتالوں میں لے جانے سے گریز کر تے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے پولیس کے محکمے کی کالی بھیڑیں ہیں۔قانون یہ بھی کہتا ہے کہ خود کشی کی کام یاب کوشش کی صورت میں لاش کا لازماً پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے، مگر زیادہ تر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔ دست یاب غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میںسالانہ تقریباً ایک لاکھ افراد خود کو جسمانی نقصان پہنچاتے یا پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر مخلصانہ اور سائنسی انداز میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں، لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔2001ء میں جاری ہونے والے دماغی صحت کے آرڈی نینس کے مطابق خود کشی کی کوشش ناکا م ہونے کی صورت میں زندہ بچ جانے والے فرد کا نفسیاتی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ اس آرڈی نینس کی دفعہ نمبر49 کہتی ہے:’’خود کشی کی کوشش کرنے والے شخص کا مستند ماہر نفسیات کے ذریعے تجزیہ ہونا چاہیے اور اگروہ کسی دماغی مرض میں مبتلا پایا جائے تو اس آ ر ڈ ی نینس کے تحت اس کا مناسب علاج ہونا چاہیے۔‘‘

یہ درست ہے کہ اس رجحان پر قابو پانے کے لیے کئی جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں من حیث المجموع کام کرنا ہو گا۔ یہاں امریکا اور یورپ کی نہیں بلکہ اپنے خطے کے اور ہماری ہی طرح کے ترقی پزیر ملک سری لنکا کی مثال پیش کرنا غلط نہیں ہو گا۔دنیا بھر میں کرائسزانٹرونیشن سینٹرز(بحرانی کیفیت میں مدد دینے والے مراکز) اور خود کشی کو روکنے والی ٹیلی فون کی ہاٹ لائنز،خود کشی پر آمادہ افراد کو یہ قدم اٹھانے سے روکنے میں بہت اہم کردار ادا کر تی ہیں۔ سری لنکا میں بھی یہ سہولتیں موجود ہیں اور ان کے دست یاب اعدادوشمار ان کی عمدہ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہمیں بھی اسی طرح قدم بہ قدم آ گے بڑ ھنا ہو گا اور امداد باہمی کے ادارے قائم کرنا ہوں گے ۔اس کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کو دوسروں کے لیے اپنے دل میں گنجائش پیدا کرنا ہو گی اور ایک دو سرے کی مدد اور اسے برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کر نا ہو گا۔

وجوہ اور ماہرینِ نفسیات کا موقف

ماہرینِ نفسیات کے مطابق خود کشی دراصل کسی شد ید ذہنی مرض کی علامت ہوتی ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں لوگوں کو امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ ذہن میں خوشی کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور مستقبل کے منظرنامے پر صرف ماضی نظر آتا ہے۔ خود کشی کرنے والا یہ عمل کر نے سے پہلے ہمیشہ معالج، پڑوسی یا دوست کو کوئی اشارہ دیتا ہے۔ حسّاس معاشرہ اس اشارے کو سمجھ کر لوگوں کو یہ قدم اٹھانےسے روکنے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔ خود کشی کرنے سے پہلے لوگ عموماً اس طرح کی باتیں کرتے ہیں:’’یہ ہماری آخری ملاقات ہے یا اب اگلے جہاں میں ملیں گے‘‘، وغیرہ۔ اسی طرح ان لوگوں کے رویّےمیں بھی تبدیلی آجاتی ہے ۔وہ مایوسی کی کیفیت میں یہ عمل کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے پر کو ئی افسوس نہیں ہوتا۔ جو لوگ مایوس ہوتے ہیںوہ کئی مرتبہ خود کشی کی کوششیں کرتے ہیں۔عموماً پہلی کوشش کام یاب نہیں ہوتی بلکہ سات میں سے ایک کوشش کام یاب ہوتی ہے۔ خود کشی کے لیے مردپُر تشدّد یااذیت والے طریقے استعمال کرتے ہیں مثلاً پھندا لگا لینا یا بندوق کا ا ستعمال۔خواتین عموماً کیمیکل یا ادویات کا سہارا لیتی ہیں ۔جو افراد زیادہ مایوس یا ڈپریسڈ ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد ان کے بچوں کا کیا ہو گا کیوں کہ جو معا شرہ ان کا خیال نہیں رکھ سکاوہ ان کے بچوں کا کیا خیال رکھے گا۔ ایسے افراد بچوں سمیت خود کشی کرتے ہیں۔

