میزبان:محمد اکرم خان۔۔۔ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
حکومت کی عدم سنجیدگی اور غفلت کی وجہ سے دہشت گردوں کی مالی معاونت نہیں رک سکی، حکمرانوں پر منی لانڈرنگ کے الزامات کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر خراب ہو رہا ہے،ملک میں ایماندار قیادت موجود نہیں،چار برس تک باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر نہ کرنے کی وجہ سے ملک کا نقصان ہوا،سعودی عرب ،
امریکا کے زیرِ اثر ہے،پاکستان، چین سے احتجاج نہیں کر سکتا،غیر ریاستی عناصرکو کنٹرول اور فرقہ واریت کو روکنا ہوگا،بلیک لسٹ میں جانے سےپاکستانی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے، حوالہ، ہنڈی کا سلسلہ روکنے کے لیے پاکستانی تارکینِ وطن کو سہولتیں فراہم کی جائیں
ایئر وائس مارشل (ر)ڈاکٹر ایم عابد رائو
کانفرنس سے قبل پاکستان نے مطلوبہ اقدمات نہیں کیے، احسن اقبال اور مفتاح اسمٰعیل کو تاخیر سے بیرونی ملک دوروں پر بھیجا گیا، حتمی فیصلے سے قبل خواجہ آصف کی ٹویٹ کی وجہ سے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا، بھارت نے اپنے کارڈز اچھے انداز میں کھیلے،
امریکا نے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے یہ معاملہ اٹھایا، سعودی عرب، امریکا کا ہم نوا ہے، فیصلے کے سیاسی اثرات برآمد ہوں گے، ہمارے اقتصادی معاہدے برقرار رہیں گے، بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان پر 20فیصد سے زیادہ عملدرآمد نہیں کیا گیا،بلیک لسٹ میں آنے سے بچنے کے لیے پاکستان اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے خلاف فوری کارروائی کرے
ڈاکٹر ہما بقائی
پاکستان کے مالیاتی اداروں نے ٹیرر فنانسنگ روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے، لیکن کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں نہیں روکی گئیں،امریکا میں پاکستانی بینک پر جرمانہ عاید کرنے سے بھی پاکستان کو نقصان پہنچا،
گرے لسٹنگ یا بلیک لسٹنگ کے پاکستان پر براہِ راست تو کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، لیکن اگر امریکا نے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لینے کی کوشش کی، تو ہم معاشی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے، امریکا کے کہنے پر آئی ایم ایف پاکستان پر اپنی کرنسی کی قدر کم کرنے اور ٹیکس اور شرحِ سود بڑھانے اور قرضوں کے لیے سخت شرائط عاید کر سکتا ہے، ایف اے ٹی ایف یہ بھی دیکھے گی کہ صرف 2فیصد ادائیگی پر ایسے افراد کو ایمنسٹی تو نہیں دی جا رہی کہ جو منی لانڈرنگ میں ملوث رہے ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت کوکوئی فکر نہیں،بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لیے کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں کو گرفتار کرنا ہوگا
مزمل اسلم
پاکستانی حکومت نے گرے لسٹنگ سے بچنے کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی تھیں،ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں سعودی عرب اور چین نے بھی پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ امریکا نے سعودی عرب کو ایف اے ٹی ایف کا رکن بنانے کی پیشکش کی ، جبکہ چین سے ایف اے ٹی ایف کی صدارت دینے کا وعدہ کیا گیا ،
چین، پاکستان کا ساتھ دینے پر تیار تھا، لیکن جب خواجہ آصف نے کانفرنس کا پروٹوکول توڑا، تو چین اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس نے ہماری حمایت پر اپنے مفادات کو ترجیح دی، امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور اسی لیے پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے ، حکومت امریکا کے تمام مطالبات تسلیم کرلے گی اور پاکستان بلیک لسٹ میں آنے سے بچ جائے گا
ظفر ہلالی
گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزام اور اس کی روک تھام کے لیے ناکافی اقدامات پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں شامل کر لیا اور اگر جون تک پاکستان نے مطلوبہ اقدامات نہ کیے، تو اس کے بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کا خطرہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں 37رکن ممالک میں سے صرف ترکی نے پاکستان کی حمایت کی، جبکہ سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اس اقدام کو امریکا کی جانب سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں بھارت کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اجلاس سے قبل اور اس کے دوران بھارت نے اپنے کارڈز بڑے عمدہ انداز میں کھیلے، جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو گئی اور اب پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔گزشتہ دنوں ’’پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں دفاعی تجزیہ کار، ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر ایم عابد رائو، آئی بی اے کراچی کی ایسوسی ایٹ ڈین اور ماہرِ بین الاقوامی امور، ڈاکٹر ہما بقائی، ای ایف جی ہرمیس گروپ کے سی ای او اور ماہرِ معیشت، مزمل اسلم اور سابق سفیر اور سیاسی تجزیہ کار، ظفر ہلالی نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم کے شرکا کے سامنے یہ سوالات رکھے گئے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی وجوہ کیا ہیں؟ کیا ہم مطالبات پورے نہیں کر پائے؟ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہو سکتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے پاکستان کو کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟ سمیت دوسرے سوالات رکھے گئے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
ایئر وائس مارشل (ر)ڈاکٹر ایم عابد رائو
دفاعی تجزیہ کار
اس وقت پاکستان ایک تکلیف دہ دور سے گزر رہا ہے۔ بھارت اور امریکا ایک ہو چکے ہیں۔ امریکا، چین کو سائوتھ چائنا سی میں گھیرنا چاہتا تھا، لیکن وہ سی پیک کے نتیجے میں 2500کلو میٹر کا راستہ طے کر کے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ یورپ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور روس تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ چین کا یہ منصوبہ خاصا کامیاب رہا اور اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہے اور بھارت کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ سی پیک منصوبے کے نتیجے میں چینی فوج گوادر آجائے گی، جس کی وجہ سے امریکا اور بھارت دونوں خوفزدہ ہیں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت، چین کو آگے بڑھنے سے روکے اور بھارت بھی اس کی مدد کرنے پر آمادہ ہے۔ اب جہاں تک منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ یا دہشت گردوں کی مالی معاونت کا تعلق ہے، تو یہ حکومت کی غفلت یا غیر سنجیدگی ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والی رقم مدارس کو جا رہی ہے اور مدارس کی انتظامیہ اس کی چھان پھٹک پر بھی تیار نہیں۔ پھر نائن الیون کے بعد بھارت دنیا بھر میں یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ نہیں ہو رہی، بلکہ پاکستان وہاں مداخلت کر رہا ہے اور امریکا، بھارت سے وابستہ اپنے مفادات کی وجہ سے بھارتی فوج کے مظالم سے نظریں چرا رہا ہے۔ یہ یقیناً امریکا اور یورپ کی دو عملی ہے۔ گزشتہ دنوں نیتن یاہو نے اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر نریندر مودی کو یہ مشورہ دیا کہ وہ کشمیریوں پر مزید ظلم ڈھائے، تاکہ ان کی مزاحمت دم توڑ جائے۔ پاکستان کی بدنامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک کمزور ملک ہے اور اسی لیے اسے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پھر پاکستان اندرونی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برس سے زاید عرصے سے پاناما اسکینڈل کا معاملہ چل رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں پر بھی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ یعنی ملک میں ایسی دیانتدار قیادت ہی موجود نہیں کہ جو ملک کی سمت کا تعین کر سکے اور تمام خرابیوں کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہمیں اس وقت نئی اور ایماندار قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ مذہبی جماعتوں کی وجہ سے ملک میں فرقہ واریت بڑھ رہی ہے اور ان کی وجہ سے عوام میں بھی کنفیوژن پائی جاتی ہے اور عوام میں اتفاق لیڈر شپ ہی پیدا کر سکتی ہے۔ اس وقت ملک کو دلدل سے نکالنے والا کوئی رہنما نہیں۔ حکومت غفلت اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے چار برس تک باقاعدہ وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا، جس کی وجہ سے ملک کا نقصان ہوا۔ اب افغان حکومت بھی اپنے ملک میں دہشت گردی کا الزام ہم پر عاید کرنے لگی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھارت کی ایران، اسرائیل، عرب ممالک سب ہی سے دوستی ہے، جبکہ ہمارے دشمن بڑھتے جا رہے ہیں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے اور اسے اپنا دشمن نہ سمجھے، لیکن جب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں، بھارت ہم سے بات کرنے پر ہی آمادہ نہیں۔ تاہم، پاکستان کو اپنے کسی دوست ملک کی مدد سے بھارت سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے تھے۔ بعض بھارتی ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور جب بتدریج مثبت روابط قائم ہو جائیں گے، تو پھر مسئلہ کشمیر پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس وقت دونوں ممالک میں اعتماد کا بہت زیادہ فقدان ہے اور وہ اپنے ملک میں ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا الزام پاکستان پر عاید کر دیتا ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا اپنے عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، جبکہ بھارت میں مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر کسی کی نظر نہیں پڑتی، تو یہ ہماری حکومت کی ناکامی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے پوری قوم کو بھکاری بنا رکھا ہے اور یہ قوم کو اس لیے متحرک نہیں کرتے کہ ان کے اپنے مفادات ملک سے باہر ہیں اور ایک دوسرے کو بچانے میں مصروف ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ اور ایف آئی ایف کو ہماری حکومت نے غیر ریاستی عناصر قرار دیا ہے اور پھر دفاعِ پاکستان کائونسل بھی وجود میں آجاتی ہے اور اس کا پاکستان کے دفاع سے کیا تعلق ہے۔ اس قسم کی تنظیمیں اور جماعتیں انڈیا سینٹرک ہیں اور ہمیں انہیں کنٹرول کرنا چاہیے۔ اب جہاں تک چین اور سعودی عرب کی جانب سے حمایت نہ کرنے کی بات ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت سعودی عرب، امریکا کے زیرِ اثر ہے اور وہ امریکا کی مخالفت مول نہیں لے سکتا، جبکہ چین اپنے صوبے سنکیانگ میں جاری مزاحمت کی وجہ سے تنگ ہے اور کئی بار پاکستان سے احتجاج بھی کر چکا ہے۔ طالبان نے پاکستان میں بہت ظلم کیا۔ یہ اسلام کی تعلیمات سے دور ہیں اور کرائے کے جنگجو ہیں۔ پاکستان حمایت نہ کرنے پر چین سے احتجاج بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ اسلام آباد کو بیجنگ کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے چین کو راہداری کی نہ صرف اجازت دی، بلکہ اسے سہولتیں بھی فراہم کر رہا ہے اور اپنے مفادات کے لیے پاکستان میں 46ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہو جاتا ہے، تو اس کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ اس وقت پاکستان کی 90فیصد تجارت شمالی امریکا اور یورپ سے ہوتی ہے اور اگر انہوں پاکستان سے تجارت پر پابندی عاید کر دی، تو اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو تین ماہ میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے، لیکن جب ہمارے اپنے حکم رانوں ہی پر منی لانڈرنگ کے الزامات عاید ہوں، تو پھر کون ہماری بات کا یقین کرے گا۔ خیال رہے کہ بھارت اور فلپائن سمیت دوسرے ممالک میں بھی حوالہ، ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجی جاتی ہیں اور دنیا کے بعض ممالک میں پاکستان سے زیادہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے اور پاکستان سے ہونے والی منی لانڈرنگ سے یورپی ممالک کو فائدہ پہنچتا ہے، لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی وہ خود اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ حوالہ، ہنڈی کا سلسلہ روکنے کے لیے پاکستانی بینکوں کو تارکینِ وطن کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کو غیر ریاستی عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہو گی۔ فرقہ واریت کو روکنا ہو گا۔ شدت پسندی کو کم کرنا ہو گا اور بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی یہ خواہش تھی، لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی پالیسی نہیں بنائی۔
ڈاکٹر ہما بقائی
