(بارہویں قسط) ایک بہادر فلسطینی گھرانے کاتذکرہ نماز مغرب مسجد اقصی میں اداکرکے باب السلسلہ میں واقع بی بی مریم ( جن کا ذکرہم اوپر کرآئے ہیں )ان کے گھر چلے گئے ۔ چھوٹا اورتنگ سا مکان تھا۔ مکان کیا حجرہ ہی سمجھ لیجئے، جس کی کھڑکی مسجد اقصی کے صحن میں کھلتی ہے ۔اس مکان میں وہ بچوں سمیت رہ رہی ہیں ۔ ان کے احوال کے پیش نظر مہمان نوازی کی ساری پیشکشیں ہم نے قبول نہ کیں کہ باوضو رہنا زیادہ پسندیدہ بات ہے ۔اورمسجداقصی میں وضو کرنے کیلئے کافی سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ہماری خواتین نے بی بی مریم کے خاندانی احوال پوچھے جنہیں سن کر بڑا کرب محسوس ہوا ، ان کی اور ان کے بچوں کی دلیری و شجاعت اور قناعت ایک مثال ہے ۔ مریم کا باپ اور بھائی مسجد اقصی کے محافظین میں سے تھے ۔وہ شہید کردیے گئے اور خاوند ایک زمانے سے گم ہیں یا کسی اسرائیلی زنداں میں قید اور یہ صابرہ و شاکرہ خاتون اپنے بچوں پرشفقت مادری کے پرپھیلائے ہوئے ہیں ۔ مختلف قسم کے کام کرکے اپنے بچوں کو پال رہی ہیں ۔ جبکہ آئے دن مسجد اقصی پر آفت نازل ہوتی ہے تواسے بند کردیاجاتاہے ۔اوروہ اپنے گھرمیں قید ہوکر رہ جاتی ہیں۔انہی دنوں16جولائی جمعہ کی صبح کو جب مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے تین فلسطینی نوجوانوں کو شہید کرکے مسجد اقصیٰ بند کردی تھی۔ تو مریم بی بی اپنے ہی گھرمیں تھیں۔ انہوں نے بتایاتھا کہ اسرائیلیوں نے انہیں وارننگ دی تھی کہ تم نے مسجد اقصیٰ کی جانب پردے ڈال کر رکھنے ہیں۔جھانکا بھی تو گولی ماردیں گے ۔ اسی دوران میں ان کی ایک ہمسایہ خاتون بھی آگئی تھیں ان کی کہانی بھی وہی تھی،بلکہ مسجداقصیٰ کے اندرونی حجروں میںمقیم سارے خاندان اسی کرب سے گزر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ بہت خوش ہیں اور اپنے آپ کو سعادتمند سمجھتے ہیں کہ انہیں مسجد اقصی میں مکان ملا ہے (یو ٹیوب پر مریم بی بی کابیان بھی موجود ہے جس میں وہ بڑی دلیری سے یہودکی ڈھٹائی اور جھوٹ کا پردہ فاش کررہی ہیں)انہوں نے بتایاکہ اسرائیلی حکومت ان تنگ و تاریک مکانوں کی منہ مانگی قیمت دینے کیلئے تیار ہے ، لیکن یہ غیور مسلمان کسی قیمت پر بھی یہود کو مسجد اقصی کی زمین بیچنے پر تیارنہیں ہیں۔واللہ ولیھما و علی اللہ فلیتوکل المومنون ۔ میں نے کہا اختی آپ کایہ حجرہ تو بہت مبارک ہے کیونکہ اس کا ذکر توقرآن کریم میں آیا ہے۔ کلما دخل علیھا ذکریا المحراب… اس مناسبت کو سمجھ گئیں او ر … تھوڑی سی ریلیکس ہوگئیں، ہم ان کیلئے جو تحائف لے کر گئے تھے ان کی خدمت میں پیش کیے ۔ اوراجازت لے کر رخصت ہوئے ۔اسی دوران میں نماز عشاء کی اذان ہوگئی اور ہم نماز اداکرنے کچھ ہی فاصلے پر مسجد قبلی میں چلے گئے ۔ مسجد اقصی میں نمازعشاء اورفجرکی اذان جب سنائی دیتی ہے تو انسان کی روح تک وجد میں آجاتی ہے موجودہ موذن ان کانام اب یاد نہیں آرہا۔اتنے پرسوز لہجے میں بغیر کسی تنخواہ کے مسلسل پچیس برس سے عشاء اورفجرکی اذان دے کر سوز کا وہ دریا بہا رہے ہیں کہ ہر کان اس کی سماعت کی لذت سے سرشار ہو جاتا ہے نمازعشاء کے بعد پھر فلسطینی احباب سے ملاقاتیں ہوئیں اورواپسی دمشقی دروازے سے ہوئے یہاں یہودیوں ژ کی بہت زیادہ آمد و رفت جاری تھی ۔ جبل زیتون کاوزٹ اگلی صبح ہمارامقام وزٹ جبل زیتون(Mount of Olives) تھا جو بالکل بیت المقدس کے بازو میں اور قدیم یروشلم سے ملحق ہے ۔ یروشلم اور مغربی کنارے کا ایک پہاڑی سلسلہ کوہ الخلیل کے نام سے مشہور ہے ۔ جبل زیتون اسی سلسلہ کا ایک اہم پہاڑ ہے جس کی اونچائی828 میٹر یا 2710فٹ ہے۔اور اس پہاڑ کی لمبائی ایک میل سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن تاریخ میں اس پہاڑکی بڑی حیثیت ہے۔ دنیاکے تینوں بڑے مذاہب کی یادگاریں یہاں موجود ہیں ۔ انجیل وتورات میں کئی مقام پر اس پہاڑ کا ذکر ہواہے ۔ قرآن کریم میں ایک سورہ التین ہے جس میں بعض مفسرین کے مطابق اس پہاڑ کا تذکرہ کیا گیا ( والتین والزیتون وطور سینین) مفسرین کے نزدیک زیتون کے اس پھل سے مراد زیتون کے پھل کی جائے پیدائش ہے اور یہ فلسطین کا پہاڑ جبل زیتون ہے ۔چونکہ یہاں سب سے زیادہ زیتون کا پھل پیدا ہوتاہے اس لیے زیتون کا استعمال یہاں بہت عام ہے ۔اہل فلسطین اس کااستعمال بہت کثرت سے کرتے ہیں ۔یہاں زیتون کے کئی درخت ہیں جن کی قدامت ہزاروں سال بتائی جاتی ہے ۔مسجد اقصیٰ اور اس کے ارد گرد میںتاریخی تقدس کی خوشبو تو ہے ہی لیکن یہاں کی فضا میں عجیب دلربا سی مہک اور رونق محسوس کی جاسکتی ہے جبل زیتون اور مسجد اقصی کے اردگرد میں بے شمار انبیاء کرام کی قبور شریفہ موجود ہیں ۔مقبرہ زکریا کی تصویر تو موجود ہے ۔باقی بھی انبیائے کرام یہیں کہیں دفن ہوئے ہیں ، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی قبرحتمی طور پر ثابت نہیں ہے ۔روئے زمین پر سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے کسی نبی کی قبر حتمی طور پر ثابت نہیں ہے۔روایت کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو جہاں سے آسمانوں پر اٹھایاگیا ۔ وہ پتھربھی اسی پہاڑ پر مو جود ہے( کوئی ایک میٹر کے قریب اس کی لمبائی ہے) اس پہاڑ اوراس علاقے کی یہ خاصیت ہے کہ پوری دنیا میں یہی ایک خطہ ہے جہاں سے دو انبیاء کو آسمانوں پر اٹھایا گیا ایک سیدنامحمدکریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے حضرت عیسی علیہ السلام ۔جبل زیتون پر کھڑے ہوں تو سامنے بیت المقدس کی پوری دیوار نظر آتی ہے جس کو عثمانی خلافت کے آٹھویں خلیفہ سلطان سلمان القانونی نے تعمیر کرایا تھا۔وجہ اس کی تعمیر کی یہ ہوئی کہ اگرچہ اس سے پانچ سو سال پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرلیاتھا لیکن سترہویں صدی تک برطانیہ ، روس، اٹلی، فرانس اور سپین حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے ۔اس لیے اپنے دفاع کیلئے سلطان سلیمان القانونی نے یہ دیوار بنائی تھی۔یہ بڑی اونچی اور off whiteپتھروں سے بنی ہوئی دیوار ہے۴۵ سے ۵۹فٹ تک اونچی اور تین میل کے قریب اس کا احاطہ ہے ۔جو چار سال کے عرصے میں مکمل ہوئی تھی۔اس دیوار کا فائدہ یہ ہوا کہ مسجد اقصی کا144ایکڑ رقبہ متعین ہو کر محفوظ ہوگیا ورنہ نجانے دشمن اس علاقے کواب تک کتنے حصوں میں تقسیم کرچکے ہوتے باب اسباط سے نیچے ڈھلوان میں اتریں تو بستان جشیمانی اور وادی قدرون کی مغربی جانب جبل زیتون ہے ۔ جبکہ اس کی جڑ میں سے پانچ راستے نکلتے ہیں ۔ اردن ، جافا ،تل ابیب، الخلیل یا حبرون وغیرہ کی جانب یہیں سے سڑکیں نکلتی ہیں۔ جبل زیتون کے علاقے میں کئی چرچ ہیں ۔ان میں مشہور چرچ حضرت مریم کے نام سے منسوب ہےجس کا تذکرہ اوپر ہم نے کیاہے ۔اس پہاڑ پرتینوں مذاہب کے قبرستان بھی ہیں اور کئی مشہور قبور بھی ۔حضرت مریم کی قبر کنیسہ مریم عذرا ء میں ، حضرت داؤد علیہ السلام کی قبرداؤد محل میں ، حضرت زکریا علیہ السلام کے مقبرہ کی نشاندھی بھی کی جاتی ہے،افشالوم (Avshalom)جو یروشلم کا بڑا مضبوط اوربہادر بادشاہ گزراہے اس کی قبرجبل زیتون کی نشیبی وادی قیرون (Yehoshavat)میں ہے بڑی مضبوط یادگار تعمیرکی گئی ہے یونانی دور کی تعمیر لگتی ہے ۔کنیسۃ الصعود… جہاں سے بقول عیسائیوں کے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان کی طرف اٹھائے گئے تھے ۔ یوں تو ایک لاکھ چوالیس ہزار انبیائے کرام (مسند احمد اور ابن حبان کی روایت عن ابی ذرؓکے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام کی ولادت یا بعثت اسی علاقے میںہوئی تھی ۔ اس روایت کو مشکوٰۃ المصابیح (3/1589)میں امام البانیؒ نے صحیح کہا ہے ) ان سب کی قبور مبارکہ اسی فلسطین و شام کے علاقہ میں ہونا ایک فطری بات ہے ۔ لیکن ان کی حتمی نشاندھی سو فیصد یقینی نہیں ہے بس روایات ہی ہیں جو نسل در نسل مشہور ہوتی چلی آرہی ہیں ۔ شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ ؒ کے بقول حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سوا صفحہ ہستی پر کسی قبر کا مقام یقینی نہیں ہے ۔اور نہ ہی کسی نبی بشمول نبی آخر الزمان کی تاریخ پیدائش یقینی طور پر ثابت ہے ۔جو کچھ بھی ہے، آثار و روایات ہیں ، جو نسلا بعد نسل مشہور چلی آرہی ہیں۔یاد رہے کہ جبل زیتون پر واقع یہودکے قبرستان میں عام یہودی دفن نہیں کیے جاتے بلکہ یہاںمشہوراور مالدار یہودیوں کو دفن کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین قبر کی جگہ غالباً یہاں فروخت ہوتی ہے۔ ایک قبر کم ازکم پانچ ملین ڈالرکی بکتی ہے۔اور ان قبروں کوپختہ مگر سوراخوں والی سلیبوں سے ڈھانپاگیاہے کہ یہودیوں کی روحوں کو پختہ قبروں سے نکلنے میں دیر نہ لگے اور وہ فوراً پرواز کرجائیں …مگر کس جانب…؟ہم نے انہیں تبشیر بالنار کی دعائے مسنون دی پہاڑ کی ڈھلان پر قبریں ہی قبریں نظر آئیں پتھر یا سیمنٹ کی سلیب سے ڈھکی ہوئیں ہر قبر کے ایک طرف سوراخ رکھاگیا ۔ جبل زیتون پر تینوں مذاہب کی یادگاریں موجود ہونے کی وجہ سے ان سب کے نزدیک اس پہاڑ کی بڑی اہمیت ہے۔ جبل زیتون پرسلمان فارسی ؓ اوررابعہ بصریؒ کے مقامات جبل زیتون پرکئی تاریخی مقامات ہیں ۔ان میں سے ایک احاطے میں دو مشاہیر کی طرف منسوب مقامات بھی ہیں ۔مشہور صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامقام بھی مشہور ہے جہاں ایک چھوٹی سی مگر خوبصورت مسجد بھی موجودہے۔ اس کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے یہ سفید گھنی ریش، چوڑا ماتھا خوبصورت نین و نقوش والے ایک بزرگ ہیں…جانتے ہیں یہ کون ہیں…یہ ہیں 76سالہ مفتی اعظم فلسطین جناب محمدالحسینی ۔ صدیوں سے حسینی خاندان بیت المقدس کے منصب افتاء پر مسند نشین ہے ہمارے دور شعور میں جب اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی تھی تو اس وقت انہی کے والدتھے امین الحسینی ۔سب کے ناموں میں حسینی آتا ہے ۔ مفتی امین الحسینی نے مسلم دنیامیں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں بڑانمایاں کردار ادا کیا ہے ۔اسی وجہ سے ان کی شخصیت عالم دنیا میں فلسطین کے نمائندہ کے طور پر معروف ہے اور انہیں ایک سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملتا ہے ۔موجودہ مفتی صاحب علم ،و ادب، تقویٰ اور نرم روئی کاعنوان ہیں ۔ہرآنے جانے والوں سے گرمجوشی سے ملتے اورحال احوال پوچھتے ہیں انہیں بہت دعائیں دیتے ہیں ۔بالخصوص یورپ سے آنے والے زائرین کو دیکھ کر انہیں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپ سے مسلمان آزادنہ بیت المقدس آجا سکتے ہیں ۔ان کے خدام حاضرین زائرین کی چائے کافی اور پھلوں سے تواضع کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس کاامام بننا یا منصب افتاء کی ذمہ داری سنبھالناکوئی معمولی منصب نہیں ہے، جہاں یہ بڑے اعزاز کی بات ہے ورنہ یہ بڑی نازک ذمہ داری بھی ہے ۔ ہر وقت جان کو خطرہ رہتا ہے ۔لیکن فلسطینیوں کیلئے ایسے معرکے کوئی اجنبی بات نہیں ہیں ۔ ان کی مائیں اپنے دودھ کیساتھ انہیں اس مغضوب علیہ قوم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کاجذبہ بھی پلاتی ہیں ۔ تقبل اللہ مساعیھم ۔