عالمی اعدادوشمار پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود کشی کا رجحان اسکینڈے نیویا کے ممالک اور جا پان میں کافی زیادہ ہے۔ یورپ میں بھی اس کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حالاں کہ وہ لوگ خوش حال ہیں۔ ا نہو ں نے اسے فطری روانگی(نیچرل ڈپارچر) کی شکل د ےدی ہے۔

ہمارےہاں شہری علاقوں میں، نو جو ا نو ں اور خو ا تین میں خود کشی کی شرح زیادہ ہے۔بے روزگار افراد زیادہ خود کشی کرتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں بہت سے لوگوں کو امید کی کرن نظر نہیں آ رہی۔ نفسانفسی کا عا لم ہے، خاندان کی طرف سے مدد ملنے کا نظام ختم ہوچکا ہے۔ انفرادی مایوسی اور اجتماعی بے حسی میں اضافہ ہو ر ہا ہے۔ معاملہ فہمی کی سطح پست ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیم یا فتہ افراد کا معاملہ فہم ہونا ضروری نہیں ہے۔پاکستان میں منشیات کے عادی، شیزوفرینیا کے مریض،شدید ذ ہنی انتشارکے شکار افراد اور خطرناک بیماریوںمیں مبتلا افراد بھی امید کی کرن نظر نہ آنے پر خود کشی کرلیتے ہیں۔ہم ہر معاملے میںحکومت کو کوستے ہیں،لیکن حکو مت ہی ہر کام کی ذمے دار نہیں ہوتی۔ ہمارا معاشرہ اپنی اجتماعی اور لازمی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہا۔ ہر سطح پر بے حسی اور نفسانفسی کا عالم ہے۔

ماہرینِ نفسیات اور سماجیات کے بہ قول خود کشی کے رجحان کا غربت، دولت، تعلیم یا ناخواندگی سے کوئی لازمی تعلق نہیںہے۔ دراصل نفع دینے والا علم وہ ہوتا ہے جس میں گہرائی ہو۔ فکر کی گہرائی انسان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے۔ منتشر ذہن وہ ہوتا ہے،جو اپنے خیا لات کو ترتیب نہ دے سکے اور ذہنی کیفیت کو الفاظ کا جا مہ نہ پہنا سکے۔ دولت جمع کر کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتےبلکہ پیسے خرچ کرنے کا ڈھنگ بھی آنا ضروری ہے۔

فلسفی اور دانش ورکیا کہتے ہیں

دنیا بھر ،بالخصوص ترقّی یافتہ دنیا میں ،ایسے رجحا نا ت کو سمجھنے کے لیے فلسفے اور دانش سے بھی مدد لی جاتی ہے۔چناں چہ ہمیں بھی یہ بہت اہم مسئلہ سمجھنے کے لیے فلسفیوں اور اہلِ دانش کی مدد لینی چاہیے۔ملک کے ایک ممتاز فلسفی اور دانش ور کے مطابق آج کل ملک میں خود کشی کے جو رجحانات ہیں، اس کی وجہ فکری انتشار نہیں بلکہ بے بسی کی کیفیت ہے۔ لوگوں کو جب اپنے سامنے کوئی مدد کرنے والا نظر نہیں آتا تو وہ مسائل پر قابو پانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔90 تا95 فی صد واقعات کی وجہ یہ ہی ہوتی ہے۔ باقی واقعات کی وجہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض مو اقعےپر نارمل انسان کو بھی یہ خیال آتا ہے کہ فلاں صو ر ت حال سے بہتر تو موت ہے۔ جب انسان بے بسی کی کیفیت میں مبتلا ہوتاہے تو موت کا خیال اس کے دل میں راسخ ہو جاتا ہے اور وہ خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں بھی خود کشی کی وجہ بے بسی ہی ہے۔ لیکن وہ دوسری قسم کی ہے۔ ان کے ہاں خود کشی حرام نہیں ہے ۔یہ عمل خدا کی نافرمانی کے زمرے میں نہیں آتا اور وہاں اسلامی معاشرے کی طرح زندگی کے قیمتی ہونے کا تصور بھی نہیں ہے۔ وہ جب زندگی میں مشکلات محسوس کرتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ چلو زندگی ختم کر کے تمام مشکلات سے چھٹکاراپا لیں۔ لیکن وہاں بھی لوگ اس وقت ایسا کرتے ہیں جب انہیں مسائل کے حل کے لیے کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔

فلسفیوں اور اہلِ دانش کے بہ قول فکری انتشار دو اقسام کا ہوتا ہے۔ پہلی قسم یہ ہوتی ہے کہ نارمل انسان کے سامنے کسی مسئلے کے بارے میں مختلف دلائل ہوں لیکن وہ سارے تقریباً ایک جیسے ہوں اور ان سے مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہ ملتی ہو۔ دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ ا نسان کے ذہن میں اشیا یامعاملات کے بارے میں و ا ضح تصورات نہ ہوں۔ خراب نفسیاتی کیفیت وہ ہوتی ہے، جس میں لوگوں کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔ علم اگر باقاعدہ طریقے سے حاصل نہ کیا جائے تو وہ فکری مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ادھورا علم خطرناک ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کا ذہن حاصل ہونے والے علم کو جذب کرنے کے لیے تیار ہو اور علمی باتوں کو ذہن کے خا نوں میں قرینے سے رکھا جائے تو یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن بے ترتیب طریقے سے مطالعہ کر کے ذہن میں کباڑ جمع کرنے پر نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔اسی طرح دولت کی فراوانی بھی انسان کو خودکشی سے نہیں ر و ک سکتی۔ کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ بھی خود کشی کرتے ہیںکیوںکہ جب کسی انسان کے لیے زندگی کی معنویت ختم ہو جاتی ہے تو وہ زندہ رہنا بے کار سمجھتا ہے۔

سماجی امور کے ماہرین کے مطابق آج کل ملک میں نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے۔ لوگوںکو ٹی وی پر و گر ا مز میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں تو وہ کسی مسئلے کے بارے میں خود کوئی رائے قائم نہیں کر پاتے۔ بزرگوں کا کہنا تھا:’’یک من علم را، دہ من عقل باید‘‘ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ گھر،مدرسہ اور معاشرہ لوگوں کی عقل و دانش کی تر بیت (انٹیلیکچوئل ٹریننگ) نہیں کرتا۔ اساتذہ بچوں کو سوال کرنے پر نہیں اکساتے،بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہے اور اس کایہ جواب ہے۔بچے جواب رٹ رٹ کر ا متحا ن میں کام یابی حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن عملی زندگی کے امتحانات میں اپنے سوالوں کے جواب پانے میں اکثر ناکام نظر آتے ہیں اور فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔جب غم و غصہ، فرسٹریشن اور بے بسی جمع ہوتی رہتی ہے تو کوئی ایک بات یا واقعہ ٹریگر کا کام دیتا ہے اور لاوا پھٹ پڑتا ہے۔

سماجی معاملات اور رویّے

رفاہِ عامہ اور سماجی بہبود کے شعبے میں پاکستان کی ممتا زترین شخصیت عبدالستّار ایدھی کے قائم کردہ ادارے ا ید ھی فاونڈیشن میں طویل عرصے سے خدمات انجام د ینے والے اور ایدھی صاحب کے سابق ترجمان انور کاظمی کے مطابق خود کشی کر لینے یا ایسا کرنے کی کوشش کرنے والے جن افرادیا ان کی لاش کو ایدھی فائونڈیشن کی ا یمبو لینسزکے ذریعے گھر سے اسپتال یا اسپتال سے گھر پہنچا یاجاتا ہے ان میںسے آج کل زیادہ تر بے روزگار ا فر ا د ہوتے ہیں۔خود کشی کی کام یاب یا ناکام کوشش کرنے والی زیادہ تر خواتین کا شوہر سے جھگڑا ہوا ہوتا ہے۔عموماً اس کی وجہ بھی مالی مسائل ہوتے ہیں اور ان معاملات میں قصوراکثر شوہروں کاہوتاہے۔اس کے علاوہ خطر نا ک امراض، مثلاً سرطان یا گردے ناکارہ ہو جانے کے مرض میں مبتلا افراد طویل علاج یا اس کے لیے رقم نہ ہونے سے مایوس ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر پسند کی شادی نہ ہونے پر خود کشی کر لینے والے نو جو ا ن لڑکے یا لڑکیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے پسند کی شادی نہ ہونے پر خود کشی کے رجحان میں کمی واقع ہو ئی ہے۔ہمارے اندازے کے مطابق خود کشی کے محض 30 فی صدکیسز پولیس کے علم میں آتے ہیں۔باقی کیسز کو گھر والے چھپا لیتے ہیں۔ لیکن گھر والوں، محلے دا ر و ں یا اسپتال کے عملے کی گفت گو سے ہمارے لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ کیس خود کشی کا ہے۔