ماہرِ بین الاقوامی امور/ ایسوسی ایٹ ڈین آئی بی اے کراچی
اگر ہم پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہونے کا وسیع تناظر میں جائزہ لیں، تو اس کا سبب یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان پر مزید دبائو بڑھانا چاہتی ہے اور پاکستان کے لیے امریکی امداد روکنا، پاکستان مخالفت بیانات دینا اور مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عاید کروانا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ امریکا کے کہنے پر اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا۔ دراصل، گزشتہ دنوں پاکستان کی عسکری قیادت نے بعض ایسے فیصلے کیے ہیں کہ جو امریکا اور برطانیہ کو ناگوار لگے ہیں اور انہیں ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کہا جا رہا ہے۔ پاک فوج کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن ہماری ذمہ داری نہیں۔ پاکستان کو 2008ء ہی سے دبائو میں لیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے اوراب اس میں تیزی آ گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی انتظامیہ پاکستان کو مکمل طور پر دیوار سے بھی نہیں لگا سکتی کہ اسے ابھی پاکستان سے کام لینا ہے اور اسی لیے امریکی حکام وقتاً فوقتاً پاکستان کے دورے پر آتے رہتے ہیں۔ اب پاکستان کو امریکا کی یہ حکمتِ عملی سمجھ میں آ گئی ہے اور اسے چین کی وجہ سے حوصلہ بھی ملا ہے۔ اب جہاں تک پاکستان کی گرے لسٹنگ کی بات ہے، تو اس کا سبب کانفرنس سے قبل مطلوبہ اقدامات نہ کرنا تھا۔ ہم پہلے بھی گرے لسٹ میں شامل رہے ہیں اور 2015ء میں اس سے نکالا گیا اور 2018ء میں پھر شامل کر لیا گیا۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے چند روز قبل ہی جماعۃ الدعوۃ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا، جس سے دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے دوران روانی سے چینی زبان بولنے والے ایک بھارتی نمایندے بیجنگ میں موجود تھے اور انہوں نے چین کو پاکستان کی حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا اور اس کے بدلے میں بیجنگ کو ایف اے ٹی ایف کی صدارت کی پیشکش کی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اور چین نے اپنے کارڈز درست استعمال کیے اور پاکستان ایسا نہ کر سکا۔ پھر پاکستانی وزیرِ خارجہ نے کانفرنس کا حتمی فیصلہ آنے سے قبل ہی یہ اعلان کر دیا کہ چین، سعودی عرب اور ترکی سمیت دیگر دوست ممالک اس کی حمایت کریں گے، جس کے رد عمل میں ترکی کے سوا دیگر ممالک پر منفی اثر مرتب ہوا اور انہوں نے پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یعنی 37رکن ممالک میں سے صرف ترکی نے پاکستان کی حمایت کی۔ میرے خیال میں اس فیصلے کے معاشی سے زیادہ سیاسی نتائج برآمد ہوں گے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اقتصادی معاہدوں پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ البتہ بدنامی ضرور ہو گی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں چین کو پہلے بھی پاکستان سے شکایات تھیں اور بیجنگ کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چین کے لیے امریکا اور بھارت بھی اہم ہیں۔ تین ماہ بعد بلیک لسٹ میں شمولیت سے بچنے کے لیے پاکستان کو ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنی ہو گی کہ جن پر اقوام متحدہ نے پابندی عاید کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر ہم کب تک ایسی تنظیموں کی حمایت جاری رکھیں گے کہ جو دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب بھی امریکا کے کیمپ میں شامل ہو چکا ہے اور یہ دونوں مل کر پاکستان پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔ اب پاکستان میں وہابی نیکسز ٹوٹ چکا ہے اور سعودی عرب بھی لبرلائزیشن کی طرف جا رہا ہے۔ ہمارے پاس نیشنل ایکشن پلان موجود ہے، لیکن بد قسمتی سے اس پر 20فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور قوم میں اتفاقِ رائے ہی نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر جامعہ حقانیہ کو دی گئی امداد کے حوالے سے ہی قوم تقسیم کا شکار ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے قبل پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے احسن اقبال اور مفتاح اسمٰعیل نے مختلف ممالک کے دورے کیے تھے، لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ حکومت کو کافی پہلے اقدامات کر لینے چاہیے تھے، لیکن حکم ران جماعت اپنا اقتدار بچانے میں مصروف ہے۔ پھر دنیا بھر میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت اور شدت پسند تنظیموں کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ ہے، جسے پاکستان مسترد کرتا ہے اور پاک فوج کا ماننا ہے کہ وہ ایک وقت میں اتنے زیادہ محاذ نہیں کھول سکتی۔ تاہم، اس ضمن میں وزارتِ خارجہ کی ناکامی کو بھی بعید از امکان قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر وزیرِ خارجہ، خواجہ آصف ٹویٹ کرنے سے قبل تہمینہ جنجوعہ سے مشورہ کر لیتے، تو شاید وہ انہیں منع کرتیں اور یہ نوبت نہ آتی ۔ تاہم، خواجہ آصف کی نسبت مفتاح اسمٰعیل زیادہ معقول شخص ہیں اور انہیں مثبت کوششیں کیں۔
مزمل اسلم
ماہرِ معیشت/ سی ای او ای ایف جی ہرمیس گروپ
ایف اے ٹی ایف میں امریکا نے برطانیہ اور جرمنی سمیت دوسرے یورپی ممالک کی مدد سے یہ قرارداد پیش کی تھی کہ پاکستان منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ یا دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے نتیجہ خیز کوششیں نہیں کر رہا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ اور دہشت گردی کی حمایت کے خلاف اقدامات کرتی ہے۔ یہ ٹاسک فورس 37ارکان پر مشتمل ہے، جن میں یورپی و خلیجی ممالک کے علاوہ چین، جاپان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ سال میں دو مرتبہ ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہوتا ہے اور تیکنیکی ماہرین پر مشتمل اس کی کمیٹیاں اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کو کیسے روکا جائے۔ اس موقع پر رکن ممالک مختلف ریاستوں کے بارے میں اپنی رپورٹس بھی پیش کرتے ہیں، جن کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کافی عرصے سے عاید کیے جا رہے ہیں اور جب 23فروری کو ایف اے ٹی ایف کا اجلاس شروع ہوا تھا، تو اس کے ایجنڈے میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی شامل تھا۔ پاکستان اس سے قبل بھی ایف اے ٹی ایف کی گرے اور بلیک لسٹ میں شامل رہا اور اسے 2015ء میں کلیئرینس ملی اور اب ہمیں دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے اور جون میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پاکستانی حکومت نے گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے دوست ممالک بھی شامل ہیں اور یہاں اکثریت کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کو امید تھی کہ چین اور خلیجی ممالک سمیت دیگر دوست ممالک اس کا ساتھ دیں گے، لیکن فیصلہ پاکستان کے خلاف آیا۔ پاکستان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ ہمارے وزیرِ خارجہ، خواجہ آصف نے اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کی حمایت کی خوشخبری سنا دی تھی اور ایف اے ٹی ایف کے پروٹوکول کے خلاف تھا۔ حالانکہ اجلاس ختم ہونے سے پہلے کوئی اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ آصف کے اس بیان کو مخالف ممالک نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور پھر ہمارے دوست ممالک کو بھی ہماری حمایت سے دستبرداری پر مجبور ہونا پڑا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے پاکستانی معیشت اور عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ایک ماہر معیشت کے طور پر میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارے مالیاتی اداروں نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے۔ اس ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی نے تحقیقات کیں اور شواہد طلب کیے اور ملک میں اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون بھی نافذ کر دیا گیا ہے، لیکن کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عاید نہیں کی گئی، جن میں حافظ سعید کی جماعۃ الدعوۃ بھی شامل ہے، جس پر بھارت کو شدید تحفظات ہیں۔ پھر دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام کر رہی ہیں۔ نیز، گزشتہ دنوں اسی قسم کی شکایات پر امریکا کے فیڈرل ریزرو بینک نے پاکستان کے ایک بہت بڑے بینک، حبیب بینک پر تقریباً 25ارب روپے کا جرمانہ بھی عاید کیا۔ اسی طرح چند برس قبل امریکا نے یو بی ایل کو اپنی کمپلائنس بہتر بنانے کی ہدایت دی تھی۔ یہ تمام عوامل پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ ہمارے مالیاتی اداروں نے تو کوششیں کیں، لیکن حکومت بیرونی دنیا کو پاکستان کی حمایت پر آمادہ نہیں کر سکی۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ، احسن اقبال اور مشیر خزانہ مختلف ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بیرونی دوروں پر گئے، لیکن انہیں بھی ایف اے ٹی ایف کا اجلاس شروع ہونے سے چند روز پہلے ہی بھیجا گیا، جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ چوںکہ ہم ماضی میں ایف اے ٹی ایف کی گرے اور بلیک لسٹ میں شامل رہے ہیں، تو اس دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ اس کی وجہ سے ہماری معیشت پر کوئی زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے، بلکہ ہماری آمدنی میں اضافہ ہوا۔ 2013ء سے 2015ء کے دوران پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوتی رہی، لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تب ہم امریکا کی نظر میں اتنے برے نہیں تھے، لیکن اس وقت پاکستان اور امریکا میں خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے اور پھر ایف اے ٹی ایف میں یہ معاملہ امریکا ہی لایا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دوسرے عالمی مالیاتی ادارے ایف اے ٹی ایف کا حصہ ہیں اور ان پر امریکا کا گہرا اثر و رسوخ ہے اور گزشتہ دس برس سے پاکستان کی معیشت چلانے میں آئی ایم ایف نے بڑا کردار ادا کیا اور موجودہ دور حکومت میں پاکستان کو خاصی رعایتیں دیں۔ اب قرضوں کا ادائیگی کا وقت آن پہنچا ہے اور ایسے میں اگر امریکا آئی ایم ایف کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، تو نتیجتاً پاکستان کا تجارتی خسارہ مزید بڑھ جائے گا اور اسے ادائیگیوں میں توازن برقرار رکھنے میں بھی مشکلات ہوں گی۔ نیز، پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور مزید قرضے سخت شرائط پر ملیں گے۔ مثال کے طور پر اگر امریکا کے کہنے پر آئی ایم ایف نے پاکستان پر اپنی کرنسی کی قدر کم کرنے اور ٹیکس اور شرحِ سود بڑھانے کی شرائط عاید کر دیں، تو اس کے پاکستانی عوام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پھر جون ہی میں موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تین ماہ بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہو جائیں گے اور اس موقع پر اگر امریکا عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، تو ہمارے لیے معاشی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ان تین ماہ کے دوران حکومت نے انتخابات کی تیاری بھی کرنی ہے اور بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے اقدامات بھی کرنے ہیں، جو زیادہ ضروری ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کا دبائو کم کرنے کے لیے کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں کو گرفتار کرنا ہو گا، لیکن اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی بھی اہم ہو گی۔ البتہ پاکستان کے مالیاتی ادارے پہلے ہی اچھا خاصا کام کر چکے ہیں۔ اب جہاں تک حوالہ، ہنڈی کی روک تھام کی بات ہے، تو ان کے ذریعے دولت ان ممالک میں جاتی ہے، جو ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے مخالف ہیں اور وہ خود روک تھام کے لیے کوششیں کیوں نہیں کرتے۔ یہ پاکستان کو دبائو میں لینے کی ایک کوشش ہے، لیکن پاکستانی حکومت میں کوئی ہلچل نظر نہیں آ رہی اور بیرون ملک موجودہ سرمایہ ملک میں لانے کے بہ جائے ایمنسٹی اسکیم کی بات کی جا رہی ہے، لیکن ایف اے ٹی ایف یہ بھی دیکھی کہ صرف 2فیصد ادائیگی پر ایسے افراد کو ایمنسٹی تو نہیں دی جا رہی کہ جو منی لانڈرنگ میں ملوث رہے ہیں۔ اگرچہ بھارت میں بھی ایمنسٹی اسکیم لائی گئی، لیکن اس کی شرائط بہت سخت تھیں۔ اب تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ تاہم، آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حکومت پاکستان اپنے کارڈز کس طرح کھیلتی ہے۔ اس وقت شمالی کوریا بھی بلیک لسٹ میں شامل ہے اور اس پر بہت زیادہ اقتصادی پابندیاں عاید ہیں اور وہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا 2012ء سے بلیک لسٹ میں شامل ہے، لیکن اس کی معیشت پر بھی کوئی زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ گرے لسٹنگ یا بلیک لسٹنگ کے پاکستان پر براہِ راست تو کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، لیکن اگر امریکا نے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لینے کی کوشش کی، تو ہم معاشی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق آیندہ بجٹ4 مئی کو پیش کیا جائے گا اور اس میں ترقیاتی کاموں کے لیے ایک بڑا حصہ مختص کیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ یہ کس مد میں دیا جائے گا اور پھر نگراں حکومت قائم ہو جائے گی۔ اگر چہ چین اور سعودی عرب پاکستان کے دوست ممالک ہیں، لیکن انہوں نے فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر پاکستان کی حمایت نہیں کی اور اگر وہ پاکستان کی سپورٹ کرتے، تو ان کی اپنی ساکھ خراب ہوتی۔ تاہم، یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ منی لانڈرنگ بھارت سمیت دوسرے ممالک میں ہم سے زیادہ ہو رہی ہے، لیکن صرف پاکستان ہی پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے، جو اقوامِ عالم کی دو عملی ہے۔
ظفر ہلالی
سابق سفیر /تجزیہ کار
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹاسک فورس یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کر رہا ہے اور پاکستان نے نہ ہی ان کی عدم موجودگی کا ثبوت دیا اور نہ ہی ان الزامات کو مسترد کیا اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی تیاری ہی نہیں کی تھی اور نہ ہی گرے لسٹنگ سے بچنے کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں۔ اب جہاں تک کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے کی بات ہے، تو اس میں وزارتِ خارجہ کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کے پاس قوتِ نافذہ نہیں ہے اور اگر کوئی دہشت گرد کھلم کھلا گھوم رہا ہے، تو اسے فارن آفس تو پکڑ کر جیل میں بند نہیں کر سکتا۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں سعودی عرب اور چین نے بھی پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ امریکا نے سعودی عرب کو ایف اے ٹی ایف کا رکن بنانے کی پیشکش کی ہے، جو اس وقت مبصر ہے، جبکہ چین سے ایف اے ٹی ایف کی صدارت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر ہمارے وزیر خارجہ، خواجہ آصف نے بھی عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا، جس سے ہمارا نقصان اور مخالفین کا فائدہ ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے وزرا میں کتنی اہلیت پائی جاتی ہے۔ چین، پاکستان کا ساتھ دینے پر تیار تھا، لیکن جب خواجہ آصف نے کانفرنس کا پروٹوکول توڑا، تو چین اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس نے ہماری حمایت پر اپنے مفادات کو ترجیح دی اور پھر پاکستانی وزیرِ خارجہ کے اس اقدام سے چین کو ندامت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے پیچھے امریکا اور بھارت کا ہاتھ ہے اور خدا نہ کرے کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہوں۔ تاہم، پاکستان کو دوسروں کے مطالبات پر عمل کرنے کے بہ جائے اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے، لیکن نہ جانے کیوں دنیا کو یہ سب نظر نہیں آتا اور پھر ہم اپنا موقف دنیا تک پہنچا نہیں پاتے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور بھارت مخالف پالیسی ترک کر دے اور وہ اسی لیے پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے کہ وہ اس پر مجبور ہو جائے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت امریکا کے تمام مطالبات تسلیم کرلے گی اور پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں بھی آنے سے بچ جائے گا۔ اس سلسلے میں جماعۃ الدعوۃ کے خلاف گھیرا مزید تنگ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت حکومت صرف اپنا اقتدار بچانے میں مصروف ہے اور ایسے میں یہ امریکا کی ناراضی مول نہیں لے سکتی۔ تاہم، ہمیں اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ موجودہ حکومت امریکی مطالبات کے خلاف اسٹینڈ نہیں لے سکتی اور نہ ہی اس میں اتنی اہلیت ہے۔