ملک کے خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں جینے کی اُمنگ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔جب ان کی بے بسی حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ مرحلہ ایک دن میں یا ایک مسئلے کی وجہ سے فوراً طے نہیں ہو جاتا۔اس کے پس منظر میں طویل عرصے کی مایوسیاں اور محرومیاں ہوتی ہیں۔ ہمارا سیاسی اور سماجی نظام تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ امیروں میں بھی خود کشی کا رجحان پایاجاتاہے۔زندگی کی یک سا نیت اور پیسا ہونے کے باوجود اس کا روح کو تسکین د ینے والا مصرف نظر نہ آنے کی وجہ سے دولت مند افراد خود کشی کر لیتے ہیں۔2006ء میں پی ای سی ایچ سو سا ئٹی میں تقریباً پچاس برس کے ایک شخص نے خود کشی کی تھی۔ اس نے جو خط چھوڑا اس میں لکھا تھا کہ بیوی اسے چھوڑ کر جا چکی ہے،بچے بیرون ملک مقیم ہیں اور اسے پو چھتے نہیں ہیں۔پیسا بہت ہے، لیکن زندگی میں کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، لہٰذا وہ خود کشی کر رہا ہے۔ وہ شخص کچھ بیمار بھی تھا۔ یہ بھی بے بسی کی کیفیت ہوتی ہے۔

فرد کیاکرسکتا ہے؟

ہرطرف سے مایوس افراد خود کو نقصان پہنچاتےیا خو د کشی کرتے ہیں۔یہ ایک طرح سے مدد کے لیےپکار ہوتی ہے اور شدید مایوسی کا عمل ہوتاہے۔ دراصل ذہنی بیماریاں زندگی میں اجالوں کی جگہ اندھیرے بھر دیتی ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ افراد سرنگ سرے پر موجود روشنی دیکھ نہیں پاتے۔ہمارے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بھلے ہی معا شرتی مسائل( — جنہیں عام طور پر خودکشی کی وجہ قرار دیا جا تا ہے)پاکستان میں کثرت سے موجود ہیں،مگربے ر و ز گار ا فرادمیں سے بہت ہی کم خود سوزی یا خودکشی پرمائل ہو تے ہیں۔ چناں چہ یہ ممکن ہے کہ اس اقلیت کو شاید ذہنی صحت کے مسائل درپیش ہوں یا شاید ان لوگوں میںحالات سے نمٹنے کی صلاحیت اور مسائل حل کرنے کا ہنر موجود نہ ہو۔

ہمارے لیے سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ خود کشیو ں کو روکا جاسکتا ہے۔مدد موجود ہے۔ تمام بڑے شہروں میں ذہنی صحت کے ڈاکٹر موجود ہیں اور تقریباً ہر میڈیکل کا لج میں طبِ نفسیات کے شعبوں میںتربیت یا فتہ طبیب موجود ہیں۔ بعض فلاحی ادارے مفت یامنا سب فیس پر ذ ہنی امراض کا علاج کرتے ہیں۔بہ حیثیت فرد ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اگرایسے کسی شخص کو جانتے ہوں جو کسی ذہنی یا د ماغی کشمکش یا خلفشار کا کا شکار ہو تو اس کے با رے میں منفی ر ا ئے قائم نہ کریں یا اس کا مذاق نہ اڑائیںبلکہ اس کی مشکل سمجھنے کی کوشش کریں اور سہارا دیں۔ایسے افراد پہلے ہی اپنے بارے میں منفی رائے قائم کرچکے ہو تے ہیں ، انہیں اس ضمن میںہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ہمیں ان کی اس انداز میں مدد کرنی چاہیے کہ وہ اپنی قائم کردہ رائے کو غلط سمجھنے کے قابل ہوجائیں۔خودکشی کی طرف مائل ہونا دراصل ذہنی مسئلہ ہے۔ اس طرف مائل افراد کو بولنے اور مدد حاصل کرنے کا حو صلہ دیں۔

خودکشی کے حوالے سےموجودحقائق ہمارے معا شر ے کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ہمیںمجموعی طو رپر اپنی پا لیسیز اور رویّے تبدیل کر نے کی اشد ضرورت ہے ۔ حکومت کو ایسی تعزیرات قانون سے خارج کرنے اور اسلحے اور زہر جیسی ضرر رساں اشیا تک رسائی کو کم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ملک میںنفسیاتی ماہرین کی کمی کی وجہ سے بنیادی معالجوں کو یہ سیکھنا ہوگا کہ ذہنی بیماریوں کی کس طرح تشخیص اور علاج کیا جائے اور انہیں ذہنی صحت کے پےچیدہ کیسز کوفوری طورپر ماہرینِ نفسیات کے پا س بھیج دینا چاہیے۔ہمیں ان تمام امور کے لیےبروقت اور بھر پور لگن کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین